آصف جاوید
یہ وہ سوال ہے جو اکثر مجھ سے پوچھا جاتا ہے، میرے قریبی دوست جو مجھے ذاتی طور پر جانتے ہیں، اور میرے خیالات، نظریات، اور مزاج کو سمجھتے ہیں مجھ سے اکثر سوال کرتے ہیں کہ آصف جاوید ، جو کچھ بھی تم لکھتے ہو، اس پر ستائش، تو نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے، مگر گالیاں بےشمار پڑتی ہیں، کوئی تمہیں کافر کہتا ہے، کوئی پاکستان کا غدّاراور کوئی انڈیا کا ایجنٹ کہتا ہے۔ لوگ تمہیں پاکستان کا دشمن، اسلام کا دشمن بھی سمجھتے ہیں۔ لوگ تمہیں منھ در منھ اور غیبت، دونوں ہی صور توں میں برا ہی کہتے ہیں، تمہیں شٹ اپ کالز اور دھمکیاں بھی ملتی ہیں، کمیونٹی تقریبات میں لوگ تم سے بحث پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ کبھی کبھی تو کوئی اسلام اور پاکستان کا ٹھیکیدار تمہاری ذلّت پر بھی آمادہ ہوجاتا ہے، تمہیں اپنی عزّت بچانا بھی مشکل ہوجاتی ہے، مگر نہ جانے تم کس ڈھیٹ مٹّی سے بنے ہو کہ لکھتے ہی جاتے ہو، بولتے ہی جاتے ہو، تمہیں ڈر نہیں لگتا؟، خوف نہیں آتا؟ آخر تم کیوں لکھتے ہو؟
گذشتہ کئی سالوں سے، جب سے میرے لب و لہجے میں شدّت آئی ہے، میرے دوست مجھے باز رہنے اور محتاط رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ تمہارا میدان تو سائنس، انجینئرنگ، اور ٹیکنالوجی تھا۔ تم کیوں سماجی اور سیاسی مسائل پر پنڈورا باکس کھول کر بیٹھ جاتے ہو۔ تمہارے ہاتھوں میں صرف تاریخ، سیاسیات، معاشیات، سماجیات کی کتابیں ، رسائل اور اخبارات ہوتے ہیں۔
کینیڈا کی پبلک لائبریریوں کے منتطمین کو تم نے تنگ کرکے رکھا ہوا ہے۔ روز کتابوں کی فہرست انہیں پکڑا دیتے ہو۔ پاکستان سے بھی ڈھونڈ ڈھونڈ کر تمام ترقّی پسند دانشور ، مصنّفین ، اور تاریخ دانوں کی کتابیں منگواتے ہو۔ اہلِ علم اور دانشوروں سے تبادلہ خیالات کرتے رہتے ہو، لبرل اور سیکولر خیالات کا پرچار کرتے رہتے ہو۔ سماجی انصاف اور انسانی برابری کی بات کرتے ہو، ترقّی پسندی اور روشن خیالی کی باتیں کرتے ہو، انسانیت کو اپنا مذہب قرار دیتے ہو، بیوی بھی تنگ، بچّے بھی تنگ، دوست بھی تشویش میں مبتلاء، آخر چاہتے کیا ہو؟
اپنے تمام خیر خواہوں، کو فردا” فردا” جواب دینا تو مشکل ہے، لہذا مناسب یہی ہے کہ کالم لکھ کر جواب دے دیا جائے۔ میرے پیارے ہمدوردوں، میں تمہاری تشویش کا احترام کرتا ہوں، مگر میں مجبور ہوں، میں ضمیر کا قیدی ہوں۔ میں خاموش تماشائی بن کر نہیں رِہ سکتا ہوں۔ جب بھی میرے پیارے وطن پاکستان میں، انسانیت قتل ہوگی، ظلم و نا انصافی ہوگی میں تو بولوں گا۔ جب بھی پاکستان میں مذہب، فرقے، زبان رنگ و نسل کے نام پر معصوم احمدیوں، شیعوں، عیسائیوں، ہندوؤں، مہاجروں اور بلوچوں کے ساتھ نا انصافی ہوگی ،میں پوری قوّت سے بولوں گا۔ پوری قوّت سے لکھوں گا۔
میں اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق لکھتا اور ضمیر کے مطابق بولتا ہوں، ببانگ دہل بولتا ہوں، ٹی وی پر بولتا ہوں، ریڈیو پر بولتا ہوں، اخبارات میں لکھتا ہوں ، سوشل میڈیا پر بلاگ لکھتا ہوں، اور اپنی اوریجنل آئی ڈی کے ساتھ رہتا ہوں، ایک دِن اپنی شناخت نہیں چھُپائی۔ میں نہ تو کسی سے ڈرتا ہوں اور نہ ہی مجھے کوئی خوف ہے۔ میں پورے سوشل میڈیا پر اپنی گذارشات شیئر کرتا ہوں، جو لوگ تم سے میری شکایتیں کر تے ہیں، انہیں حق ہے کہ وہ مجھ سے اختلافِ رائے کرسکتے ہیں۔ وہ مجھ سے دلیل کے ساتھ مکالمہ اور علمی بحث و مباحثہ بھی کرسکتے ہیں۔
مگر ان میں سے اکثریت کو اظہارِ رائے کی آزادی کے احترام کے بین الاقوامی قانون ، اور اظہارِ رائے کے حق اور اختلافِ رائے کے آفاقی اصول کا پتا نہیں ہے۔ بس یہ صرف شور مچا کر مجھے برا بھلا کہ سکتے ہیں، مجھے گالیاں دے سکتے ہیں۔ مگر دلیل اور منطق سے کوئی بات نہیں کر سکتے۔ بہرحال میں تو ایسا ہی ہوں، ایسا ہی رہوں گا۔ تم مجھ میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی کی توقّع نہ رکھو ۔ اِن عقل کے اندھوں ، سوچ و فکر کے تنگ نظروں سے کہو کہ اپنے آنکھ، کان اور زبان بند رکھا کریں۔ کیونکہ یہ سچ بولنا، سننا، اور دیکھنا نہیں چاہتے ہیں۔ یہ سچ کا سامنا کرتے ہوئے گھبرا تے ہیں۔
ایسا صرف میرے ساتھ ہی نہیں ہورہا ہے۔ تمام ترقّی پسند اور روشن خیال لوگوں کے ساتھ ایسا ہی کیا جاتا رہا ہے ۔ حسن ناصر کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ فیض احمد فیض ، حبیب جالب کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔
رضا رومی ، شعیب عادل کو بھی اِس ہی وجہ سے در بدر ہونا پڑا، عائشہ صدّیقہ اور حسین حقانی کو بھی ملک چھوڑنا پڑا۔ سبین محمود اور دوسرے بہت سے لوگوں کو اپنی جان دے کر اِس کی قیمت چکانا پڑی۔ یہ تمام اکابرین تو بہت بڑے لوگ تھے ، میں تو اِن کے پاؤں کی خاک کے برابر بھی نہیں ہوں۔ میری کیا حیثیت ہے؟
پاکستان میں ریاستی کنٹرول کا شکار میڈیا ،ضمیر فروش صحافی اور لفافہ دانشور پوری قوم کو اپنے مکروہ پروپیگنڈے کے حصار میں رکھنا چاہتے ہیں۔ کسی شہری کو اس بات کا موقعہ نہیں دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی تنقید ی سوچ کو استعمال کرسکے۔اپنے ریشنل سسٹم سے کام لے کر کچھ سمجھ سکے۔ ہمارا معاشرہ اس جبر کا شکار ہے کہ جب بھی کوئی اپنے تجزیوں کو استعمال کرکے اپنی زاتی رائے قائم کرنا یا کچھ اظہار کرنا چاہے اور اس کا اظہار کسی کے عقائد اور نظریات کے مطابق نہ ہو تو اس پر فورا” غدّار اور کافر ہونے کے فتوے صادر کئے جاتے ہیں، واجب القتل قرار دے دیا جاتا ہے۔
اگر موقعہ ملے تو مار بھی دیا جاتا ہے۔ زبانیں خاموش کرادی جاتی ہیں۔ پوری دنیا کے تمام مہذّب معاشروں میں اظہار رائے کی آزادی کا نہ صرف احترام کیا جاتا ہے بلکہ آئین و قانون کے تحت اظہارِ رائے کو تحفّظ دے کر اسے بنیادی انسانی حق قرار دیا گیا ہے۔ اس ہی طرح اختلافِ رائے بھی ہر انسان کا حق ہے، قانونی حق ہے، بنیادی انسانی حق ہے، اقوامِ متّحدہ کے چارٹر آف ہیومن رائٹس کی شق نمبر 18 اور 19 اس کرّہ ارض کے تمام انسانوں کو آزادیِ فکر، آزادی ضمیر، آزادی رائے اور اختیارِ مذہب کا پورا اختیار دیتی ہے۔
ہر شخص کو اپنی رائے رکھنے، اور اظہارِ رائے کی آزادی کا پورا حق حاصل ہے۔ ہر شخص بغیر ملکی سرحدوں کا خیال کئے علم اور خیالات کی تلاش کرسکتا ہے، ان کا پرچار کرسکتا ہے، انہیں حاصل کرسکتا ہے اور ان خیالات کو پھیلا بھی سکتا ہے۔ پاکستان بھی اس عالمی قانون کا پابند ہے کیونکہ یہ بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے۔
اصولی اختلاف رکھنے والے مخالف کا منھ بند کروانا اور گالیاں دینا ، کمزور ہونے کی دلیل ہے۔ کمزور یہ ہیں میں نہیں۔ میں تو اپنے موقّف پر اٹل ہوں۔ مجھےمسلمان ہونے یا پاکستانی ہونے کے لئے بھی اِن کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں۔ یہ اپنی آسانی کے لئے مجھے کافر، غدّار اور انڈیا کا ایجنٹ ہی سمجھیں تو بہتر ہے۔ میں انسانی حقوق کا عمل پرست ہوں پاکستان اور اسلام کے حوالے سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، قتل و غارت گری، اسٹیبلشمنٹ کے جابرانہ رویّے، ظلم و نا انصافی کے لئے آواز بلند کرنا ، اپنے ایمان کا حصّہ سمجھتا ہوں۔
اور میری تمام جدوجہد کا مقصد اور محور یہی ہے۔ کسی کا بھی کا مجھ سے متّفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ہر شخص پر معاشرے کا حق ہے، ہر شخص کو کو معاشرتی اور بین الاقوامی نظام میں شامل ہو کر اظہار رائے کی آزادی اور اختلافِ رائے کا حق ہے۔ان پر لازم ہے کہ اس حق کا احترام کریں۔
نوٹ:ـ پاکستان میں سوشل میڈیا بلاگرز کی جبری گمشدگی، اور اِس تناظر میں آن لائن میگزین “نیا زمانہ ” میں میرے مسلسل پانچ مضامین شائع ہونے اور ٹیگ ٹی وی کینیڈا سے سوشل میڈیا بلاگرز کی جبری گمشدگی پر میرے ٹی وی پروگرام “سلگتے مسائل” کے آن ائر ہونے کے بعد، میرے کچھ ذاتی دوستوں کی طرف سے اٖحتیاط کا مشورہ ملنے کے بعد میرے ذاتی ردِّ عمل کے طور پر یہ کالم تحریر کیا گیا ہے۔ کسی بھی قسم کی دِل آزاری کی معافی چاہتا ہوں، وما علینا الالبلاغ، آصف جاوید، ٹورونٹو
♦
2 Comments