سانول رضا
سال نو کی ابتدا باغیوں کو سلام سے کرتے ہیں
ڈاکٹر شاہ محمد مری سے سنتے ہیں مستیں توکلی کی داستان سمو کی کہانی
مست کی دنیا کو تہہ و بالا کرنے والے سمو سے محبت کے اس واقعے کے بعد مست پٹڑی سے اترتا چلا گیا، محبت کی اپنی پگڈنڈی ہوتی ہے، یہ دنیاوی راہوں شاہراہوں کی محتاج نہیں ہوتی۔ زندگانی کے روز و شب کی ساری گردش کا مرکزہ سمو بنتی گئی، ساری خواہشیں، مسرتیں، کاوشیں، مظاہر، مناظر سمو سے وابستہ ہوتے گئے۔سمو عالم کی وسعتیں پا کر کُل میں ڈھلتی گئی. کائنات سکڑ کر سمو بن گئی اور مگر اُدھر سمو ڈھل کر کائنات بنتی گئی۔
“اللہ بارش دے دو کہ سمو کے پالتو بکرے پیاسے ہیں. “
” خیرات کے گوشت میں عورتوں کا حصہ الگ کر کے پہلے انہیں کھلاؤ کہ عورتیں سمو کی رعیت ہیں. “
” اپنے اپنے ریوڑ سے ایک دنبہ لاؤ کہ ایک بڑی سی خیرات کریں خلق خدا گوشت کہ سمو کی شادی ہے“
سمو کی ذات کے پیچھے، اس کے نام کا برانڈ لئے، اس کے تعلق سے اور اس کی آڑ لے کر انسانوں کی بہبود کا کام کرنا ہے اور یوں اچھائی اور خدمت خلق مست کی زندگانی کے ہر نکتے کا آغاز اور انجام ٹھہرا۔
۔””مئیں سلاماں دئے تو پہ ماڑیّا
شاذیہاں نشتی ئے قراریّا،
پیاذغاں دگ گوئندیں شکاریّا. “”۔
میرا سلام دے دو، فصیلِ کے مالک شادیھان کو
کہ تم تو قرار و آرام سے رہ رہے ہو،
لیکن اگر شکاری پہاڑ کی چٹان کو کٹوا کر راستہ بنا دو
تو پیدلوں کے لئے سفر بہت مختصر ہو جائے گا.
واضح رہے کہ شکاری نامی دشوار چٹان دُکی اور ماوند کے راستے پر آتی ہے. اتنی دشوار کہ راہی کو اس کے گرد طویل چکر کاٹنا پڑتا تھا. مست نے شاعری میں کسی راہ رو کے ہاتھ فرمائش بھجوا دی اور شادیھان اپنے لوگوں کے ساتھ کدالیں لئے آس چٹان کے سر پر ضربیں مارنے آن موجود ہوا. وہ لوگ اس وقت تک بلا اجرت اور شہرت کام کرتے رہے جب تک کہ چٹان پیدلوں کے لئے شاہراہ نہ بن گئی۔
یہی کام مست نے ماوند کے قریب موجود باغار نامی چٹان سے بھی کروایا۔ قبائلی سردار شادیھان، سمو کا اوورسئیر بنا اس کے نام اور اس کے محبوب کی فرمائش پر سڑکیں راستے بناتا رہا….. جی ہاں اس زمانے میں علاقے کا طاقت ور ترین سربراہ عوام کی بہبود کے لئے مستری بن چکا تھا…… مست و شادیھان جیسے لوگ ہی تو بلوچوں کے ایدھی اور ادیب رضوی کہلانے کے حق دار ہوتے ہیں.۔
مست نے جہاں بھی قیام کیا بیٹھے بیٹھے دس بارہ پتھر جمع کئے لائن میں رکھ کر چاردیواری جیسی حد بندی کی علامت بنا ڈالی اور اسے مسجد کہہ ڈالا. مری، کیتھر، انڑ، بزدار، بگٹی، قیصر، انڑیں اور مزاری کے علاقے میں بے شمآر، مستہ مسیت موجود ہیں۔
اس طرح وہ بارانی بلوچستان میں جگہ جگہ بارش کا پانی جمع کرنے اور زخیرہ کرنے کے لئے تالاب کھدواتا رہا ہے اور اس کا نام مستہ اوٹغ رکھتا ہے تاکہ چرند پرند اور انسان پانی کی کمیابی کی وجہ سے نہ مریں.۔
کہیں ریلوے اسٹیشن بنانے کے عوامی مطالبے پر مبینہ طور پر چلتی ریل گاڑی کو پاؤں سے ہش سمو لاغ.. رک جا سمو کا گدھا کہہ کر روک رہا ہے کہیں فقیروں درویشوں پہ ٹرین کا کرایہ معاف کروا رہا ہے۔
مخاطب سمو ہے مقصد انسانوں کی خدمت ہے. یہی ہے توکلی کی بلندی، سربلندی.. ایسا انسان دوست انسان جو عام توکلی سے اونچا ہوتا گیا اور مست کی صورت اختیار کرتا گیا اور اس کی پیش گوئی سچ بنتی گئیں، دم کفنے سے بیمار ٹھیک ہونے لگے اور اس کی درویشی پکی ہوتی گئی سب کو یقین ہوا مست واقعی فقیر ہے درویش ہے بزرگ ہے اس نے فلاسفروں سالا راستہ اپنایا……. وہ شاعری کرنے لگا۔
انہی خوبیوں، اچھائیوں کے مجموعے سے ابھرتا ہے توکلی مست، انہی اوصاف کا مجموعہ تھا ہمارا یہ عاشق. سیدھا سادھا خیر خواہ انسان نیک دل، ہمدرد اور دل خواہی سے بھر پور.۔
ذرا تصور کر لیں قبائلی معاشرہ ہے اور ایک شخص اعلانیہ طور پر، شاعری کے ذریعے محفلوں، اجتماعوں میں ایک شادی شدہ اور آل اولاد رکھنے والی محترم، مکرم خاتون سے محبت کا کھلے عام اعلان کرتا پھرتا ہے.۔
اسے نا اپنی عزت و وقار کا خیال ہے، نا سیاہ کاری میں قتل ہونے کا ڈر….۔
زمان و مکان کی اتنی بڑی بغاوت تو ایک جینئس ہی کر سکے گا. مروج سے بغاوت، معروض سے بغاوت، معروض کے مالکوں وارثوں سے بغاوت. پورے ویلیو سسٹم سے بغاوت….۔
ارے سائیں مست باغی تھا، انقلابی تھا……۔
2 Comments