ایمل خٹک
موضوعی صورتحال پر تفصیل سے بات ہوچکی ہے ۔ حکمت عملی کے حوالے سے تین رائے موجود ہیں ۔ پہلی رائے موجودہ جغرافیائی فریم ورک کے اندر پشتونوں کی حقوق اور اس کیلئے جہدوجہد کی بات کرتی ہے۔ دوسری رائے والے موجودہ سسٹم سے مایوس اور قومی آزادی کی بات کرتے ہیں۔ ان کے مطابق موجودہ انتظام کے تحت حقوق ملنا مشکل ہے ،اس لئے آزادی کیلئے جہدوجہد کی جائے ۔ تیسری سوچ یہ ہے کہ موجودہ فریم ورک میں رہ کر زیادہ سے زیادہ حقوق کیلئے جہدوجہد کی جائے، قوم کو بیدار اور منظم کیا جائے اور آزادی کا آپشن بھی کھلا رکھا جائے۔ اگر مستقبل میں حالات کسی نئے فیصلے کا تقاضا کرتے ہیں ۔ تو قومی بیداری اور تنظیم کی بنیاد پر کوئی بھی فیصلہ کرنے میں تاخیر نہ کی جائے ۔
یہ ضروری نہیں کہ بلوچستان کے بلوچوں کے نعرے سندھ یا خیبر پختونخوا میں بھی اسی طرح کارگر ہو ۔معروضی اور موضوعی شرائط کا ادراک اور لحاظ کیے بغیر اور وقت اور حالات کے ساتھ غیر مطابق سیاسی نعرہ اور پروگرام عام اصطلاح میں مہم جوئی کہلاتی ہے۔ اس طرح مہم جوئی اس عمل کو کہتے ہیں جو سوچ سمجھ کر کرنے کی بجائے سطحی اور جذباتی انداز میں کیا جاتا ہے اور اس عمل کا نتیجہ مقاصد کے حصول میں کامیابی تو کجا جانی اور مالی وسائل کے غیرضروری ضیاع میں نکلتا ہے۔ مستقبل کے بارے میں قطعی کچھ نہیں کہا جاسکتا البتہ موجود سیاسی سوچ اور رحجانات کی بنیاد پر سماجی علوم کے ماہر پیشن گوئی کرسکتے ہیں اور حالات کا رخ بتا سکتے ہیں جو درست بھی ثابت ہو سکتی ہے اور غلط بھی۔
جہاں تک معروضی صورتحال کا تعلق ہے تو سرد جنگ کے خاتمے کے بعد خارجہ تعلقات میں جیو سٹرٹیجک کی بجائے جیواکنامک عوامل کی اہمیت بڑھ جانے کی وجہ سے علاقائی اور عالمی سیاست میں کئی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ تاریخ کا جبر دیکھو سرد جنگ کے دوران چین کو کاونٹر کرنے کیلئے روس نے انڈیا کو فراخدلی سے اقتصادی اور فوجی امداد دی اب امریکہ چین کو نکیل ڈالنے کیلئے انڈیا کی مدد کر رہا ہے۔ اور امریکہ نے عرصے تک انڈیا پر پاکستان کو ترجیح دی ۔ اب بدلتے ہوئے حالات میں امریکہ نے انڈیا کیلئے پاکستان کی ناراضگی مول لی ہے جبکہ روس پاکستان کیلئے انڈیا کو ناراض کر رہا ہے۔ جیو۔اکنامک دور میں علاقائی اور عالمی رقابتیں اور حلقہ اثر بڑھا نے کی کوششیں اپنی جگہ مگر جغرافیائی تبدیلیوں سے زیادہ اقتصادی تعلقات اور باہمی تعاون کو فوقیت دی جا رہی ہے۔
علاقے میں یا دنیا میں ایسی کوئی طاقت نہیں جو پشتونوں کی قومی آزادی کی تحریک کی حامی ہو۔ ہاں کچھ قوتیں اپنے سٹرٹیجک مفادات کی وجہ سے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کیلئے قوم پرست کارڈ کو استعمال کر سکتی ہے۔ مگر وہ کسی قوم کی حقیقی آزادی میں دلچسپی نہیں رکھتے ۔البتہ مفادات کے لیے وقتی طور پر یا بوقت ضرورت اس کارڈ کو استعمال کرسکتے ہیں ۔ اور شاید قوم پرستوں کو پراکسی وار کے ایک گھوڑے کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہو۔ پشتونوں کا تو پتہ نہیں مگر کئی بلوچ اور سندھی قوم پرست سنجیدہ حلقوں کو اس حقیقت کا ادراک ہے۔
اپنے محدود مطالعےاور ناقص معلومات کی بنا پر یہ کہنے کی جرات کرتا ہوں کہ نہ تو منطقے میں اور نہ دنیا میں کوئی طاقت علاقے کی موجودہ جغرافیہ کو چھیڑنے کے موڈ میں ہے۔ اسلئے پشتونوں نے جو بھی حکمت عملی بنانی ہو وہ اپنے داخلی وسائل اور عوامل کو فوکس کریں تو بہتر ہوگا۔ عالمی اداروں کے مزاج کو دیکھ کر پشتونوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنا اور بین الاقوامی اداروں کی توجہ اس طرف مبذول کرانا یقیناً بہت اہم کام ہوگا۔
بدقسمتی سے پشتون عوام میں کم و بیش تمام قوم پرست جماعتوں کی کارکردگی کے حوالے سے مایوسی موجود ہے اور اس سلسلے میں عوام کی گلے شکوے بہت حد تک بجا بھی ہیں۔ اس لئے حکمت عملی کے حوالے سے ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ نئی جماعت بنائی جائے یا پہلے سے موجود جماعتوں پر داخلی دباؤ بڑھانے کیلئے مختلف پریشر گروپس بنائے جائے جو درپیش قومی مسائل پر نہ صرف رائے عامہ بنائے بلکہ سیاسی جماعتوں پر عوامی مطالبات کیلئے دباؤ ڈالا جائے۔ جس کی واضح مثال پختونخوا اولسی تحریک کی ہے جو سی پیک کے حوالے سے کام کر رہی ہے۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کی جاسکتی کہ ایسی سول سوسائٹی گروپس سیاسی جماعتوں کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔
قومی آزادی کا نعرہ ہمیشہ بڑا دلکش نعرہ رہا ہے ۔ اور پشتون جیسے ہر قسم کی ظلم و ستم کی ماری قوم کو ان نعروں میں سکون و راحت ملتا ہے۔ مخصوص حالات کی وجہ سے کچھ حلقوں اور خاص کر نوجوانوں کیلئے اپیل بھی کر رہا ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس نعرے کو سرحد کے اس پار جوانوں میں زیادہ پذیرائی مل رہی ہے بہ نسبت پاکستان میں بسنے والے پشتونوں کے ۔ تلخ اور ٹھوس سیاسی حقائق کی وجہ سے دونوں طرف سوچ میں فرق موجود ہے لیکن بدقسمتی سے سنجیدگی سے اس فرق کو سمجھنے اور اس کے روشنی میں کوئی حکمت عملی وضع کرنے کی بجائے جذباتیت کا غلبہ ہے ۔
اگر کوئی ان کی طرح سوچ رکھتا ہو تو درست ورنہ وہ یا تو محب وطن نہیں اور یا غدار وطن ہے۔ قومی آزادی کا سوال قوموں کی تاریخ میں زندگی اور موت کا سوال ہے ۔ یہ ایک سنجیدہ سوال ہے ۔ اس کو چند جذباتی نوجوانوں یا چند مایوس یا ناکام سیاسی کارکنوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا ۔ اگر کوئی اپنا گھر بنانا چاہتا ہے تو شاید کسی کو اعتراض نہ ہو مگر بات جب قومی ایشیوز کی ہوگی تو اس پر نہ تو کسی فرد یا خاندان یا پارٹی کی اجارہ داری ہے۔ اس پر بات اور سوال اٹھاناہر پشتون کا حق ہے۔
بدقسمتی سے دونوں چاہے وفاق پرست قوم پرست ہیں یا نئے علیحدگی پسند اوّل ذکر کے پاس نعروں کے سوا کوئی ٹھوس پروگرام اور موخر الذکر کے پاس کوئی واضح متبادل بیانیہ نہیں ہے۔ آزادی کا نعرہ ایک خاکہ ہے اور عوام کو متحرک کرنے کیلئے ایک مکمل تصویر کی ضرورت ہے۔
واضح سیاسی پروگرام اور حکمت عملی دینے کی بجائے حکمرانوں کو گالی گلوچ یا کوسنا یا مخالفین کو بد دعائیں دینا سیاسی بیانات سے زیادہ فرسٹریشن اور جذباتیت ہے۔ معاشرے کے مختلف طبقوں کو مائل کرنے کیلئے پالیسیاں لانی ہوگی ۔ آئیڈیل ازم سے ریئل ازم کی طرف آنا ہوگا۔ قومی حقوق اور اس طر ح قومی آزادی کیلئے سیاسی، ثقافتی، معاشی اور سماجی بیانیوں کو تشکیل دینے اور عام کرنے کی ضرورت ہے۔
موجود سیاسی جماعتوں پر ان نئے علیحدگی پسندوں کی تنقید کا ایک نکتہ بھی یہی ہے کہ انہوں نے نعرہ تو لگایا مگر عوام کو ضروری شعور نہیں دیا۔ یہی بات ان کو موجود روایتی سیاسی تحریکوں سے منفرد بنائیگی۔
مختصراً حکمت عملی کے حوالے سے تین مغالطو ں سے پیچھا چھڑانا ہوگا۔ ایک یہ کہ کوئی بیرونی قوت ہمیں آزاد یا ہماری مدد کرےگی ۔ کوئی بیرونی قوت آزادی کے حصول میں مدد کرنے کیلئے تیار نہیں۔ البتہ استعمال کرنا چاہتے ہوں ۔ دوسرا مغالطہ یہ ہے کہ داخلی خامیوں اور کمزوریوں کا اعتراف کرنے سمجھنے اور اسے دور کرنے کی بجائے بیرونی قوتوں یا عوامل کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا یا کوسنا ۔ اوروں سے زیادہ ہم خود بھی اپنی موجودہ حالت کے ذمہ دار ہیں ۔ اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ تیسرا اجتماعی نرگیسیت کے جراثیم کا علاج کرنا ہوگا ۔
ہم دنیا کی بہترین ، اعلی اور مہذب قوم نہیں۔ بلکہ سب سے ناکام ، پسماندہ اور کمتر قوم ہیں ۔ اور ایک پسماندہ قوم کی حیثیت سے دنیا کے اور اقوام کے برابر آنے کیلئے ہمیں بہت کچھ کرنا ہوگا ۔ اگر ہم اعلیٰ اور ارفع قوم ہوتے تو تھوڑا عقل اور شعور سے کام لیتے داخلی اور بیرونی سازشوں کا شکار نہیں ہوتے اور اتنی تباہی بربادی نہ ہوتی ۔
میں اہل دانش اور صاحب الرائے پشتونوں کے سامنے یہ سوالات رکھ رہا ہوں تاکہ جذباتی بیانات اور نعروں کے بجائے سنجیدگی سے اس امر پر سوچا جائے کہ پشتونوں کا مقدمہ کیا ہے اور اس کو کیسے لڑا جائے ؟ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل سوالات اہم ہیں۔
پشتنوں کا مقدمہ کیا ہے ؟ وہ کونسے اہم سماجی، سیاسی، معاشی اور ثقافتی مطالبات یا حقوق ہیں جس کو مقدمہ میں شامل ہونا چائیے ؟ مقدمہ لڑنے کا طریقہ کار کیا ہوگا؟ قومی حقوق کے حصول کیلئے کونسے ذرائع بروئے کار لائے جائینگے؟ حقوق کی جنگ صوبائی خودمختاری پر منتج ہوگی یا علیحدگی پر ؟ کیا آزادی واقعی ناگزیر ہوگئی ہے؟
کیا آزادی کے نعرے علاقائی اور عالمی طاقتوں کا کوئی نیا دام تو نہیں ؟ کیا ہمارا سیاسی پروگرام کسی ریاستی اقدام کا جذباتی ردعمل ہے یا کسی سنجیدہ غوروحوض کا نتیجہ ؟ کیا آزادی کیلئے درکار ایک وسیع سیاسی قومی اتفاق اور تفاہم پیدا ہوچکی ہے؟ کیا حقوق حاصل کرنے کے تمام پرامن اور سیاسی زرائع ناکام ہو چکے ہیں؟
پشتونوں کا مقدمہ ملکی اور بین الاقوامی فورموں پر کیسے اٹھایا جائیگا ؟ ان فورموں میں نمائندگی برائے نام ہوگی یا موثر ؟ موثر اور بھرپور نمائندگی کیلئے کیا تیاریاں ہیں ؟
♦
One Comment