واٹر اینڈ پاور ڈیو یلپمنٹ اتھارٹی واپٖڈا نے داسو پاور پراجیکٹ پر کام کرنے والی ایک چینی کمپنی کے ساتھ ہونے والے دو معاہدے ختم کر دیے ہیں۔ منسوخی کی وجوہات بتاتے ہوئے واپڈا کے ترجمان محمد عابد نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے ابتدائی کاموں کے دو معاہدے تعمیراتی کمپنی کی جانب سے معاہدوں میں موجود مروجہ قوانین کی سنگین خلاف ورزی اور تعمیراتی کام شروع نہ کرنے کی وجہ سے منسوخ کیے گئے ہیں‘‘۔
انہوں نے کہا یہ دونوں معاہدے واپڈا اور ملک کو نقصان سے بچانے کے لئے منسوخ کیے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان معاہدوں کا تعلق ابتدائی کاموں سے متعلق ہے، جن میں پراجیکٹ کے لئے کالونی، چو چنگ ری سیٹلمنٹ سائٹ اور ستیال میوزیم کی تعمیر شامل ہے۔
ترجمان نے کہا، ’’ان معاہدوں کی منسوخی سے منصوبے کی مجموعی تکمیل پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور اسے مقررہ مدت میں ہی مکمل کیا جائے گا۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا، ’’منسوخ کیے گئے دونوں معاہدوں کو ری ایوارڈ کیا جائے گا، جس کے لئے اخبارات میں اشتہارات دے دیے گئے ہیں اور جیسے ہی پراسیس مکمل ہوگا، کنٹریکٹ ایوارڈ کر دیے جائیں گے‘‘۔
لیکن ماہرین کے خیال میں اس سے ملک میں توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لئے کی جانے والی کوششیں متاثر ہوں گی۔ سابق وزیرخزانہ سلمان شاہ نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’یقیناً اس سے فرق تو ضرور پڑے گا۔ ہمارے یہاں بین الاقوامی کمپنیوں کو کام کرتے وقت مسائل کا سامنا رہتا ہے اور اس کی وجہ ہے ملک میں نوکر شاہی کی طرف سے کھڑی کی جانے والی رکاوٹیں، کرپشن اور ہمارے اداروں کی کمزوریاں ہیں۔ اسی وجہ سے کمپنیاں ملکی عدالتوں میں بھی جاتی ہیں اور بین الاقوامی اداروں سے بھی رابطہ کرتی ہیں ‘‘۔
تجزیہ نگار سہیل وڑائچ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’تمام مسائل کی ذمہ دار حکومت نہیں ہے۔ حکومت کو بھی یہ شکوہ ہے کہ چینی کمپنیاں اس طرح کام نہیں کر رہی جیسا کہ انہیں کرنا چاہیے۔ معیار کے حوالے سے بھی حکومت کو شکایات ہیں جب کہ ہماری طرف سے بھی کچھ کوتاہیاں ہیں۔
میرے خیال میں حالات اس نہج پر نہیں جائیں گے کہ چینی کمپنیاں اپنا سرمایہ نکال لیں۔ پاکستان میں تو یہ تصور ہے کہ چین ہم پر کوئی بہت بڑا احسان کر رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ چین کو بھی بندرگاہ تک رسائی سے بہت سارے فوائد حاصل ہوں گے۔ لہذا میرے خیال میں دونوں ممالک محتاط رویہ اختیار کریں گے‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا،’’ اگر حکومت نے 2018کے انتخابات سے پہلے لوڈشیڈنگ کا مسئلہ حل نہیں کیا تو اس کے لئے بہت سے سیاسی مسائل ہو جائیں گے۔ میرے خیال میں حکومت مکمل طور پر تو اس مسئلے کو حل نہیں کر سکے گی لیکن وہ یہ تاثر دینے میں کامیاب ہوجائے گی کہ اس نے اس مسئلے کو حل کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے‘‘۔
معروف معیشت دان ڈاکٹر وقار احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس معاہدے کی منسوخی سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا، ایک کی جگہ کوئی دوسری چینی کمپنی آجائے گی۔ ان کی تو ساری کمپنیاں ہی سرکار کے ماتحت ہیں لیکن مسئلہ خالی مختلف پراجیکٹس کو مکمل کرنا نہیں بلکہ لوڈ شیڈنگ کو ختم کرنے کے لائن لاسسز، بجلی کی چوری، ادائیگی اورگردشی قرضوں کے مسئلے کو حل کرنا ہوگا۔ توانائی پالیسی2013 کو صحیح معنوں میں نافذ کرنا ہوگا۔‘‘۔
DW