نواز شریف کی واپسی:کیا تبدیلی لائے گی؟

لیاقت علی

اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت ملنے کے بعد نواز شریف کی واپسی کی راہ میں تمام رکاوٹیں بظاہر دور ہوچکی ہیں اوراب ان کی واپسی بہت حد تک یقینی ہے۔جس طرح ان کی واپسی کی راہ ہموار کی گئی ہے اس سے تو یہ بھی لگتاہے کہ انھیں کسی نہ کسی طریقے سے اقتدار بھی دلا دیا جائے گا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ حصول اقتدار کے بعد کچھ ڈیلیور بھی کرسکیں گے؟کیا وہ پاکستان کو درپیش معاشی سیاسی اور گورننس کے بحرانوں سے باہر نکال سکیں گے؟ کیا ان کی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن اس قدر منظم ہے کہ وہ مذکورہ بحرانوں کے حل اور متحار سیاسی قوتوں کے سامنے نواز شریف کو عوام کی سطح پرسپورٹ فراہم کرسکے؟

پاکستان کی ریاست کودرپیش سب سے بڑا بحران معاشی ہےباقی سب بحران اس بحران کی ذیلی پیداوار ہیں۔ اور جہاں تک تعلق ہے معاشی بحران کا تو اس کی بنیادی وجہ اس کے غیر پیداواری اخراجات ہیں اور ان میں غیر پیداواری اخراجات دفاع کے نام پر ہونے والے اخراجات سب سے زیادہ ہیں۔ کیا نواز شریف دفاعی اخراجات کم کرنے کی طرف رخ کریں گے یا پھر وہ بھی ملکی دفاع کے نام پر ان اخراجات میں اضافہ کی طرف جائیں گے؟

اگر نواز شریف نے حقیقت پسندی سے معاشی بحران کا جائزہ لیا تو یقیناًوہ دفاعی اخراجات میں کمی کا آپشن استعمال کرنا چاہیں گے لیکن پھر سوال اٹھتا ہے کہ کیا وہ ایسا کرسکیں گے کیونکہ جس قوت کے بل بوتے پر وہ واپس آئے ہیں اور جس نے ان کو اقتدار دلایا ہوگا وہ انھیں یہ کچھ کرنے دے گی؟ اور اگر نواز شریف ان کی مخالفت کے باوجود یہ کام کرنا چاہیں گے تو پھر وہ اقتدار میں رہ پائیں گے؟ پاکستانی کی سیاسی تاریخ کا اب تک کا تجربہ اور مطالعہ بتاتا ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ پاکستان کی ریاست اور سیاست کی فیصلہ کن قوت فوج اورصرف فوج ہے باقی سب ثانوی قوتیں ہیں۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ اگروہ دفاعی اخراجات کو چھیڑےبغیر معیشت کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کے لئے انھیں سارا بوجھ عوام کی طرف منتقل کرنا ہوگا اور عوام تو پہلے ہی مہنگائی اور بے روزگاری کے پہاڑ تلے پس رہے ہیں اور ایسی صورت میں نواز شریف عوام کی حمایت اپنے ساتھ رکھ پائیں گے؟ ایسا ہونا بھی ممکن نہیں ہے۔ عوام میں اپنے مسائل اور مشکلات کی بنا پر پائے جانے والی بے چینی کسی بھی قسم کے سیاسی اور عسکری مہم جووں کے لئے مفید اور معاون ثابت ہوگی۔

بلوچستان میں جاری مسلح جدوجہد اور فوجی ایکشن بارے نواز شریف کیا کریں گے؟کیا وہ فوجی آپریشن بند کرکے اس مسئلے کا سیاسی حل دریافت کرسکیں گے؟ مسنگ پرسنز کی واپسی کی کیا صورت ہوگی؟ہوگی بھی یا نہیں؟ بلوچستان میں اس وقت سب سے بڑا سٹیک پاکستان آرمی کاہے اور وہ بلا شرکت غیرے بلوچستان کے وسائل پر اپنا قبضہ رکھنا چاہتی ہے اور کسی بھی قسم کی سیاسی مداخلت کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔قرائن سے لگتا ہے کہ فوج نواز شریف کو بھی اجازت نہیں دے گی کہ وہ بلوچستان کے مسئلے میں ہاتھ ڈالیں اور معاملات کو بدستور جوں کا توں رکھنا چاہے گی۔ بلوچستان کی سیاسی قوتوں کو نواز شریف کیسے مطمئن کر پائیں گے کیونکہ بلوچستان کے حوالے سے بیک وقت فوج اور وہاں کی سیاست قوتوں کو خوش نہیں رکھا جاسکتا۔بلوچستان کے عوام کا بنیادی تضاد فوج سے بن چکا ہے ۔

افغانستان گذشتہ چاردہائیوں سے فوج کا خصوصی میدان ہے جہاں اس کی مرضی و منشا کے مطابق کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ اور پہلا اور آخری فیصلہ فوج ہی کا ہوتا ہے اس بارے نواز شریف کےآپشنز کھلے ہوں گے؟ دہشت گردی کے عفریت کا کیا حل ان کے پاس ہوگا؟ دہشت گردی کو پاکستانی ریاست لااینڈ آرڈر کا ایشو سمجھ کر اسے ٹریٹ کرتی ہے حالانکہ لا اینڈ آرڈر سے زیادہ یہ نظریاتی ایشو ہے۔پاکستانی ریاست کو نظریاتی ایشوز اور تضادات کا سامناہے کیا نواز شریف دہشت گردی کی نظریاتی بنیاد کو چیلنج کرسکیں گے اور کریں گے تو ان قوتوں کا سیاسی اور نظریاتی میدان میں مقابلہ کرپائیں گے جو پاکستانی ریاست کی نظریاتی کی ساخت میں کسی قسم کی تبدیلی کی مخالف ہیں۔

پھر بہت اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا ن لیگ گراس روٹس لیول پر اتنی منظم اور طاقتور ہے کہ نواز شریف کے سیاسی ایجنڈے کو عوامی حمایت فراہم کرنے میں معاون ثابت ہوسکے۔ اب تک کی صورت حال سے تو لگتا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔نواز لیگ اس وقت پنجاب میں پاور بروکرز کی پارٹی ہے جس میں کارکن نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ پاور بروکرز اور ان کے کارندے ہی ہیں جو نواز لیگ کہلاتے ہیں۔ عوام اس وقت سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے لا تعلق نظر آتے ہیں۔ موجودہ صورت حال میں لگتا ہے کہ نواز شریف کی واپسی اور اقتدار میں آنے کے باوجود پاکستان کی معیشت سیاست اور ریاست میں کسی جوہری تبدیلی کا امکان نہ ہونے کےبرابر ہے اور یہ کہنا شائد مبالغہ نہ ہو کہ حالات جوں کے توں نہیں بلکہ مزید ابتر ہونے کا قوی امکان ہے۔

Comments are closed.