ایمل خٹک
سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی 39 اسلامی ممالک پر مشتمل فوجی اتحاد کی کمان سنبھالنے کی خبر سے پاکستان میں کئی حوالوں سے زبردست بحث چھڑ چکی ہے ۔ جس میں پاک سعودی عرب تعلقات کے حوالے سے بھی کئی باتیں ہو رہی ہے ۔ اس ضمن میں یہ سوالات بڑے اہم ہیں کہ پاک ۔سعودی تعلقات برا درانہ ہیں یا فدویانہ ؟ یہ تعلقات دونوں ممالک کے عوام کے بیچ ہیں یا صرف سعودی اور پاکستانی اشرافیہ کے درمیان؟ آیا یہ تعلقات یک طرفہ ہیں یا دو طرفہ؟
بدقسمتی سے سعودی عرب کے حوالے سے بحث اکثر سطحی اور جذباتیت پر مبنی ہوتی ہے۔ جس کی وجہ اور وجوہات کے علاوہ اس سے وابستہ غیر ضروری تقدس بھی ہے۔ اس تقدس کی وجہ سے پاک۔سعودی تعلقات کے بہت سے منفی اور ناخوشگوار پہلووں پر عموماً یا تو بات نہیں ہوتی اور یا اس کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔
سابق آرمی چیف کی مجوزہ تقرری کے فیصلے کی حمایت کرنے والے زیادہ تر ایک خاص مسلک کے لوگ ہیں جن پر جذباتیت اور فرقہ وارانہ جذبات غالب ہیں ۔ حمایت کرنے والے سعودی عرب میں مقدس مقامات کی وجہ سے سعودی فرمانروا کو بھی مذ ہبی تقدس کا درجہ دیتے ہیں۔ مذہبی مقامات کا تقدس اور احترام اپنی جگہ مگر سعودی شاہی خاندان کو تقدس کا درجہ دینے کی منطق سمجھ سے بالا تر ہے۔
مذہب یا مقدس مقامات اور شاہی خاندان دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔ سعودی عرب میں مقدس مقامات کی موجودگی کا ھرگز یہ مطلب نہیں کہ وہاں کے حکمران بھی مقدس ہونگے ۔تقدس اور احترام کا یہ پیمانہ نہ تو انسانی ہے اور نہ مذہبی۔ سعودی حکمران بادشاہت کو بچانے کیلئے مذہبی کارڈ استعمال کررہے ہیں ۔ اور اپنے خالصتا ذاتی یا انسانی یا سیاسی مفادات کو مذہبی لبادہ پہناتے ہیں ۔ اس طرح عربوں میں رائج کئی قبائلی تعصبات کو مذہبی رنگ دے رہے ہیں جس کی حالیہ مثال تیسری جنس پر عمرے اور حج ادا کرنے کی پابندی ہے۔
اگر پاک سعودی تعلقات کو قریب سے دیکھا جائے تو اس پر تقدس کے علاوہ ریال کی چمک کا بھی زیادہ اثر ہے ۔ اسلئے خواص اس دوستی کو تحسین کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ جبکہ عوام کا معاملہ مختلف ہے۔ عوام میں سعودی حکومت کے بارے میں منفی جذبات روزافزوں ہیں۔ سعودی حکومت کی فرقہ وارانہ ایجنڈے اور خود غرضانہ پالیسیوں کی وجہ سے عوام میں نفرت بڑھ رہی ہے ۔ اس ایجنڈے کے تحت پاکستان میں پہلے ایک مخصوص انتہا پسند مذہبی برانڈ متعارف کرایا گیا ۔ پھر اس کو عسکریت پسندی کی راہ پر لگایا گیا اوربعد میں اس میں انتہاپسندی کے نت نئے تجربے کئے گئے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات برادرانہ سے زیادہ فدویانہ ہیں ۔ سعودی عرب سے مذہبی عقیدت کے باوجود دونوں ممالک کے عوام کی سطع پر کوئی خوشگوار تعلق قائم نہیں۔اس کی وجہ سعودی حکومت اور عوام کا پاکستانیوں سے انتہائی غیر مساوی اور امتیازی سلوک ہے۔ پاکستانی اشرافیہ کا سعودی شاہی خاندان کے ساتھ کچھ خاص قسم کے تعلقات ایک طرف مگر سعودی عرب میں اکثر پاکستانی تارکین وطن کی زندگی غلاموں سے بھی بد تر ہے۔ سعودی عرب میں پاکستانیوں سے ذلت آمیز سلوک کا اثر اندرون ملک بھی پڑتا ہے۔
بہت سے امور میں سعودی حکومت اور سعودی باشندے پاکستانی شہریوں سمیت دیگر ترقی پزیر ممالک کے شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتتے ہیں ۔ کاروباری معاملات میں پاکستانیوں کا موقف درست یا حق پر ہونے کے باوجود ان کی بات سنی نہیں جاتی اور سعودی شہریوں کو ان پر فوقیت دی جاتی ہے۔ اور بعض اوقات سعودی شہری ان کو دانستہ طور پر تنگ کرتے ہیں۔ اور ان کا کاربار میں حصہ یا تنخواہ یا واجبات ہڑپ کرنے کیلئے ان پر جھوٹے مقدمے بناتے ہیں ۔ سعودی باشندوں کی تارکین وطن کو بلاوجہ مارنے پیٹنے اور ذلیل و خوار کرنے کے واقعات بھی عام ہیں۔
کچھ علماء اور حکمرانوں کو چھوڑ کر جن کو ہر سال مفت عمرے ، سرکاری حج کی اور بیش قیمت تحفے تحائف خیرات میں ملتی ہے اکثر پاکستانیوں کا سعودی حکومت اور باشندوں کے بارے میں رویہ بڑا منفی ہے۔ حکومت کو کثیر امداد جبکہ پاکستانی مدارس ، مذہبی اداروں اور شخصیات کو سالانہ بڑے بڑے عطیات ملتے ہے ۔ پاکستان میں مذہبی منافرت، تشدد اور عسکریت پسندی کے فروغ میں نا عاقبت اندیش ریاستی پالیسیوں کے علاوہ سعودی حمایت یافتہ مذہبی اداروں اور تنظیموں کا بھی ا ہم رول ہے۔
اس میں شک نہیں کہ پاکستان عرصہ دراز سے ایران اور سعودی عرب کی پراکسی وارز کا میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ دونوں ممالک اپنے اثرورسوخ بڑھانے اور برقرار رکھنے کیلئے اپنے اپنے حمایتیوں اور ہم مسلک افراد کی حفاظت اور حمایت کرتے ہیں ۔ مگر پاکستان کی بربادی اور تباہی ، مذہبی فساد پھیلانے میں سعودی عرب سمیت کچھ عرب خیر خواہوں کا بڑاہاتھ ہے۔ بعض مواقعوں پر سعودی عرب کی فراخدلانہ امداد اپنی جگہ مگر اس امداد کی جو قیمت پاکستانی قوم ادا کر رہی ہے اس کو ادا کرتے کرتے آنے والی نسلیں بھی تھک جائیں گی۔
گزشتہ دو سال میں پاک سعودی تعلقات میں کافی اونچ نیچ دیکھی گئی ہے۔ شاذو نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی پاکستانی وزیر یا اعلی افسر سعودی عرب کے خلاف بولا ہو البتہ نجی محافل میں وہ عربوں کے بارے میں غلیظ الفاظ استعمال کرتے ہیں ۔ دو سال قبل وفاقی وزیر ریاض حسین پیرزادہ نے کھلے عام سعودی حکومت پر اسلامی ممالک بشمول پاکستان میں عدم استحکام پھیلانے کا الزام لگایا تھا اور کہا تھا کہ سعودی عرب اپنے عقائد کی فروغ کیلئے دنیا بھر میں کثیر رقوم خرچ کر رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کی گزشتہ دور حکومت میں پاک سعودی تعلقات نسبتا سرد مہری کا شکار رہے۔ میاں نواز شریف کے برسراقتدار آنے سے تعلقات کسی حد تک بہتر ہونے لگے تھے لیکن یمن کے تنازعے کے بعد تعلقات پھر سے خراب ہونا شروع ہو گئے۔
یمن فوج بھیجنے کے سوال پر پاک سعودی تعلقات میں دراڑ پڑی تھی اور سعودی عرب کی شدید خواہش اور کوششوں کے باوجود پاکستان نے اپنی داخلی مشکلات کی وجہ سے یمن فوج بھیجنے سے انکار کیاتھا۔ پاکستان سے خفگی کے اظہار کیلئے سعودی عرب نے انڈیا سے پینگیں بڑھانی شروع کی تھی ۔ جس پر پاکستان میں کافی لے دی ہوئی تھی ۔ جنرل راحیل شریف کی تقرری کے حوالے سے جاری بحث ، اس میں اٹھنے والے سوالات اور تحفظات کے اظہار کو یقیناً سعودی عرب میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جائیگا۔
سعودی عرب کی پروردہ کچھ مذہبی حلقوں کے علاوہ دیگر مسالک اور روشن خیال اور جمہوری طبقے پاکستان میں عرب ممالک اور بالخصوص سعودی عرب کے کردار کے شاکی ہیں ۔ اور سعودی عرب کی انتہاپسند اور ہم مسلک عسکریت پسند گروہوں کی امداد اور حمایت سے ملک میں مذہبی تشدد، فرقہ پرستی اور مذہبی فساد کو تقویت ملی ہے ۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کردار کے منفی اور مضر اثرات نمایاں ہو رہے ہیں ۔
اب پاکستانی عوام کیلئے سعودی عرب مقدس گائے نہیں رہی۔ اور اس کے منفی کردار کی وجہ سے اس پر کھلے عام تنقید ہو رہی ہے۔ عوامی دباو کی وجہ سے پاکستانی حکمران بھی اب ماضی کی طرح سعودی ڈکٹیٹس پر دُم ھلانے سے قاصر ہیں۔ اور عوامی دباؤ کے پیش نظر سابق آرمی چیف بھی آفر قبول کرنے میں پس و پیش کا شکار ہیں۔ اور اب سعودیوں کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ پاکستانی عوام اندھی عقیدت کی خمار سے باھر نکلنا شروع ہوگئی ہے۔
♠