علی احمد جان
پاکستان کے پرستان ہنزہ میں ایک جھیل ہے جسے بورتھ لیک یا بورتھ کی جھیل کہاجاتا ہے ۔ یہ جھیل بہت خوبصورت ہے اس کی تصویریں تو غالباً سب ہی نے دیکھی ہونگی اور اس کی خوبصورتی کو داد بھی دی ہوگی ۔ لیکن ایک بات انکھوں کو خیرہ کردینے والی اس جھیل کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں وہ یہ کہ اس جھیل کا پانی زہر آلود ہے۔ اس جھیل میں عام پانی میں پائے جانے والے حشرات بھی نہیں اوریہاں جو موسمی مرغابیاں آتی ہیں انہیں بھی زیادہ دیر رکنا پڑے تو اس زہریلے پانی کے اثر سےمر جاتی ہیں۔ اس جھیل کا پانی زہرالود اس لئے ہے کہ یہ یہی کھڑا ہے اور اس میں تازہ پانی کی فراہمی نہیں ہے اور نہ ہی نکاسی ۔
انسانی سماج بھی ایک جھیل کی مانند ہے جس میں تازہ پانی کی فراہمی اور جھیل کے پانی کو نکاسی کی ضرورت رہتی ہے۔ یہ تازہ پانی نئے خیالات اور رجحانات کی شکل میں آتے ہیں اور نکاسی موجودہ خیالات اور رجحانات کے متعلق اٹھائے جانے والے سوالات اور ان کے جواب تلاش کرنے کی صورت میں ہو جایا کرتی ہے۔ جب پانی کی فراہمی بند ہو تو جس طرح ایک جھیل جو جانداروں کا گھر ہوا کرتی ہے زہر کا پیالہ بن جا تی ہے۔
اسی طرح نئے خیالات کے بغیر ہمارا سماج گھٹن زدہ معاشرہ بن جاتا ہے۔ ایسے معاشروں میں رہنے والے راہ فرار اختیار کرتے ہیں اور آزاد معاشروں میں پناہ لیتے ہیں ۔ باہر سے بورتھ کی جھیل کی مانند خوبصورت آنے والے بعض معاشرے اندر سے دراصل اپنے مکینوں کے لئے زہریلے ہوچکے ہیں جس کا اندازہ وہاں سے فرار ہونے والے لوگوں کی تعداد سے ہوتا ہے جووہاں سے فرار ہوتے ہوئے کبھی سمندروں اور کبھی صحراؤں اور کبھی جنگلوں میں مارے جانے کو وہاں رہنے پر ترجیح دیتے ہیں۔
تاریخ کا ایک سبق یہ ہے کہ نئے خیالات اور نئے رجحانات کو آسانی سے قبول نہیں کیا جاتا کیونکہ پرانے خیالات اور رجحانات کے رکھوالے خود کو ان رواجوں کے بغیر غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ تاریخ میں خوفناک سزاؤں کا استعمال سب سے زیادہ فکری اور نظریاتی مخالفین کے خلاف ہوا ہے ۔ آج سے پہلے جن لوگوں نے اپنے اپنے سماج میں رائج الوقت روایات پر سوال اٹھایا اور معتوب ہوئے وہ آج نابغہ کے طور پر یاد کئے جاتے ہیں۔ ۔ قرون اولیٰ اور قرون وسطیٰ میں جن باتوں پر ان کے سوچنے اور کہنے والوں کو سزائیں دی گیئں وہ آج کی دنیا کے سب سے بڑے حقائق بن گئےہیں۔
چونکہ رائج روایات کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے اس معاشرے یا تنظیم یا ادارے کے طاقتور افراد ہوتے ہیں اس لئے اکثریت اس کی حمایت میں خاموش رہتی ہے اور چند ایک ایسی روایات پر کھلم کھلا یا پھر اشاروں کنایوں میں سوال اٹھاتے ہیں ۔ جن معاشروں میں ایسے سوال اٹھانے والوں کی نیت پر شک نہیں کیا جاتا اور ان کی تنقید کو تازہ ہوا کے جھونکے اور تازہ پانی کے بہاؤ کیطرح تعمیری انداز میں لیا جاتا ہے وہ ترقی کرتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں۔
سماج کی ترقی کے لئے اور آگے بڑھنے کے لئے سوال اٹھانے والے کو خاموش نہیں کروا دیا جاتا بلکہ اس کو سن کراس کے سوال کا جواب تلاش کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر چرچ اور بادشا ہ کی حاکمیت پر سوال اٹھانے پر ہی سب سے زیادہ لوگ معتوب ہوئے لیکن جن معاشروں میں ان سوالات کا جواب تلاش کیا گیا وہاں آج بھی چرچ، بادشاہ اور جمہور تینوں قائم و دائم ہیں مگر جہاں ایسے سوالات اٹھانے والوں کی نیت پر شک کیا گیا اور گردن زنی کی گئی وہ معاشرے آج بھی گھٹن کا شکار ہیں۔
معاشرے میں تین قسم کے فکری گروہ ہوتے ہیں ۔
۱۔ رجعت پسند
وہ لوگ جو معاشرے میں کسی قسم کی جدت، تبدیلی یا ترقی کے یکسر مخالف ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے ماضی کے عشق میں جیتے ہیں اور اپنے ماضی کے کسی سنہری دور میں پھر واپس جانا چاہتے ہیں ۔ یہ لوگ سائنسی تعلیم اور نئے خیالات کو کو قبول نہیں کرتے ہیں ۔ یہ لوگ زیادہ تر قبائلی، معاشرتی، سماجی روایات اور مذہبی عقائد کو ان کی بنیادی شکل میں قائم رکھنا چاہتے ہیں۔
۲۔ قدامت پسند
قدامت پسند وہ ہوتے ہیں جو ترقی کو بھی پسند کرتے ہیں مگر اپنی روایات کو بھی برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو سائنسی تعلیم کو بھی حاصل کرتے ہیں لیکن حیاتیاتی ارتقاء کے نظریے کو بنی نوع انسان پر لاگو نہیں کرتے اور نہ ہی وہ اس بات کو ماننے پر تیار ہیں ان کے نظریات اور عقائد سائنسی حقائق سے متصادم ہیں۔
۳۔ ترقی پسند
یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو معاشرےکی ارتقائی اور انقلابی ترقی پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ وہ مکتبہ فکر ہے جو ہر تبدیلی کو ایک اور تبدیلی کا پیش خیمہ سمجھتا ہے ۔ اس گروہ کا ایمان ہے کہ تاریخ خود کو نہیں دھراتی اور نہ ہی گیا زمانہ اور حالات واپس آسکتے ہیں کیونکہ دریافتیں اور نئی کھوجیں نئے حالات کو جنم دیتی رہتی ہیں جو نئے خیالات اور رجحانات کو تحریک دیتے ہیں۔ ترقی پسند اس بات کو سمجھتے ہیں کہ معاشرتی اقدار معاشی ترقی کے ساتھ بدل جاتی ہیں ، معاشی ترقی دراصل زرائع پیداوار میں ترقی کا حاصل ہوتی ہے جو سائنسی ایجادات کا مرہون منت ہے۔
تاریخ میں ترقی پسند ہی معاشرے کے رواجوں اور رائج اقدار کے ناقد ین رہے ہیں جن میں فلاسفر ، سائنسدان ، شعراء، سیاستدان ، مفکر اور لکھاری سب شامل ہیں۔ رجعت پسندوں نے ہمیشہ جدت اور نئے خیالات کی بھر پور مخالفت کی ہے جبکہ قدامت پسند کبھی رجعت پسندوں اور کبھی ترقی پسندوں کے ہم خیال رہے ہیں۔ قدامت پسند زیادہ تر اشرافیہ اور متمول طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو معاشرتی اقدار اور مذہبی عقائد کے نام پر بیشتر متوسط طبقے کو متاثر کرتے ہیں اور اپنا ہمنوا بنا لیتے ہیں جو معاشی ترقی اور معاشرتی اقدار دونوں کو ایک ساتھ حاصل کرنے کی خواہش کیساتھ نظریات اور خیالات کو جلد ہی قبول کرنے پر امادہ ہوجاتے ہیں۔ قدامت پرستی ہمیشہ سے ہی مجموعی معاشرتی ترقی اور آزادی فکر کی مخالف رہی ہے۔
آج جو لوگ سوال اٹھارہے ہیں ان کو معتوب و مطعون کیا جانا ان افراد کےمسلمہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے جس میں آزادی اظہار رائے بھی شامل ہے جس کو آج کی دنیا میں بطور بنیادی انسانی حق کے تسلیم کیا گیا ہے ۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ اپنے فکر کے پرچار کرنے والے شعراء ادیبوں اور دانشوروں کی کردار کشی کرکے عوامی نفرت کا شکار بنایا جانا اور ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنا ایک انتہائی افسوسناک امرہے۔ ایک طرف اس طرح کے اقدامات اٹھانےوالے معاشرے اقوام عالم کی برادری میں اپنا مقام نہیں بنا پائیں گے تو دوسری طرف آزادی فکر پر ایسی قد غنوں سے پہلے سے رو بہ زوال معاشرہ مزید گھٹن کا شکار ہوگا اور وہاں سے روشن خیال اور علم و شعور سے مزّین ذہن ناپید ہو جائیں گے۔
سوال اٹھانے والے غدار نہیں ہوتے اور نہ ہی کسی کے دشمن ہوتے ہیں ۔ ان کا سوال اٹھانے کا مقصد معاشرے کا سدھار ہوتا ہے اور ترقی کی سمت کا تعین ہوتا ہے۔ اگر کسی کے اٹھائے گئے سوال سے کسی کو اختلاف بھی ہو تو اس کا حل مکالمہ ہے نہ کہ مقدمہ۔ کسی کے خیالات سے ہم آہنگ نہ ہونے کا مطلب اس سے نفرت نہیں بلکہ اس کے افکار سے اختلاف ہے جو بدلتے حالات کے ساتھ بدل بھی جایا کرتے ہیں۔ اس لئے سوال اٹھانے والے کی نیت پر شک کرکے اس کو معتوب و مطعون کرنے کے بجائے اس سے مکا لمہ کیا جائے یہی تاریخ کا سبق ہے۔
♦