آزادی اظہار اور نوبیل پرائز لینے سے انکار

پائندخان خروٹی

کیا آپ کو علم ہے کہ جدید سرمایہ دارانہ دنیا میں سب سے بڑا اعزاز نوبیل پرائز کو سمجھنا جاتا ہے۔ سویڈن کے سائنس دان اور ڈائنامائٹ کے موجد الفریڈ نوبل کے نام سے منسوب اس انٹرنیشنل ایوارڈ سے 1901 سے لیکر اب تک تقریباً 943 شخصیات کو نوازے گئے ہیں جن میں 58 خواتین اور سات مسلمان مرد بھی شامل ہیں۔

نوبیل انعام عالمی سطح غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے افراد کو دیا جاتا ہے۔ نوبیل انعام یافتہ شخص کو تقریباً ایک کروڑ سویڈش کرنسی کرونا جو پاکستانی کرنسی میں تقریباً اٹھائیس کروڑ روپے بمع اٹھارہ قیراط سونا دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ نوبیل انعام یافتہ بورژوازی تاریخ کا ہمیشہ کیلئے حصہ بن جاتا ہے اور ان کے اعزاز میں دنیا بھر میں مختلف پروگرامز بھی منعقد کیے جاتے ہیں۔

یہ بات دنیا پر عیاں ہے کہ محکوم اقوام اور مظلوم طبقات کو معاشی غلامی سے نجات دلانے، سامراجی قوتوں کو زمین بوس کرنے، استحصالی عناصر کو خلقی رنگ میں بدلنے اور عوامی حقوق واختیارات کی پاسداری کو یقینی بنانے کی جدوجہد دنیا کے تمام انعامات و اکرامات پر زیادہ مقدم ہے۔ طاقتور سے طاقت چھینے اور کمزور کو طاقت دینے کی ہر کوشش لائقِ تحسین ہوتی ہے۔ معاشرے کے بےآواز لوگوں کی آواز بنے اور انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال کا خاتمہ کرنے والے ہی خراج تحسین کے مستحق ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ تاریخ خوشامد اور چاپلوس افراد کی نہیں لکھی جاتی۔

یہ بات طے ہے کہ طبقاتی سماج میں پرولتاري اصولوں پر قائم رہ کر زندگی گزارنا انتہائی مشکل ہے بعض اوقات تو مالی نقصان سے بات آگے چلی جاتی ہے اور جان نچھاور کرنے کی باری آ جاتی ہے۔ اس طرح کسی مذہبی فرقہ، قبیلہ یا مخصوص جغرافیہ کا ہیرو بنا آسان ہے مگر اپنے آپ کو انسان کے مشترکہ مقدر بنانے کی صف لا کھڑا کرنا ہر ایک کی بس کی بات نہیں ہے۔ ظلم، جبر اور استحصال پر مبنی معاشرہ میں ہر انسان کے تقریباً پانچ کلو سر پر پانچ ٹن خوف سوار رہتا ہے۔ انسان کی پاکیزگی کو پلیدگی میں تبدیل کرنے کیلئے قدم قدم پر طمع اور لالچ دیا جاتا ہے۔ مگر یہ جان کر انسان کے جسم میں خوشی کی ایک نئی لہر دوڑ جاتی ہے کہ خودی اور خوداری کے پیکر اور محکوم اقوام کے علمبردار فرانسیسی فلاسفر ژاں پال سارتر اور ویت نام کے انقلابی رہنماء لی ڈک تھو نے نوبیل انعام حصول کرنے سے انکار کیا۔

یہ علیحدہ بات ہے کہ ہمارے ہاں تو لوگ خیرات کے چاول اور پکوڑے بھی نہیں چھوڑتے ۔۔۔۔۔؟ شاعر اور ادیب تو ایک چھوٹے سے علاقائی ایوارڈ اور ولیمہ کی دعوت کیلئے بھی دس جگہوں سے سفارش کراتے ہیں۔ خودنمائی اور سستی شہرت کیلئے فیس بک پر تصاویر بھی اپلوڈ کرتے ہیں۔ اپنے جونیئر سے اپنے حق میں فرمائشی کالم لکھوانا تو اب ایک عام رواج ہے۔ بہرحال فرانس کے فلاسفر ژاں پال سارتر نے سرمایہ دارانہ دنیا کے سب سے بڑے انعام نوبیل پرائز اور ان سے منسلک کروڑوں نقد رقم لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ہمیشہ سرکاری اعزاز سے انکار کیا ہے اور ویسے بھی ایک مصنف کو اپنی ذات کو کسی ادارے میں تبدیل ہونے سے بچانا چاہئے” (اخبار لی فیگارو، 24 اکتوبر 1964)۔

دنیا بھر کے علمی، ادبی اور سیاسی حلقوں نے ژاں پال سارتر کے اس اقدام کو لائق تحسین قرار دیتے ہوئے کہا کہ سارتر نے فکر اور قلم کی آزادی کو برقرار رکھنے کی ایک قابل تقلید مثال قائم کی۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ فکر اور قلم کی آزادی کی قیمت پر دینے والے انعام و اکرام سے انکار آپ کی بلند عظمت و وقار کا باعث بن سکتا ہے ورنہ قبول کرنے سے آپ کے کردار اور شخصیت پر داغ ضرور پڑ جائیں گے۔

Comments are closed.