ایمل خٹک
گزشتہ چند دہائیوں کے واقعات اور سماجی ، سیاسی اور معاشی تبدیلیوں نے پشتون بیلٹ کا نقشہ تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ داخلی اور خارجی دونوں قسم کی تبدیلیوں سے پشتون معاشرے کی ساخت یعنی فیبرکس میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئی۔
پاکستان بننے کے بعد غیر جمہوری ہتھکنڈوں اور ریاستی جبر و تشدد کی وجہ سے پشتونوں میں انگریز سامراج کے دور سے ریاست دشمنی کی پیدا شدہ جذبات مزید گہرے ہوئے۔
پاکستانی ریاست کی جمہوریت دشمن اور مرکزیت پسند ماہیت کو سمجھنے کیلئے تین عوامل ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ ایک تو پاکستان بننے کے بعد نئے ملک میں کوئی انتخابی حلقہ نہ رکھنے والا نیامہاجر حکمران طبقہ یعنی مسلم لیگی قیادت شروع ہی دن سے سیاسی کنٹرول کھونےکے خوف اور احساس کمتری میں مبتلا ہوگیا۔ اس طرح اقتدار پر براجمان نئے سیاسی اشرفیہ نے ابتدا ہی سے اپنا سیاسی تسلط قائم کرنے کیلئے حقیقی جمہوری عمل سے گریز اور جمہوریت کے نام پر ڈھونگ رچانے کا عمل شروع کیا۔
جمہوری اور سیاسی عمل سے گریز نے غیر جمہوری قوتوں کو شہہ دی ۔ پہلے سول بیورکریسی اور پھر فوجی بیوروکریسی سیاستدانوں کے کاندھوں پر سوار ہو کر اقتدار کے چسکے لیتی رہی۔ پہلے فوجی مارشل لا تک ملک میں سخت سیاسی خلفشار رہا اور یکے بعد دیگرے حکومتیں جمہوری عمل کے ذریعے کم جبکہ محلاتی سازشوں کے ذریعے زیادہ بدلتی رہی۔
دوسرا یہ کہ نیا اشرفیہ جو مقامی زبان اور کلچر سے ناآشنا تھا اور ان کی زبان یعنی اردو کو دو فیصد بھی کم لوگ سمجھتے تھے۔ اس وجہ سے نئے حکمران طبقے نے مقامی کلچر اور ثقافت کو نظر انداز کرتے ہوئے نئی زبان اور کلچر متعارف کرنے کی کوشش کی۔ جب نئے کلچر سے کام نہ چلا تو مذہب کا سہارا لے کر مقامی کلچر کو دبانے کی کوشش کی۔ اور 1970 تک مضبوط مرکز اور دو قومی نظریہ حکمران طبقے کے محبوب بیانیے رہے۔ مذھبی کارڈ ایک اہم ہتھیار تھا جس کو جمہوری قوتوں کو دبانے کیلئے استعمال کیا گیا ۔
تیسرا پہلے بالواسطہ اور بعد میں بلا واسطہ فوج کے اقتدار میں آنے سے فوجی جنتا پاور گیم کا مستقل حصہ بن گئی۔ اپنے نئے رول کو جواز فراہم کرنے کیلئے انڈیا دشمنی کا بیانیہ ایک مستقل بیانیہ بن گیا اور ہر آئینی اور غیر آئینی اقدام کو اس بیانیے سے دفاع کیاگیا ۔ ہر جمہوری اور بنیادی حقوق کیلئے آواز اٹھانے والا اور فوجی آمروں کو چیلنج کرنے والا بیرونی ایجنٹ اور خاص کر انڈیا کا ایجنٹ کہلایا جانے لگا۔ مذہبی کارڈ کے بعد انڈیا کارڈ دوسرا ہتھیار تھا جس کو بھی جمہوری قوتوں کو دبانے کیلئے استعمال کیا گیا ۔ فوجی آمروں نے داخلی مخالفت کو دبانے کیلئے ہمیشہ عالمی قوتوں اور ان کی امداد پر بھروسہ کیا ۔
اس طرح اگر ایک طرف حکمران طبقہ کمزور داخلی حمایت کی وجہ سے ظلم و جبر اور غیر جمہوری ہتھکنڈے اختیار کرنے پر مائل رہا تو دوسری طرف ان کا انحصار بیرونی قوتوں پر بڑھا۔ سیاسی ، معاشی اور فوجی امداد کے حصول کیلئےملک کو فرنٹ لائن اسٹیٹ بنانے اور کہلانے کا رواج عام ہوگیا۔ اور امریکہ کی سرپرستی میں قائم سیٹو اور سینٹو جیسے فوجی بلاکوں میں شمولیت اختیار کی۔ اور اس طرح ملک میں بیرونی مداخلت کی راہ ہموار اور اقتدار اعلیٰ کو گروہی رکھنے کی بنیاد رکھی گئی۔
اس دوران غیر محسوس طریقے سے حکمران طبقات کے اندر بھی اقتدار کی جنگ جاری رہی۔ اور حکمران طبقات کی ساخت اور پاور ڈائینا مکس تبدیل ہوتی گئی۔ حکمران طبقات میں غیر مہاجر یعنی مقامی اشرافیہ کا رول بڑھتا گیا اورآہستہ آہستہ بالادستی حاصل کی جبکہ مہاجر اشرافیہ کا رول گھٹتا گیا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں مقامی اشرافیہ کے ابھرنے اور ان کی بالادستی قائم کرنے کیلئے سیاسی اور معاشی بنیادیں رکھی گئیں۔ جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں یہ عمل مکمل ہوا۔ یہ کوئی اتفاق نہیں کہ کراچی میں لسانی کشیدگی کا آغاز جرنیل ایوب خان کے دور میں ہوا۔ پنجابی اشرافیہ نے سیاسی معاشی اور انتظامی معاملات میں بالادستی حاصل کرلی ۔ مہاجر اشرافیہ کے تسلط سے جان چھڑانے کیلئے پشتون اور کسی حد تک سندھی اشرافیہ نے بھی پنجابی اشرافیہ کا ساتھ دیا۔
پاکستانی ریاست نے اپنی علاقائی رقابتوں اور عالمی قوتوں کی مفادات کیلئے انتہائی منظم انداز میں پشتون بیلٹ میں انتہاپسندی اور عسکریت پسندی کو فروغ دینے کی پالیسی اپنائی ۔ سرد جنگ کے شروع میں حکمرانوں نے ذاتی ایجنڈے اور سامراجی عزائم کی تکمیل کیلئے پاکستان میں جمہوری اور سامراج دشمن قوتوں کو کمزور کرنے کی پالیسی اپنائی۔
سرد جنگ کے عروج پر یعنی افغان جہاد کے دوران جمہوری قوتوں کے ساتھ ساتھ قوم پرستوں کو خصوصی نشانہ بنایا گیا کیونکہ ڈیورینڈ لائین کے مسئلے کو ہمیشہ کیلئے دفن کرنے کے ساتھ ساتھ قوم پرست عناصر سے پرانے حساب بھی بیباق کرنے تھے۔ قوم پرستوں کو کمزور اور دبانے کیلئے مذھبی بنیادپرستوں کو مضبوط کیا گیا ۔ بعد میں سرد جنگ کے خاتمے اور نئی گریٹ گیم کے دور میں بنیاد پرستی کو پس پشت ڈال کر نئے مذھبی برانڈ یعنی طالبان کو آگے لایا گیا۔
افغانستان میں جہاد کے دوران مذھبی بنیاد پرستی اور پھر گریٹ گیم میں طالبان پراجیکٹ کو پروان چڑھانے کیلئے پشتون بیلٹ میں انتہاپسند اور عسکریت پسند سوچ کے فروغ اور اس کیلئے ایک سازگار ماحول بنانے کیلئے قوم پرست اور جمہوری قوتوں کیلئے سماجی ، سیاسی اور ثقافتی مواقعوں اور امکانات یعنی سپیس کو محدود کرنا ضروری تھا۔ اس لئے عسکریت پسندوں کو کھلی چھٹی دی گئی کہ وہ پشتون قوم پرست ، جمہوری اور روشن خیال سوچ رکھنے والے قبائلی عمائدین ، سیاسی ، سماجی کارکنوں اور دانشوروں کو خصوصی نشانہ بنائے۔ اور نتیجتاً سیاسی ، سماجی اور ثقافتی سرگرمیاں محدود ہو گئیں۔
لیکن پختونخوا اور بلوچستان کے پشتون علاقوں میں ریاستی پالیسیوں میں کچھ فرق بھی رہا۔ افغان طالبان کی مرکزی قیادت اور ان کے اہم مراکز چونکہ بلوچستان میں تھے اس وجہ سے وہاں نہ تو پاکستانی طالبان کو اس طرح منظم کیا گیا اور نہ وہاں کھلے عام عسکریت پسند سرگرمیوں کی اجازت دی گی تاکہ بلوچستان فوکس میں نہ رہے ۔ اور افغان طالبان خاموشی سے اپنا کام جاری رکھیں۔
گزشتہ چند سالوں سے جاری شورش، طالبانائزیشن اور فوجی آپریشنوں کے نتیجے میں پشتون بیلٹ میں جاری وسیع پیمانے پر کشت وخون اور تباہی و بربادی نے پشتون ذہن اور خاص کر نوجوانوں کوجھنجھوڑا ہے۔ خصوصاًخیبر پختونخوا اور فاٹا میں اسٹبلشمنٹ کے مکروہ گیم افشا ہوچکی ہیں اور عوام اب اس گیم کو سمجھ چکے ہیں ۔
پاکستانی ریاست نے بڑی بیدردی اور بےرحمی سے پشتون بیلٹ کو اپنے تنگ نظر اور ناعاقبت اندیش سٹرٹیجک پالیسیوں کیلئے استعمال کیا ۔ اور افسوس کہ یہ استعمال ابھی تک جاری ہے۔ اس عمل کو پشتون ” مڑ کئ او پڑ کئ م ھم ” یعنی مارنے اور پھر قصور وار ٹھہرانے کا عمل قرار دیتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ شورش زدہ علاقوں کی تعمیر نو اور بحالی کیلئے کوئی مکمل جامع ترقیاتی پیکج نہیں دیا گیا بلکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبوں میں پنجاب کو نوازنے کیلئے بنیادی روٹ میں تبدیلی کرکےپشتون بیلٹ کو دانستہ طور پر نظرانداز کیاگیا ۔ اس عمل کو پشتون دانشور پشتونوں کی نسلی اور سیاسی نسل کشی کے ساتھ ساتھ معاشی نسل کشی سمجھتےہیں ۔ اور اس حوالے سے ان میں نہ صرف قومی احساس جاگ رہی ہے بلکہ اس کے خلاف آوازیں بھی اٹھنا شروع ہوگئی ہے۔
پاکستانی ریاست اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے داخلی صورتحال کی ناکامی کی ذمہ داری بیرونی عوامل پر ڈال رہی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستان میں حالات کی خرابی کی ذمہ دار کسی حد تک بیرونی عوامل بھی ہیں مگر یہ پاکستانی ریاست تھی جس نے ہمیشہ بیرونی قوتوں کی آلہ کار بن کر اور اپنے آپ کو فرنٹ لائین اسٹیٹ قرار دیکر حلیف قوتوں کے ساتھ حریف قوتوں کو بھی مداخلت دینے کی دعوت دی ۔ اور ملک کو علاقائی اور عالمی بیرونی ایجنسیوں کی سٹرٹیجک گیم کھیلنے کا میدان بنا دیا ۔
غلط اور ناعاقبت اندیش قومی سلامتی کی پالیسیوں کی وجہ سے ملک مسلسل حالات جنگ میں ہے ۔ مشرقی کے ساتھ ساتھ اب مغربی سرحدوں پر بھی مسلسل کشیدگئ کا سامنا ہے۔ سوات سے لیکر بلوچستان تک فوج کی ایک بڑی تعداد سرحدی علاقوں میں موجود ہے۔ جبکہ بعض مفادی حلقے مسلسل جنگ جویانہ ماحول پیدا کرنے اور قائم رکھنے میں مصروف عمل ہے۔ علاقے میں تناؤ اور کشیدگی سے پراکسی وارز میں کمی کی بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔
بہت سی وجوہات کی بناء پر ریاست کی پروردہ اور پیداکردہ غیر ریاستی جنگی مشین کا اچھا خاصہ حصہ نہ صرف خود ریاست کے کنٹرول سے باہر نکلتا گیا بلکہ اس کے خلاف صف آراء بھی ہوگیا۔ اس طرح بہت سی عسکریت پسند یا تو ریاست کی ایماء پر اور یا اپنی بقا کیلئے دیگر علاقائی قوتوں کی آلہ کار بن گئے۔
♣
One Comment