ذوالفقار علی بخاری کی سرگزشت کا دیباچہ آغا عبد الحمید نے لکھا اور اس میں آلڈ س ہکسلے کا قول درج کیا ہے ’’ سچ جھوٹ کے پرکھنے کا معیار لکھنے والے کی اہلیت اور قوت اظہار کی قابلیت سے تعلق رکھتا ہے ۔ وہ سچ معلوم ہوتا ہے تو وہ سچ ہے ‘‘ ( صفحہ ۱۴ ) ۔ ہمارے ہاں جو خود نوشت سوانح عمریاں لکھی گئیں ہیں ان کو پرکھنے کا آغا صاحب نے خوب معیار مہیا کیا ہے ۔ اختر الایمان نے اپنی خود نوشت میں لکھا ہے کہ میں اپنی جوانی کے واقعات بیان نہیں کروں گا کیونکہ وہ سچ بھی ہوں گے تولوگوں کو جھوٹ معلوم ہوں گے اور شہاب صاحب نے اپنے افسانوں کو بھی اس چابکدستی سے پیراہنِ بیان سے آراستہ کیا ہے کہ لوگ انہیں سچ جاننے لگے ۔ اور جوش صاحب نے اپنی زبان کے زور پر پوری تاریخ مرتب کر ڈالی۔ عالم تمام حلقہ ء دامِ خیال ہے ۔
’’ سرگزشت ‘‘ والے ذوالفقار علی بخاری کے والد قبلہ سید محمد اسد بخاری باقاعدہ صاحبِ سلسلہ بزرگ تھے ۔ بخاری صاحب لکھتے ہیں : ’’ ہم دونوں بھائیوں نے اپنے اندر بیعت لینے کی صلاحیت نہ پائی تو یہ سلسلہ ترک کر دیا ۔ عبد المجید سالک صاحب نے اپنی سرگزشت میں ذکر کیا ہے کہ ’’ وانا (آزاد علاقہ ) میں چیف کمشنر کے ساتھ ایک صاحب سید محمد رفعت شاہ بخاری بھی آئے ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ ہمارے احمد شاہ بخاری پطرس کے بڑے بھائی تھے آخر عمر میں چند سال عوارضِ دماغی میں مبتلا رہے) اس خاندان کا سب سے پہلا فرد جو مجھ سے متعارف ہؤا وہ رفعت صاحب تھے ‘‘ ( سرگزشت صفحہ۳۱) ۔
پطرس اور ذوالفقار علی بخاری دونوں آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ رہے پہلے پطرس بخاری ریڈیو میں گئے پھر ذوالفقار صاحب کا چناؤ ہؤامگر انہوں نے وضاحت کر دی ہے کہ ’’ بھائی صاحب چناؤ کرنے والے بورڈ میں حکومت پنجاب کے نمائندہ کے طور پر شریک ہونے دہلی گئے تھے جب معلوم ہوا چھوٹا بھائی انٹرویو دے رہا ہے تو بورڈ میں شرکت سے انکار کر دیا ‘‘ ( صفحہ۲۹)۔
چھوٹے بخاری ڈائریکٹر آف پروگرامز منتخب ہوئے ۔’’ بڑے بخاری صاحب کو فیلڈن نے ڈپٹی کنٹرولر مقرر کیا تھا اس پربہت ہنگامہ ہؤا۔ وقتی طور پر انہیں دہلی سٹیشن کا ڈائیریکٹربنادیاگیا رفتہ رفتہ وہ ڈپٹی کنٹرولر پھر کنٹرولر بنے ( صفحہ۴۱) دونوں بھائیوں کا ایک ہی محکمہ میں ہونا ہمارے ملک میں بڑے اچنبھے کی بات تھی ۔ دیوان سنگھ مفتون نے ’’ آل انڈیا ریڈیو پر بی بی سی یعنی بخاری برادران کارپوریشن کی پھبتی کہی ‘‘ ( صفحہ۴۲ ) ۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ دونوں بھائی بہت ذہین فطین اور اپنے کام کے ماہر تھے مگر خلقِ خدا کی زبان کس نے پکڑی ہے ؟
بخاری برادران کی یہ وضع بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ’’ بڑے بھائی چھوٹے بھائی پر ہاتھ بھی چھوڑ بیٹھتے تھے ‘‘ ( صفحہ۵۰ ) چھوٹے بخاری صاحب بڑے بھائی کے لئے ہمیشہ بھائی صاحب کا لقب استعمال کرتے تھے اور اس وضع میں آخر تک کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔ مگر سالک صاحب نے یارانِ کہن میں ایک دلچسپ بات لکھی ہے کہ پطرس کے ہاں بیٹھک تھی ۔ چھوٹا بھائی مہمانوں کی خاطر داری اور تواضع میں مصروف تھا اور بڑے بھائی اس پر تحدی کے ساتھ حکم چلا رہے تھے یہ کرو وہ نہ کرو۔ یہ لاؤ وہ نہ لاؤ ۔ چھوٹے بخاری نے زچ ہو کر سالک صاحب سے کہا ’’ فارسی والوں نے کیا خوب بات کہہ رکھی ہے سگ باش برادرِ خورد مباش ‘‘۔ پطرس نے بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا ’’ سالک صاحب اب یوں کہا جاتا ہے سگ باش برادرِ سگ مباش ۔ ‘‘
ذوالفقار بخاری صاحب نے سرگزشت کے شروع ہی میں کہہ دیا ہے کہ میں ’’ طرفہ بزدل قسم کا انسان ہوں خدا سے ڈروں نہ ڈروں خدا کے بندوں سے ضرور ڈرتا ہوں ‘‘ ( صفحہ۴۸ ) اس لئے چھوٹے بخاری صاحب نے کئی جگہ ’’ بندہ خوفی ‘‘ کا مظاہرہ کیا ہے اور خوفِ فسادِ خلق سے کئی مقامات پر جہاں انہیں بولنا چاہئے تھا وہاں چپ رہنے کو ترجیح دی ہے ۔ اگرچہ وزیر اطلاعات کے سامنے کہ وہ صاحبِ ذوق بزرگ تھے بعض اوقات شوخی بھی کر جاتے تھے ۔ ایک مولانا نے وزیر صاحب سے شکایت کی کہ انہیں ریڈیو والے اسی موٹر میں بٹھا دیتے ہیں جس میں گانے بجانے والوں کو بٹھایا جاتا ہے اس لئے ان کی توہین ہوتی ہے ۔
ہؤا صرف یہ تھا کہ ایک بار ریڈیو کی گاڑی مولانا کو چھوڑنے جا رہی تھی اسی وقت استاد بندو خان بھی فارغ ہو کر واپس جا رہے تھے ۔ بخاری صاحب نے انہیں بھی اسی موٹر میں بٹھا دیا تھا۔ بس مولانا کے تلوے سے جو لگی تالو سے نکل گئی ۔ وزیر سے جا شکایت کی ۔ وزیر نے بخاری صاحب سے پوچھا ۔ بخاری صاحب نے کہا سر میں معافی مانگ لوں گا ۔ وزیر نے مولانا کی تشفی کروادی کہ ریڈیو والے معافی مانگ لیں گے ۔ جب بہت دنوں تک معافی کی کوئی صورت مولانا نے نہ دیکھی تو دوبارہ وہی فریاد کی ۔ وزیر نے بخاری صاحب سے کہا’’ آپ نے تو معافی مانگنے کا وعدہ کیا تھا اس کا کیا ہؤا ؟‘‘ بخاری صاحب نے مسمسے منہ سے کہا’’ سر میں اس قصور پر استاد بندو خان سے معافی مانگ چکا ہوں ‘‘۔ وزیر صاحب کی شکل دیکھنے والی تھی مگر تھے صاحبِ ذوق۔ تحمل سے بات کو پی گئے ۔ یہ وزیر خواجہ شہاب الدین تھے ۔
ریڈیو کے ڈائیریکٹر جنرل فیلڈن سے تو ان کی خوب گھٹتی تھی ۔ اس کا آغاز ان کے انٹرویو کے دن سے ہی ہو گیا تھا ۔ یہ شملہ سے دہلی پہنچے اور سیدھے ریڈیو سٹیشن گئے ۔ شملہ میں انگریزی گرم سوٹ ڈانٹ رکھا تھا اسی میں دہلی آگئے یہاں دہلی میں آگ برس رہی تھی ‘ فیلڈن صاحب ڈائریکٹر جنرل ایک بنیان پہنے ہوائی چپلی ڈانٹے کھڑے تھے ۔ بخاری صاحب کے ہاتھ میں کسی راجہ مہاراجہ کے دئے ہوئے دو پالتو کتوں کی زنجیر تھی ۔ اس نے جو کتوں والے صاحب کو سوٹ بوٹ میں ملبوس دیکھا تو اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی ۔ پہلے تو اس نے سوٹ بوٹ پر خوب ملاحیاں انہیں سنائیں ۔ پھر کہنے لگا اور مستزاد یہ کہ تم اپنے ساتھ یہ کتے کیوں لئے پھرتے ہو ؟۔
بخاری صاحب نے تحمل سے جواب دیا ’’ محض اس لئے کہ یہ میرے سوٹ بوٹ پر اعتراض نہیں کرتے ‘‘ ۔ بس فیلڈن ان کا گرویدہ ہو گیا ۔ اس نے بھی وفا کی بخاری صاحب نے اس سے بڑھ کر وفا کی اور جب تک دونوں اس محکمہ میں اکٹھے رہے دونوں یک جان دو قالب بن کر رہے ۔ فیلڈن وائسرائے لارڈ لنلتھگو کے عزیزوں میں سے تھا ۔ اور انگلستان کی نوبیلیٹی میں سے ہونے کی وجہ سے بڑا بارسوخ تھا ۔
ذوالفقار بخاری بمبئی ریڈیو کے سٹیشن ڈائیریکٹر تھے ۔ ایک مرتبہ ان کے گھر دو مہمان تھے ایک استاد بندو خان اور دوسرے مرزا یگانہ ۔ ملاقات ہوئی تو استاد بندو خان نے سے پوچھا ’’ یہ سارا سارا دن آپ کمرے میں بیٹھ کر کیا کیا کرتے ہیں؟ ‘‘ ۔ مرزا نے جواب دیا شعر کہتا ہوں ۔ بندو خان نے پوچھا دن میں کتنے شعر کہہ لیتے ہو ؟ فرمایا’’ کبھی کبھی ایک شعر کہنے میں کئی ہفتے گذر جاتے ہیں ۔ ‘‘ بندو خان بولے ’’ ریاض کی کمی معلوم ہوتی ہے ‘‘ ۔ ( صفحہ۲۳۸) ۔
یہ سرگزشت اپنے مواد کے اعتبار سے بہت دلچسپ ہے بخاری صاحب کا انداز بیان ہو اور ریڈیو کی باتیں ہوں تو وہ کہیں اور سنا کرے کوئی کا مضمون ہوتا ہے۔ ایک آدھ جگہ بخاری صاحب کی یاد داشت نے ان کا ساتھ نہیں دیا ۔ ایڈورڈ ہشتم کی تخت سے دست برداری کی روداد اور آخری براڈکاسٹ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’ سر جان ریتھ کی آواز آئی ۔ یہ ونڈسر کاسل ہے ہزرائیل ہائی نس ڈیوک آف ونڈسر ‘‘ ۔ چلئے بادشاہ کا نام بدل کر ڈیوک آف ونڈسر ہو گیا ‘‘ ( صفحہ۸۶ ) ۔ مگر حقیقت یہ ہے انہیں تسامح ہؤا ۔ سر جان نے ہز رائیل ہائی نس ڈیوک آف ونڈسر نہیں کہا تھا ’’ ہزرائیل ہائی نس پرنس ایڈورڈ ‘‘ کہا تھا ڈیوک آف ونڈسر تو وہ دوسرے دن بنے ( کنگز سٹوری پہلا ایڈیشن صفحہ ۴۱۱) ۔’’ کنگز سٹوری‘‘ ڈیوک آف ونڈسر کی خود نوشت سوانح عمری ہے ۔
ذوالفقار علی بخاری کی سرگزشت اپنی سادگی و پرکاری کی وجہ سے اردو کی چند یادگار خود نوشتوں میں شمار کی جائے گی ۔
♥
One Comment