لیاقت علی
سندھ کے 31 ویں گورنرجسٹس (ر) سعید الزمان صدیقی(78 )کل شام کراچی کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں انتقال کرگئے۔ انھیں گذشتہ سال نومبرمیں وزیر اعظم نواز شریف نے سندھ کا گورنر مقرر کیا تھا۔ 11نومبر 2016 کو گورنر کے عہدے کا حلف اٹھانے کے دو دن بعد انھیں ہسپتال جانا پڑا جہاں وہ ایک ماہ سے زائد عرصہ تک زیر علاج رہ کر دسمبر کے آخر میں گورنر ہاؤس منتقل ہوئے تھے ۔وہ سب سے قلیل عرصہ تک گورنر سندھ رہے اور وہ واحد گورنر سندھ ہیں جن کا انتقال بطور گورنرہو اہے۔
ہمارے ہاں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ جو شخص فوت ہوجائے اس کی محض خوبیوں کا ذکر ہی ہونا چاہیے اور اس کی کوتاہیوں اورکمزوریوں کے ذکر سے گریز کرنا چاہیے ۔ اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے تو ماضی کی کسی بھی شخصیت کا معروضی مطالعہ ممکن نہیں رہتا۔وہ تمام شخصیات جنھوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں سماجی اور سیاسی غلطیا ں اور کوتاہیاں کیں ان کا ذکر محض اس بنا پر نہ کیا جائے کہ وہ انتقال کر چکی ہیں، آنے والے نسلوں کو ان غلطیوں اور کوتاہیوں کو دوہرانے کی دعوت دینے کے مترادف ہے۔
گورنر صدیقی کے انتقال کے فوری بعد ہر طرف سے انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ ہمارے میڈیا پر بیٹھے اینکرز نیم رونی شکلیں بنائے ان کی’ اصول پسندی‘ اور ’ثابت قدمی‘کا متواتر ذکر کر رہے ہیں ۔ وہ جنرل مشرف کے سامنے ڈٹ گئے تھے اور انھوں نے جنوری 2000میں پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا ۔
یہ بات درست ہے کہ انھوں نے بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ جنرل مشرف کے پی سی او کا حلف نہیں لیا تھا اور انھیں گھر جانا پڑا تھا لیکن جسٹس (ر ) صدیقی کا کیئر یر یہاں سے شروع نہیں ہوا تھا وہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کیسے بنے اس کہانی کا ذکر بھی تو ہونا چاہیے ۔
جسٹس (ر ) صدیقی نے جنرل مشرف کے پی سی اوکا حلف لینے سے انکار کردیا تھا لیکن ہماری تاریخ کے بدترین مارشل لاکے ساتھ تعاون سے انکار نہیں تعاون کیا تھا ۔ جسٹس(ر ) صدیقی کو سندھ ہائی کورٹ کا جج مئی 1980 میں جنرل ضیا ء الحق نے بنایا تھا ۔ یہ اس دور کی بات ہے جب ملک میں آئین نام کی کوئی دستاویز موجود نہیں تھی ملک انتہائی جابرانہ مارشلائی ضابطوں کے تحت چلایا جارہا تھا ۔
جسٹس صدیقی نے مارشل لاکے تحت جج کا حلف لیا تھا ۔ وہ نہ صرف سندھ ہائی کورٹ کے جج بنے بلکہ اگست 1980 میں جنرل ضیا ء نے انھیں الیکشن کمیشن آف پاکستان کا رکن بھی نامزدکیا تھا اور انھوں نے جسٹس ایس اے نصرت کی سربراہی میں قائم الیکشن کمیشن کے رکن کے طور پر جنرل ضیا ء کو ایک نام نہاد ریفرنڈم میں قانونی جواز بھی فراہم کیا تھا ۔
ان دنوں اعلی ٰعدلیہ میں ججوں کی تقرری کے لئے کوئی پارلیمانی اور جوڈیشل کمیشن موجود نہ تھے ۔ یہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا صوابدیدی اختیار تھا کہ وہ جس کو چاہے ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کا جج مقرر کرے۔ کیا جنرل ضیا کسی ایسے شخص کو ہائی کورٹ کا جج مقرر کرنے کا رسک لے سکتا تھا جو اس کے اقتدار کے لئے خطرہ بن سکے ۔ بالکل نہیں۔
جنرل ضیا کی اگست 1988میں ہلاکت کے بعد ان کے جانشین صدر غلام اسحاق خان نے نومبر1990 میں جسٹس صدیقی کو سندھ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا تھا ۔ یہ بے نظیر کی پہلی حکومت کو ڈسمس کرنے کے چند ہفتے بعد کی بات ہے۔ غلام اسحاق خان کو عدلیہ میں اپنے حواری جمع کرنا چاہتے تھے تاکہ مستقبل میں کسی ممکنہ عدالتی خطرے سے نبٹا جاسکے۔
مئی 1992میں جسٹس صدیقی کو صدر غلام اسحاق خان نے سپریم کورٹ کا جج نامز د کیا تھا لیکن جب نواز شریف اور صدر اسحاق کے مابین اقتدار کی بند ر بانٹ کے حوالے سے اختلا ف ہوئے اور انھوں نے نواز شریف حکومت کو ڈسمس کیا تو سپریم کورٹ کے جس بنچ نے نواز شریف حکومت کو بحال کیا تھا اس میں جسٹس صدیقی شامل تھے ۔
پھر جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور نواز شریف حکومت کے مابین تنازعہ ہوا تو سپریم کورٹ کے جن ججوں نے سجاد علی شاہ کے خلاف ’بغاوت‘ کی تھی جسٹس صدیقی ان میں پیش پیش تھے ۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب وہ نواز شریف کے قریب ہوئے اور تعلقات کا یہ سلسلہ ان کی وفات تک قائم رہا ۔نواز شریف نے انھیں جولائی 1999 میں سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنایا ۔ جب پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت کا تختہ الٹا تو جنوری 2000 میں اعلی عدلیہ کے ججوں کو پی ۔سی ۔او کے تحت حلف لینے کا کہا جس کا جسٹس صدیقی نے انکار کر دیا ۔ وہ پہلے ہی ملک کی عدلیہ میں اعلی ترین عہدہ حاصل کر چکے تھے ۔
ریٹایر منٹ کے بعد ان کی وابستگی نواز شریف کے ساتھ رہی گو انھوں نے ن لیگ کبھی جائن نہیں کی تھی ۔ نواز شریف نے 2008کے صدارتی الیکشن میں انھیں زرداری کے مقابلے میں اپنی طرف صدارتی امیدوار نامزد کیا ۔یہ الیکشن جسٹس صدیقی ہار گئے ۔2013کے صدارتی الیکشن میں بھی جسٹس صدیقی کا نام بطور امیدوار گردش کرتا رہا لیکن ن لیگ نے انھیں امیدوار نامز د نہ کیا ۔
گذشتہ سال نومبر میں جب سندھ گورنر ڈاکٹر عشرت العباد مستعفی ہوئے تو جسٹس سعید الزماں صدیقی گورنر سندھ نامز د ہوئے حالانکہ پیرانہ سالی کے بنا پر وہ اپنی ذمہ داریاں بطور گورنر پوری نہیں کرسکتے تھے لیکن ۔۔۔ گو ہاتھوں میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے ۔۔ رہنے دو ساغر و مینا میرے آگے۔
♦