میں نے گذشتہ کالم میں عرض کیا تھا کے سائنسدانوں نے یورپ کو تاریکیوں سے نکال کر جدیدیت اور ترقی کے راستے پر گامزن کرنے میں کلیدی کردار دا کیا تھا۔ مگر اس سلسلے میں سائنسدانوں کا کردار ہی فیصلہ کن نہ تھا۔اہل فلاسفہ نے بھی اس حوالے سے بے حد اہم اوربنیادی کردار اداکیا۔ انہوں نے فلسفے کے ان پیچیدہ سوالات کا جواب فراہم کیا جن کا تعلق مافوق الفطرت چیزوں اور ما بعد الطبعیات سے تھا۔
ان سوالات نے یورپ کو ایک عرصے تک تاریکیوں میں ڈبوئے رکھا تھا۔ ہم اس دنیا میں میں کیوں اور کیسے آئے۔ ؟کیا یہ کوئی عارضی جگہ ہے۔؟ مرنے کے بعد کیا ہو گا۔؟ جنت اور دوزخ کی حقیقت کیا ہے۔؟ انسان باختیار ہے یا مجبور محض ؟ اس طرح کے سینکڑوں سوالات ایسے تھے جن کا واضح اور دو ٹوک جواب حاصل کیے بغیر انسان ترقی کی شاہراہ پر قدم رکھنے کے قابل نہیں تھا۔
ایک طرف چرچ تھا جو ہر نئی چیز کو مشکوک نگاہ سے دیکھتا تھا۔ جو اس دنیا کے عارضی ہونے کا درس دیتا تھا۔ اور اس بات پر زور دیتا تھا کے انسان اس دنیا میں ایک عارضی مسافر ہے۔ اسے اس دنیا کے بارے میں فکرمند ہونے کی بجائے آخرت کا سامان کرنا چاہیے۔ عبادت اور ذکرفکر کےذریعے زیادہ سے زیادہ زاد راہ اکھٹا کرنا چاہیے تاکہ اسے پل صراط سے گزر کر جنت میں داخل ہونے میں آسانی ہو۔ دنیا کی زندگی اتنی عارضی ہے کہ اس میں سکھ آرام اور سہولیات کے لیے وقت ضا ئع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
چرچ اس بات پر بھی بضد تھا کہ چرچ کی تعلیمات ہی سچائی ہے۔ اس لیے ریاست اور حکومت کے تمام معاملات بھی چرچ کی مرضی اور اور تعلیمات کے تابع ہونے چا ہیے۔ اس طرح چرچ زندگی کے تما م معاملات کو اپنے ارد گرگرد گھمانے پر اصرار کرتاتھا۔ رجعت پسند ی اورقدامت پرستی ترقی کے راستے میں ایک دیوار کی طرح کھڑی تھی۔ ایسے میں اہل فلاسفہ اور دانشوروں نے اپنا کردار ادا کیا۔ انہوں نے اخلاقی جرآت کا مظاہرہ کرتے ہوئے چرچ کی اجارہ داری اور احکامات کوی چیلنج کیا۔ اور اس سلسلے میں ایک طویل لڑائی لڑنے کے بعد چرچ کو ریاست سے علیحدہ کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
اس سے زندگی کے بارے میں عمومی طور پر عقلی اور سائنسی نظریات کو فروغ ملنا شروع ہوا اوریورپی لوگوں نے اس دنیا کو رہنے کے قابل جگہ بنانے کے لیے تگ و دو شروع کر دی۔ اہل فلاسفہ کے ساتھ یورپ کے شاعر ادیب اور دانشور بھی قدم سے قدم ملا کر اس لڑائی میں شریک ہو ئے۔ ان لو گوں نے ہر محاذ پر ایک انتھک لڑائی لڑی اور بلا اخر سما ج کو عقیدہ پرستی ، توہمات اور قدامت پرستی کے اثرات سے نکالنے میں کامیاب ہوئے۔
بے شک یورپ کو رجعت پسندی سے نکال کر روشن خیالی اور ترقی پسندی کے راستے پر ڈالنے میں وہاں کے سیاسی راہنماؤں کا بھی بڑا کرادار تھا۔ یہ کردار ہر سماج میں دراصل ناگزیر ہو تا ہے۔ مگر فیصلہ کن کردار دراصل سائنس دان، دانشور، شاعر ادیب اور اس قبیل کے دوسرے لوگوں کا ہی ہو تا ہے۔ یہ لوگوں کے فکری مغالطوں پر بات کرتے ہیں۔ فلسفے کی گتھیاں سلجھاتے ہیں ۔ روحانیت اور مادیت کے حوالے سے انسانی ذہن میں اٹھنے والے سوالات کا جواب دیتے ہیں۔ علم و شعور کی شمعیں جلاتے ہیں۔
چونکہ ان لوگوں کو عوام میں غیر مقبول ہونے کا حوف نہیں ہو تا اس لیے سیا ست دانوں کے بر عکس یہ سچائی کا اظہار زیادہ وضا حت اور بے باقی سے کرتے ہیں۔ یہ لوگ دراصل کسی بھی سماج کاانجن ہوتے ہیں جو سماج کو ایک دور سے نکال کر دوسرے دور میں ڈالتا ہے۔ ایک سماج میں بیک وقت کئی مورچوں پر لڑائیاں لڑی جا رہی ہو تی ہیں ۔لیکن یہ سب سے اگلا او ر اہم مورچہ ہوتا ہے۔ بد قسمتی ے ہمارے ہاں یہ مورچہ خالی ہے۔
ہمارے ہاں سالہا سال سے جو لوگ اپنے آپ کو سائنس دان، ادیب اور دانشور کہلاتے ہیں انکی زندگی کی سب سے بڑی خواہش ملائیت ، نا م نہادد روحانی پیشوائت یا حکومت وقت کی خوشنودی ہو تی ہے۔ وہ اس موضوع پر بات کرنے سے کنی کترا کر نکل جا تے جاتے ہیں جہا ں ان کو سچ بولنا پڑے۔ انہوں نے رجعت پسندوں کی قیادت سر عام تسلیم کر رکھی ہوتی ہے۔۔ حکمران طبقے کی خوشنودی اور چاپلوسی بھی ان کی عادت ثانیہ بن چکی ہو تی ہے۔
چنانچہ وہ ایک درباری دانشور کا کردار ادا کرنے پر مجبو ر ہو تے ہیں جو فرسودگی، رجعت پسندی ااور منافقت کو للکارنے کے بجائے خود بھی اس کے قدموں میں پناہ لیتاہے۔ ہما رے ہاں ایسے سائنسدانوں دانشوروں ، شاعروں اور ادیبوں کو انگلیوں پر گنا جا سکتاہے جو سماجی شعور رکھتے ہوں اور اس سماجی شعور کا بلا خوف و خطر اظہار کرتے ہوں۔
سماجی فرسودگی اور معاشی پسماندگی کی انتہائی مضبوط گرفت کو توڑنے کے لیے اس مورچے پر لڑائی نا گزیر ہے۔ اس کے بغیر حالات میں کسی قابل ذکر تبدیلی کی گنجائش نہیں ہوتی۔۔
♦