پی ایچ ڈی یا قبائلی دستار بندی

پائند خان خروٹی

معاشرہ میں جو بھی فرد تعلیم سے محروم رہ جائے اس کانقصان تو سماج کو ضرور پہنچتا ہے لیکن ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص کا اگر کوئی نظریہ نہ ہو تو وہ معاشرے کیلئے خطرناک حد تک نقصان دہ ہوسکتا ہے ۔ اکثر لوگ دوسر وں کے فکر ودانش سے استفادہ تو کرتے ہیں مگر اپنے فکر وکردار کی سطح کواُونچا کرنے کیلئے عملی اقدامات نہیں اٹھاتے ۔ ہمارے ہاں اہل علم وادب اپنے شاگردوں کو جدید فکری رجحانات سے اپنے ذہنوں کو منور کرنے کے نصیحت تو کرتے ہیں مگر خود بے عملی کامظاہرہ کرکے علمی اور فکر ی طور پر بانجھ وبنجر رہ جاتے ہیں ۔

اس سلسلے میں موجودہ وقت کاتقاضہ ہے کہ دنیا بھرکے علم ودانش سے استفادہ ضرور کیاجائے لیکن اپنے تجزیہ کی صلاحیت کو نکھار نے ، نئے سوالات اٹھانے کاجذبہ ابھارنے اور تنقیدی شعور کو بروئے کار لاکر نئی حقیقتوں کو دریافت کرکے اپنے معاشرے کی ضرورتوں کے مطابق اپنے نئے تصورات اور افکار سے نئی بنیادیں فر اہم کریں تاکہ توہمات ،خرافات اور مفروضات کاخاتمہ ممکن ہوسکے ۔ مفاد خلق جس کو جے جے روسو نے عمومی ارادے کا نام دیا ہے سے پیوستہ لوگوں کو عملی اور عقلی زندگی کیلئے تیار کرکے ہی ہم اپنے قوم ووطن کو نالج اکانومی کی جانب گامزن کرسکتے ہیں ۔

کسی بھی ادبی یاسیاسی تھیوری کے بارے میں محض معلومات سمٹنا یااپنے آپ کو معلومات کا گودام ثابت کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے بلکہ زمان ومکان کی حدود میں رہتے ہوئے اپنے معاشرے کی ٹھوس صداقتوں پر ان علوم کاتخلیقی اطلاق ہی نتیجہ خیز ثابت ہوسکتا ہے ۔ لیکن نقل اور تقلید کے عادی افراد ہمارے معاشرے میں اس جوہر کا فقدان موجود ہے ۔ اکثر لوگ نہ تو اختیار کردہ بیرونی نظریات پر عبور رکھتے ہیں اور نہ ہی اپنے معاشرے کے حقائق سے پوری طرح باخبر ہیں اس در میانی د رجہ کانتیجہ یہ نکلتا ہے کہ چند کتابوں کے نام زبانی یاد رکھنے ، فلاسفرز کے اقوال دہرانے اور چند مخصوص خیالات کارٹا لگانے سے نہ تو معاشرے میں سدھار یا اصلاح کی حالت پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی ان کی فکر لوگوں تک منتقل ہوسکتی ہے۔ 

نئے نظریات کو اپنے معاشرے سے مطابقت کاراز پانے کی صورت میں گلوبل سچائیوں کو لوکل حقیقتوں پر نافذ کیا جاسکتا ہے جو مقامی معاشرے کے باشندوں کیلئے قابل قبول ہوگا ۔ ہمارے ہاں جاری روایت کے مطابق ریگستان عرب کے کسی بدو کی فکر کو پاکستانی سوئٹزر لینڈ سوات کے نخلستان پر میکانکی انداز میں نافذ کرنے کی کوشش صدیوں میں بھی نتیجہ خیز نہیں ہوسکتی ۔ بالکل اسی طرح سائبیریا کی برفیلی فضاؤ ں میں نشو ونما پانے والے نظریات کوسبی اور ملتان کے شدید گرم موسموں میں کسی کاٹ چھانٹ کے بغیر من وعن نقل کرنے کی کوشش بھی کامیاب نہیں ہوسکتی ۔ اسی طرح حیوانات پر تجربوں اور مشاہدوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والے نظریہ ارتقاء کاانسانوں پر اطلاق اور ذہنی دباؤ اور نفسیاتی مسائل کے شکار انسانوں کیلئے تخلیق کردہ علم نفسیات کو صحت مند انسانوں پر آزما نا بھی مذاق سے کم نہیں ہے ۔

ہمارے ترقی پذیر معاشرے میں اعلیٰ ڈگری کاحصول مڈل سکول میں ضرورت کے ساتھ فیشن بھی بن گیا ہے ۔ ا کثر لوگ مختلف شعبوں میں ملازمت میں پروموشن، اضافی الاؤنس کے حصول اور سیلف پروجیکشن کیلئے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کرنا ضروری سمجھتے ہیں ا گرچہ تمام کیسوں میںیہ بات درست نہیں ہے یقیناً کچھ لو گ واقعتاً ضرورت کے تحت اور بامعنیٰ طریقے سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں تاہم جنرلائزیشن سے اسپشلائزیشن کی جانب آج کے فیشن کے تقاضوں کے مطابق جانے کارواج عام ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والوں کی اکثریت اپنے اپنے شعبوں میں کسی تخلیقی کارکردگی کامظاہرہ کرنے سے قاصر ہیں ۔

واضح رہے کہ اعلیٰ صلاحیت واستعداد کے حامل افراد کو 60سال کیلئے سرکار کو گروہی پر دینا یا کسی این جی اوکے ر حم وکرم پر چھوڑنا ان کی صلاحیت اور دانش کے ساتھ دشمنی کے متراد ف ہیں کیونکہ بیک وقت معاشرے کی وسیع اکثریت یعنی پرولتاریہ کی معاشی خود مختاری کیلئے کھلے ذہن سے سوچنا اور حقیر اقلیت یعنی بورژوا کے مفادات پابند سوچ کے ساتھ کی پاسداری کرنا ممکن نہیں ہے ۔ اس کے ساتھ حال ہی میں منظر عام پر آنے والے ایگزیکٹ اسکینڈل نے رہی سہی کسر پوری کردی ے ۔ اصلی اور جعلی ڈگری کی ایک نئی بحث کاآغاز ہوگیا جس کی ز دمیں بڑی بڑی شخصیات آئیں جن میں سیاسی قائدین ، علماء اکرام اور متعدد پروفیسر حضرات شامل ہیں ۔

جنرل ضیاء اور مشرف کے دور میں مذہبی ڈگریاں تو تھوک کے حساب سے بکنے لگیں اصل بات یہ ہے کہ جعلی اور اصلی ڈگری کافیصلہ تو عدالت کی ذمہ داری ہے لیکن ہماری دلچسپی اس بات میں ہے کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی رکھنے والی شخصیات نے معاشرے کو کیا دیا ہے؟ کیا تحقیق میں کوئی نئی بات سامنے لائی گئی ہے یا محض پرانی باتوں کی جگالی ۔۔۔؟ کتنے بجھے ہوئے چراغوں کو دوبارہ روشن کیا ۔۔۔؟ کتنے کجل اور شڈل جوانوں میں ترقی پسندانہ خیالات کو ابھار کر ان کو نئے مستقل کی تعمیر میں لگا دیئے ۔۔؟ کتنے انسانوں کے درمیان کھڑے کی گئی بیلتون کی دیوار کو گرا کر پیوستون کے رشتے میں پیوست کردیئے ۔۔۔؟ اردگرد کے ماحول نے ان اعلیٰ ڈگری یافتہ کے علم وتجربے سے کیا اثر لیا ۔۔۔۔؟

کیا ان ڈگریوں اور القابات سے انگریزی کی کہاوت 
Better untaught than ill-taught 
کی حقیقت واضح نہیں ہوتی ؟ انہوں نے معاشرے میں معاشی وثقافتی سرگرمیوں کوفروغ دینے کیلئے کیا کردا رادا کیا ہے ۔۔؟ نئی نسل کی کردا رسازی اور اخلاق سنوارنے میں کس حد کامیاب رہے ۔۔۔۔؟ حقیقت یہ ہے کہ اعلیٰ ڈگریوں کے حصول کے باوجود ان میں سے لوگوں کے اپنے رویے میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں آئی اور نہ ہی معاشرے میں ذہن سازی کافریضہ انجام دیا۔ ایسا لگتا ہے کہ دیوار کو رنگ کیاگیا ہے لیکن رنگ کے پیچھے دیوار کچی ہے یاد رہے کہ کچی دیوار کی اپنی کمزور ہی اسے گرادی گئی۔

بلند افکار وخیالات رکھنے والی علمی شخصیات ہمیشہ زندہ رہتی ہیں اور طبعی موت کے بعد بھی معاشرے میں انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے لیکن ہمارے آج کے ایم فل اور پی ایچ ڈی حضرات زندگی میں ہی قدر اور عزت کے حصول میں ناکام رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ڈگریوں کاتمغہ سجانے اور اپنے نام کے ساتھ القابات کے سابقے اور لاحقے لگانے کے باوجود تحقیقی اور تخلیقی کارکردگی سے وہ آج بھی بانجھ ہیں ۔ بغور دیکھاجائے تو ان افراد میں ادھر اُدھر سے کتابی مواد جمع کرکے مقالے تو لکھ لیے لیکن اس جمع شدہ مواد میں ان کااپنا کوئی ذاتی رنگ نہیں ہے جبکہ پی ایچ ڈی لفاظی اور جملہ بازی کی بجائے نئی حقیقتیں دریافت کرنے نام ہے ۔ یہاں تک کہ ان کے مقالوں میں اٹھائے گئے سوالات اور تنقید بھی اپنے نہیں بلکہ محض تقلیدی ہیں ۔ جمع شدہ مواد کو شائع نہیں کرنا اور بعض اوقات لائبریری ریکارڈ سے غائب کرنے کے پیچھے بھی اسی قسم کی وجوہات کارفرما ہیں ۔

ہمارے ہاں پی ایچ ڈی کرنے والوں میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جنہوں نے پہلی کی گئی تحقیق کو معمولی رد وبدل کے ساتھ دوبارہ بیان کیا اور اسے اپنی تحقیق کانام دے یا ۔ معلومات کے مجموعے کو تحقیق یاتخلیق کانام دینا زیادتی ہے ۔ ایسے بھی ا فراد میں جنہوں نے اپنے علمی کورس مکمل کرنے کیلئے کئی سال یورپ میں گزار دیے اور تقریباً 500 صفحوں پر مشتمل مقالہ تیار کرنے کیلئے پانچ ہزارصفحے بھی پڑھ چکے ہونگے لیکن ان 5500 صفحوں میں سے 5جملے نہ تو لکھ سکتے ہیں اور نہ ہی زبانی بول سکتے ہیں ۔ اس سے ان کے اور ان کے مقالہ کے در میان رشتہ کااندازہ لگایاجاسکتا ہے ۔

ا ب تو چوری کیے گئے علمی مواد اور خیالات کے حوالے سے سافٹ ویئر دستیاب ہیں ۔ اس ضمن میں انگریزی زبان میں تحقیق کرنے والوں کیلئے ایک مشکل ضرور ہے کہ انگریزی زبان میں سافٹ ویران کی چوری ( سرقہ ) کی نشاندہی کرسکتا ہے مگر اردو ، فارسی اور عربی وغیرہ میں کام کرنے والے ہر حوالے سے عارضی طو رپر محفوظ ہے اس لیے کچھ لوگوں کی جعلی معتبری اور عقیدت قائم ہے ۔ کیونکہ ان زبانوں میں اب تک کوئی سافٹ ویئر ہی دستیاب نہیں ۔

اس کے علاوہ اعلیٰ مذہبی اور قومی شخصیات پر لکھنے والے ہر قسم کے تنقید سے بالا تر ہے اور ان کے احتساب کی تو کوئی صورت نہیں ۔ البتہ قومی اور یادگاری دنوں پر حکمران انہیں خصوصی انعام واکرام سے بھی نوازتے ہیں ۔ ان میں اکثر لوگ اہم شخصیات پر لکھتے ہوئے عقیدت سے کام لیتے ہیں اور تنقید کاخانہ خالی چھوڑ دیتے ہیں ۔ ویسے بھی دنیا کے ہر مذہب میں تنقید کادر وازہ بند ہے ۔ بعض اوقات عقیدت میں ایسی باتیں بھی ان سے منسوب کرتے ہیں جو ان کی پیدائش سے قبل یا ان کی موت کے بعد کے واقعات سے متعلق ہوتی ہیں ۔ اس سے اس کا مقصد عارضی طورپر تو پورا ہوجاتا ہے تام کسی طو رپر لکھنے والے یا مذکور شخصیت کیلئے کسی مستقل فائدہ کا کوئی بندوبست نہیں ۔نہ جانے کیوں وہ اس بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ لیبل بدلنے سے کسی کا کردار اور پینٹ کرنے سے کسی دیوار کی کمزوری طاقت میں بدل نہیں جاتی ۔ 

ہمارے اکثر پروفیسر حضرات ایم فل یا پی ایچ ڈی کااعزاز اس طرح حاصل کرتے ہیں جیسے قبائل سردار ، نواب ،و ڈیرہ ،میر اور چوہدری وغیر ایک دوسرے کادستاربندی کرتے ہیں ۔ قبائلی عمائدین کی طرح ہمارے پی ایچ ڈی حضرات اپنی اہلیت، قابلیت اور کارکردگی کی بجائے اس بات پر انحصار کرتے ہیں کہ ان کا ا ستاد کون تھا اور فخر سے اپنی بڑائی اس طرح بیان کرتے ہیں کہ وہ فلاں بڑے آدمی کے شاگرد ہیں ۔ اپنی امتیازی خصوصیت اور کارکرگی کابرائے نام حوالہ بھی نہیں ہوتا اور اس مقصد کیلئے کانوکیشن کے موقع پر مہمان خصوصی اور سینئر اساتذہ کے ساتھ ا تار ی گئی تصاویر بطور ثبوت پیش کرتے ہیں حالانکہ ہر بڑی شخصیت کی تصویر کے ساتھ نظرآنے والے لوگ بڑے نہیں ہوتے مگر میک اپ آرٹسٹ بنالیتے ہیں ویسے بھی آج شہرت سے زیاد عظمت کمانے کی اشد ضرور ت ہے ۔

کسی بھی شخص کیلئے معاشرے میں اپنی مورثی شناخت سے بڑھ کر اپنی ذاتی پہچان پیدا کرنا اصل چیز ہے جو نجی کارکردگی اور مسلسل جدوجہد کے بعد ملتی ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنا ہرموقف اپنے تخلیقی جوہر کے ساتھ پیش کریں یہی ہمارے وجو د کااظہار بھی ہے اور ہماری شناخت بھی ۔ اگر اٹھائے گئے سوالا ، تنقید ، تجزیہ ، کھراو کھوٹا معلوم کرنے میں ریسرچر کی اوریجنلٹی کاپہلو نمایاں نہ ہو تو یہ وقت، توانائی ، قلم اور کاغذ کا کاضیاع ہے ۔ موجودہ صورتحال میں اگر لحاظ وخاطر سے بالا تر حقائق کی روشنی میں ایجوکیشن سیکٹر کے سر کنے کے عمل کاجائزہ لیا جائے تو خدشہ ہے کہ مستقبل قریب میں یا تو ہم باہر سے اساتذہ اور ماہرین امپورٹ کرینگے یا یہاں کاینگ بلڈاپنی علمی تشنگی کم کرنے کیلئے باہر جانے پر مجبور ہوجائیں گے ۔

جو ش خطابت کا جو ہر دکھاتے ہوئے قوم کو مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی کی تلقین کرنے اور نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریںکے دعوے کرنے کے دن گزر گئے ۔ سائنس اور عقل کی بالا دستی کے اس دور میں ایسے تصوراتی خاکو ں اور جذبات پر مبنی خیالوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جدید انسانی معاشرے کا سیا ل اور فعال رکن بننے کے لئے تحقیق اور تخلیق کے اعلیٰ آ فاقی اصولوں کو اختیار کرنا ضروری ہے جب کہ سرقہ کئے گئے خیالات ، مستعار لی گئی بڑھائی اور اپنے نام کے ساتھ القابات کے سابقے لاحقے لگانے سے شخصیت سازی نہیں ہو سکتی ۔ 

2 Comments