ماسکو حکومت افغانستان کے مسلح تنازعے سے کئی برس دور رہی ہے۔ اب صورت حال بدل رہی ہے، گزشتہ کچھ عرصے میں روس کی افغان معاملات میں دلچسپی میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
افغانستان میں امریکی فوجی مداخلت کا آغاز سن 2001 میں ہوا اور تب طالبان کو حکومتی ایوان سے فارغ کر دیا گیا تھا۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی نے شاید اسی مداخلت کے تناظر میں کہا تھا کہ افغانستان وہ واحد علاقہ ہے، جہاں روس اور امریکا کے مفادات کا ٹکراؤ نہیں ہے۔ گزشتہ پندرہ برسوں کے دوران افغانستان کا مسلح تنازعے سے روس نے دوری اختیار کیے رکھی اور امریکا تنہا ہی معاملات کی سنگینی سے نبردآزما رہا۔
تقریباً پندرہ برسوں کے بعد افغانستان کے ارد گرد کے خطے کی جغرافیائی اور سیاسی صورت حال میں تبدیلی پیدا ہونا شروع ہو گئی ہے۔ اس سلسلے میں حال ہی میں چین اور پاکستان کے ساتھ ماسکو میں ہونے والی میٹنگ کو غیرمعمولی اہمیت دی جا رہی ہے۔ یہ میٹنگ بھی روس کی افغانستان میں بڑھتی دلچسپی کی مظہر ہے۔ یہ ایک ایسی افغانستان کانفرنس تھی، جس میں افغانستان شریک نہیں تھا۔
یہ امر اہم ہے کہ روس نے سن 2007 میں افغان طالبان کے ساتھ رابطہ قائم کیا تھا۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق روس اپنی مسلم اکثریتی آبادی والی جمہوریاؤں میں مسلمان عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے بھی طالبان کے ساتھ رابطے استوار کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے کیونکہ ان عسکریت پسندوں کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ انہیں مسلح تربیت افغان طالبان سے حاصل ہوتی ہے۔ پوٹن اِس تربیتی عمل کے خاتمے کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیائی راستوں سے منشیات کی اسمگلنگ کی بھی حوصلہ شکنی چاہتے ہیں۔
اسی طرح چین بھی سنکیانگ میں ایغور عسکریت پسندوں کی تحریک سے نالاں ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ ایغور بھی طالبان سے ہی تربیت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ افغان امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ ماسکو اور طالبان کے تازہ رابطے محض منشیات کی اسمگلنگ کے خاتمے کے لیے نہیں بلکہ اِس کا دائرہ وسیع محسوس کیا جا رہا ہے۔ افغانستان میں امریکی پالیسیوں کو ترویج اور کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے اور شاید اسی وجہ سے روس افغان صورت حال میں عملی مداخلت کا متمنی ہے۔
امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں قائم وُوڈرو ولسن انٹرنیشنل سینٹرز برائے اسکالرز کے ریسرچر مائیکل کوگلمین کا خیال ہے کہ افغانستان سے سابقہ سوویت یونین کو فرار ہونا پڑا تھا اور اب اک نئی جراٴت و ہمت کے ساتھ روسی حکومت کی شدید خواہش ہے کہ وہ افغانستان میں ایک زوردار انداز میں داخل ہو۔
روس کو اس کا بھی اندیشہ ہے کہ شام اور عراق میں شکست کھانے کے بعد ’اسلامک اسٹیٹ‘ افغانستان کو اپنا محفوظ ٹھکانہ بنا سکتی ہے اور صدر پوٹن کے مطابق اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ روس کے لیے ایک بڑا خطرہ ثابت ہو گا۔
♣