آصف جاوید
دنیا ایک گلوبل ولیج ہے، دنیا کے ہر خطّے اور خود پاکستان کے ہر صوبے میں مختلف مذاہب، فرقے، عقیدے، زبان رنگ و نسل کے لوگ آباد ہیں۔ سب انسان برابر ہیں۔ کسی کا ایک کا حق کسی دوسرے سے زیادہ نہیں۔ اظہار ہر انسان کی فطری خواہش ہے۔ انسان جو بھی محسوس کرتا یا سوچتا ہے، اس کا برملا اظہار کرنا چاہتا ہے۔
سائنسی ، نفسیاتی ، اور طبّی نقطہ نظر سے اگر انسانوں کی سوچ اور خیالات پر پابندی عائد کی جائے، اظہار پر پابندی عائد کردی جائے تو انسان نفسیاتی اور ذہنی مریض بن جاتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ہمارے قدامت پرست معاشرے میں اظہارِ رائے کی آزادی نہ ہونے کی وجہ سے ہمارا معاشرہ ایک پاگل خانے کی شکل اختیار کرگیا ہے، جہاں ہر آدمی کی کیفیت کسی پاگل سے کم نہیں۔ ہر فرد فرسٹریشن اور ری ایکشن کا شکار نظر آتا ہے۔ لوگوں کے چہروں پر خوشی کم اور ناراضگی زیادہ نظر آتی ہے۔
اسلام اور پاکستان کے حوالے سے عرضِ خدمت ہے کہ ریاست اور ریاستی کنٹرول کا شکار میڈیا اور ضمیر فروش صحافی، ریاستی دانشور پوری قوم کو اپنے مکروہ پروپیگنڈے کے حصار میں رکھنا چاہتے ہیں۔ کسی شہری کو اس بات کا موقعہ نہیں دیا جاتا ہے کہ وہ تنقیدی سوچ کو استعمال کرسکے۔اپنے ریشنل سسٹم سے کام لے کر کچھ سمجھ سکے۔ ہمارا معاشرہ اس جبر کا شکار ہے کہ جب بھی کوئی ا پنی تنقیدی سوچ کو استعمال کرکے اپنی ذاتی رائے قائم کرنا یا کچھ اظہار کرنا چاہے اور اس کا اظہار کسی کے عقائد اور نظریات کے مطابق نہ ہو تو اس پر فورا” غدّار اور کافر ہونے کے فتوے صادر کئے جاتے ہیں، واجب القتل قرار دے دیا جاتا ہے۔اغوا کرکے غائب کر دیا جاتا ہے۔ اگر موقعہ ملے تو مار بھی دیا جاتا ہے۔ زبانیں خاموش کرادی جاتی ہیں۔
پوری دنیا کے تمام مہذّب معاشروں میں اظہار رائے کی آزادی کا نہ صرف احترام کیا جاتا ہے بلکہ آئین و قانون کے تحت اظہارِ رائے کو تحفّظ دے کر اسے بنیادی انسانی حق قرار دیا گیا ہے۔ اس ہی طرح اختلافِ رائے بھی ہر انسان کا حق ہے، قانونی حق ہے، بنیادی انسانی حق ہے، اقوامِ متّحدہ کے چارٹر آف ہیومن رائٹس کی شق نمبر 18 اور 19 اس کرّہ ارض کے تمام انسانوں کو آزادیِ فکر، آزادی ضمیر، آزادی رائے اور اختیارِ مذہب کا پورا اختیار دیتی ہے۔ ہر شخص کو اپنی رائے رکھنے، اور اظہارِ رائے کی آزادی کا پورا حق حاصل ہے۔ ہر شخص بغیر ملکی سرحدوں کا خیال کئے علم اور خیالات کی تلاش کرسکتا ہے، ان کا پرچار کرسکتا ہے، انہیں حاصل کرسکتا ہے اور ان خیالات کو پھیلا بھی سکتا پے۔ اس عالمی قانون کا پاکستان بھی پابند ہے کیونکہ یہ بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے۔
سوشل میڈیا اظہارِ رائے کا ایک ذریعہ ہے۔ سوشل میڈیا نے عام آدمی کو اس قابل کردیا کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے کسی بھی جبر و تشدّد، ظلم و زیادتی ، ناانصافی کے خلاف ، بڑی آسانی کے ساتھ آواز اٹھا سکتا ہے۔ اپنے اوپر ہونے والے جبر و تشدّد، ظلم و زیادتی ، ناانصافی کو بغیر کسی رکاوٹ اور پابندی کے دنیا کے سامنے لا سکتا ہے۔ احتجاج کرسکتا ہے، دنیا کو بتا سکتا ہے۔ اسے انصاف ملے یا نہ ملے مگر دنیا کو پتا ضرور چل جاتا ہے، کہ کس پر ظلم ہوا؟، کس کے ساتھ ناانصافی ہوئی؟، کس کے حقوق کی پامالی ہوئی؟، کس نے کی؟ کون ذمّہ دار ہے؟۔ ظالم اور جابر کی نشاندہی ہوجاتی ہے، ناانصافی عیاں ہوجاتی ہے۔ خوف و جبر کا شکار معاشروں میں سوشل میڈیا بڑی تیزی کے ساتھ ایک متوازی میڈیا کے طور پر دنیا کے سامنے تصویر کا دوسرا رُخ پیش کر تاہے۔
گذشتہ تین روز سے سوشل میڈیا بلاگر اور انسانی حقوق کی موثّر آواز ، فاطمہ جناح یونیورسٹی کے پروفیسر سلمان حیدر کی گمشدگی کا موضوع اس وقت پاکستان میں زیرِ بحث ہے اور سوشل میڈیا پر “سلمان حیدر کو بازیاب کرو” کے نام سے سوشل میڈیا پر گردِش کر رہا ہے۔
گذشتہ جمعہ کو اسلام آباد سے اغوا ہو کر لاپتہ ہونے والے ، سوشل میڈیا بلاگر ،حقوقِ انسانی کے سرگرم کارکن، اور ترقّی پسند شاعر جناب سلمان حیدر کے بارے میں تاحال کوئی اطلاع نہیں ہے۔ گمشدہ افراد کی بازیابی کے لئے آواز اٹھانے والا خود گمشدہ افراد میں شامل ہوگیا ہے۔ سوشل میڈیا بلاگر سلمان حیدر کے علاوہ تین اور سوشل میڈیا بلاگر بھی اِن ہی دنوں میں لاپتہ ہوئے ہیں۔
غیر سرکاری تنظیم سائیبر سکیورٹی کے مطابق سوشل میڈیا بلاگرز وقاص گورایا اور عاصم سعید چار جنوری سے لاپتہ ہیں۔ جبکہ رضا نصیر ہفتے کے روز سے لاپتہ ہیں۔ باخبر ذرائع نو کی تعداد میں سوشل میڈیا بلاگرز کے لاپتہ ہونے کا ذکر کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ، بہت ہی پراسرار حالات میں اردو سوشل میڈیا اور پاکستان کے حالات کے تناظر میں سرگرم سوشل میڈیا کے کچھ مشہور فیس بُک پیجز بھی پراسرار طور پر بند ہوگئے ہیں۔ مختلف سماجی اور سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کی جانب سے سوشل میڈیا بلاگرز اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے کارکنوں کی گمشدگی پر پاکستان کی سول سوسائٹی اور کچھ سیاسی حلقوں کی جانب سے احتجاجی آوازیں بلند ہورہی ہیں۔
سنجیدہ حلقوں کی جانب سے حکومت اور ریاست پر تنقید میں کہا جارہا ہے کہ ریاست کی دوہری منافقانہ پالیسی سمجھ اور انصاف کے تقاضوں سے بالاتر ہے۔ ایک جانب تو سیاسی وسماجی کارکنوں کو دہشت گردی کی عدالتوں میں ٹرائل کیے جانے سے لے کر پراسرار طور پر غائب کردینے کی روش مسلسل جاری ہے۔ جب کہ دوسری جانب معروف دہشت گرد تنظیموں کے نمائندوں سے سرکاری سطح پر ملاقاتیں کی جاتی ہیں اور انھیں جلسے جلوس کرنے کے لیے سرکاری پشت پناہی بھی فراہم کی جاتی ہے۔کہا جارہا ہے کہ سوشل میڈیا بلاگزر کو ہراساں کرنے کی جس رسم کا آغاز ہوا ہے، اگر ایسے ہی لگام فرقہ وارانہ فساد پھیلانے والے مولویوں کو ڈال دی جاتی تو آج پاکستان بہت مختلف اور پرامن ہوتا۔
مہذّب معاشروں میں ریاست سے اختلافِ رائے رکھنے والوں سے اختلاف تو کیا جاسکتا ہے۔ مگر کسی کو شٹ اپ کال نہیں د ی سکتی، کسی کی زبان بندی نہیں کی جاسکتی۔ اور نہ ہی کسی کو مطعون و ہراساں کیا جاسکتا ہے، نہ ہی کسی کو اغوا کرکے لاپتہ کیا جاسکتا ہے۔ ہر شخص پر معاشرے کا حق ہے، ہر شخص کو معاشرتی اور بین الاقوامی نظام میں شامل ہو کر اظہار رائے کی آزادی اور اختلافِ رائے کا حق ہے۔ میری ریاستی اداروں سے درخواست ہے کہ اِس حق کا احترام کریں۔ جب آوازیں خاموش کرادی جاتی ہیں توپھر شور بلند ہوتا ہے۔
♦
2 Comments