ایمل خٹک
پاک وہند کی تقسیم سے پہلے انگریز سامراج کے دور میں پشتونوں میں آزادی کا تصور موجود تھا۔ اور یہ تصور بعد میں بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا۔ پاکستان بننے کے بعد پشتونستان تحریک ایک عملی تحریک سے زیادہ ایک خواب کی شکل میں موجود رہا۔
پاکستانی ریاست نے اپنی تنگ نظر سوچ اور ناعاقبت اندیش پالیسیوں کی وجہ سے پشتون قوم پرستوں کی تقسیم پاک و ہند سے پہلے متحدہ ہندوستان والے تصور کو جو بعض دیگر سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا تصور بھی تھا ان کو دبانے کیلئے غلط طریقے سے استعمال کیا ۔ بنوں قرارداد کا بڑا چرچا ہے ۔ مگر خان عبدالغفار خان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں خطاب اور پہلے گورنر جنرل محمد علی جناح سے ملاقات میں انہیں تعاون کی پیش کش پشتون قوم پرستوں کی نئے حالات میں بدلتی ہوئی سوچ اور سیاسی بصیرت کی غماز تھی۔ یہ بات کہ باچا خان نے اس وقت آزادی کا اعلان کیوں نہیں کیا اور پاکستان کیوں تسلیم کیا تاریخی سیاق و سباق سے ہٹ کر وا ہیات قسم کی دلیل ہے۔ وہ اس وقت کے حالات کے مطابق ایک درست سیاسی فیصلہ تھا۔ چلو کچھ دیر کیلئے مان لیتے ہیں کہ ان کا فیصلہ غلط تھا تو آیا یہ ایک شعوری غلطی تھی یا لاشعوری۔
پاکستان بننے کے بعد کچھ مقامی مسلم لیگیوں نے سیاسی رقابتوں اور ہوس اقتدار میں خدائی خدمتگار تحریک کو دیوار سے لگانے اور انہیں دبانے کی کوشش کی۔ پشتون قوم پرست جمہوریت کی بحالی اور استحکام کیلئے تمام چھوٹے بڑے سیاسی اتحادوں کا حصہ رہےہیں۔ اور اس سلسلے میں بیش بہا قربانیاں دی ہیں۔ اس وجہ سے ریاست کی خصوصی توجہ کا مرکز بھی رہے ہیں۔ اور ہر قسم کے جبر و تشدد اور سازشوں کا سامنا کیا ہے۔
پشتونوں کی روایتی صف بندی یا تربورولی جو پشتو نولی کا ایک اھم جُز ہے قومی سیاست میں بھی حاوی رہا۔ تربورولی کی روئے کا اظہار قوم پرستوں نے دو صورتوں میں کیا ایک غیر قوم پرست سیاسی مخالفین کے ساتھ اور دوسرا اپنے پشتون قوم پرست مخالفین کے ساتھ۔ روایتی سیاسی صف بندی کمزور ہونے کے بعد پشتونوں کی آپس میں تربورولی میں اضافہ ہوا ہے۔ چاہے فاٹا میں اصلاحات کا مسئلہ ہو یا نئے صوبے کے قیام کا مطالبہ پشتونوں کے حقوق کی علمبردار دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈے کا میدان گرم رکھا ۔
شائستگی اور باہمی احترام جو پشتونوں کا خاصہ رہا ہے مگر باشعور سیاسی کارکنوں نے ایک دوسرے کے راہنماوں کی کردار کشی اور گالی گلوچ میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ حتی کہ پشتون روایات اور اقدار کی علمبرداری کے دعووں کے باوجود ایک دوسرے کے مشران اور وفات پائے گئے شخصیات تک کو معاف نہیں کیا۔ سیاسی موقف یا پالیسی کی مخالفت کو ذاتی مخالفت سمجھا جاتا ہے ۔ اور مخالفت کا طریقہ بھی سیاسی سے زیادہ ذاتیات کا ہے۔ تربور ولی غالب آنے سے قوم پرستوں میں سیاسی عدم رواداری بڑھ رہی ہے اور سیاسی شعور اور پختگی جو کسی وقت ان کا شیوہ سمجھا جاتا تھا وہ کم ہوتا جا رہا ہے۔
قومی حقوق کی تحریک میں پشتونوں میں آزادی کی خواہش اور نعرے مختلف طبقات میں مختلف اوقات میں مختلف شدت اور فریکوئنسی کے ساتھ کبھی مدھم اور کبھی شدید حالات میں موجود رہی ہے۔ اس سوچ کو پروان چڑھانے میں پشتون دانشوروں کا اہم رول رہا ہے۔ اس سوچ کو فروغ دینے میں سیاستدانوں کی سوچ میں کافی اتار چڑھاؤ جبکہ شاعروں اور ادیبوں میں کسی حد تک مستقل مزاجی رہی ہے ۔ سیاسی نعرے بدلتے رہے مگر ادبی استعارے اور تشبیہات کسی حد تک ایک جیسے رہے البتہ زمان اور مکان کے لحاظ سے اس میں تھوڑی بہت تبدیلی ہوتی رہی۔
داخلی اور خارجی دونوں قسم کی تبدیلیوں سے پشتون معاشرے کی ساخت یعنی فیبرکس میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئی۔ لیکن پشتون عالم اوردانشور ان تبدیلیوں کے اشکال یا اثرات میں پھنسا رہا جبکہ وجوھات اور بذات خود تبدیلی کا عمل یا تو اس کی نظر سے اوجھل رہا اور نہ تو اس کا درست ادراک کرسکا اور نہ بیان اور نہ اس کی کوئی علمی نتیجہ گیری یا نتائج اخذ کر سکا۔ اور وجوھات کے علاوہ پشتونوں میں رومانٹسزم کے جراثیم بھی زیادہ ہیں جو تقدس کی وجہ سے پشتون کلچر یا سماج کو عملا ایک جامد چیز سمجھتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ بہت سی تبدیلیوں کو دیکھنے سے قاصر ہے۔ اگرچہ یہ تبدیلیاں بار بار ھمیں اپنی وجود کا احساس کراتی رہتی ہے ۔
ان تبدیلیوں یا تبدیلی کے عمل کے درست ادراک نہ ہونے کااثر سیاسی میدان میں زیادہ نظر آتا ہے ۔ پشتون معاشرے کا روایتی ڈھانچہ جو فرسودہ ہو چکا تھا اور دیمک زدہ تھا کی ٹوٹ پھوٹ کے عمل کو طالبانائیزئشن اور فوجی آپریشنوں نے تیز کیا۔ جاگیردار طبقہ نسبتاً کمزور اور مڈل کلاس میں وسعت آئی ۔ مذہبی حلقوں کا سماجی اور سیاسی اثرورسوخ بھی بڑا۔ اس طرح نو دولتیوں کا ایک طبقہ جو ریٹائرڈ سول اور فوجی ملازمین، ٹھیکیداروں ، پراپرٹی ڈیلروں ، کمیشن ایجنٹوں وغیرہ پر مشتمل ہے اور جن کے پاس جائزاور ناجائز طریقوں سے کمائی گئی دولت کے انبار ہیں ۔ اور معاشی حیثیت مضبوط ہونے کے بعد اب سماجی اور سیاسی اثرورسوخ کیلئے کوشاں ہیں۔
معاشرے میں نئی سماجی قوتیں جو اندرون اور بیرون ملک معاشی مہاجرت اور تعلیم اور روزگار کے نئے مواقعوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ابھرے تھے کی سماجی اور سیاسی ڈھانچے میں ایڈجسٹ منٹ کا مسئلہ ا ہم تھا۔ روایتی ڈھانچہ میں اس کو اکاموڈیٹ کرنا مشکل تھا۔ کیونکہ سیاسی اور سماجی ڈھانچوں پر پہلے سے روایتی قوتیں حاوی ہیں ۔ نئی سماجی قوتوں نے یا تو مذھبی جماعتوں اور یا نئی جماعتوں کی طرف رخ کیا۔ گزشتہ تین دھائیوں کی مخصوص صورتحال نے بہت سی وجوھات کی بناء پر نو دولتیوں کے ایک اچھے خاصے حصے کو مذ ہبی جماعتوں کی طرف راغب کیا۔
بہت حوالوں سے پشتون سیاسی تحریکیں جمود کا شکار نظر آرہی ہے۔ یہ جمود ان کی سیاسی سوچ، دعوتی کام ، تنظیم سازی اور موبلائزیشن کے طریقوں میں واضح نظر آتا ہے۔ سیاسی تحریکیں تین قسم کے بحرانوں یعنی نظریاتی، تنظیمی اور لیڈرشپ کا شکار ہیں۔
یہ سیاسی تحریکیں نہ صرف نئے سیاسی اور سماجی تبدیلیوں اور تبدیلیوں کی حرکیات کو سمجھنے سے قاصر بلکہ اس کی روشنی میں اپنے منشور یا پروگرام کو اپ ڈیٹ کرنے سے قاصر ہیں ۔ اس وجہ سے ان کامنشور یا پروگرام اپنے روایتی پاور بیس جو اب کمزور ہو رہا ہے کے علاوہ غیر روایتی اور نئے حلقوں کو اپیل کرنے سے قاصر ہے۔ ساٹھ یا ستر یا اسی کی دھائی کے استعارے ، مثالیں اور دلائل میں نئے دور کے نوجوانوں کیلئے کوئی چاشنی یعنی اپیل نہیں رہی۔ سیاسی پیر مریدی یا قبائلی وابستگیاں زیادہ دیر چلنے والی نہیں۔
بذات خود ان سیاسی تحریکوں کی پاور ڈائنامکس ، ساخت بلکہ کسی حد تک نظریاتی سمت میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ ان تحریکوں میں اب دیہی مڈل کلاس کی بجائے شہری مڈل کلاس کا رول بڑا ہے۔ جاگیرداروں کی جگہ اب نئے کاروباری ( پراپرٹی ڈیلر ، ٹھیکیدار وغیرہ) اور صنعتکار طبقہ حاوی ہو رہا ہے۔ مگر ان تحریکوں کی نئے ابھرتے ہوئے طبقوں کو اپنے اندر سمونے کی صلاحیت محدود ہے۔ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی ابھرنے کی ایک وجہ اس کی نئے ابھرتے ہوئے سماجی طبقوں کو اکاموڈیٹ کرنا بھی تھا۔
موروثی سیاستدان اپنے پیشروں کی طرح سادگی اور متانت کی بجائے اپنی شان و شوکت اور سماجی اور سیاسی اثرورسوخ کا مظاھرہ کرنے میں ھچکچاھٹ محسوس نہیں کرتے۔ کم و بیش تمام تحریکوں کی سیاسی اور ،نظریاتی بنیاد کمزورہو رہی ہے اور اس میں مادہ پرستی، مفاد پرستی ، اقربا پروری اور بدعنوانی کے جراثیم بڑھ رہے ہیں ۔ پشتون تعلیم یافتہ اور نسبتا خوشحال اپر مڈل کلاس سیاست سے بیزار ہوتا جار رہا ہے۔
اس طرح ان تحریکوں میں کرپشن ، خوشامدی کلچر اور اقربا پروری کے فروغ سے پشتون دانشور طبقہ بھی ان سے آہستہ آہستہ متنفر ہو رہا ہے۔ سیاست میں پیسے کا رول بڑھنے سے نظریاتی کارکن نظر انداز ہو رہے ہیں ۔ یہ تحریکیں سخت اندرونی بحرانات کا شکار ہیں ۔ ان جماعتوں کے کارکنوں اور ھمدردوں کی صفوں میں ناراضگی اور مایوسی بڑھ رہی ہے۔ جس کی وجہ سے اندرون پارٹی گھٹن اور بے چینی کی فضا موجود ہے ۔
صاحب الرائے اور سنجیدہ حلقے اندرون پارٹی بدلتے ہوئے سیاسی کلچر اور منفی رحجانات سے پریشان ہیں۔ ان بحرانوں کا اظہار سنجیدہ اور نظریاتی کیڈر کہیں دبے الفاظ اور کہیں نجی محفلوں میں کرتے رہتے ہیں۔ ان بحرانوں کی جھلک ہمیں ناراض کارکنوں کے گلے شکووں یا احتجاجا پارٹی چھوڑتے وقت ان کے بیانات سے بھی ملتا ہے۔
ان تحریکوں میں پالیسی سازی کے حوالے سے تھنک ٹینک کا رواج شروع ہوگیا ہے۔ مگر تھنک ٹینک کی کارکردگی معیاری اور تسلی بخش نہیں ۔ راہنماوں کی کمی نہیں مگر باصلاحیت اور سلجھی ہو ئی قیادت کا فقدان ہے۔ سیاسی خاندانوں کی نئی پود اور دیگر لیڈرشپ جن سے عام حالات میں پیروکار راہنمائی کیلئے رجوع کرتے ہیں میں مطالعے اور گردو پیش سے باخبر رہنے کا شوق موجود نہیں۔
اس طرح تنظیم ، تبلیغ اور معلومات کے تبادلے اور موبلائزیشن کے روایتی طریقے رائج ہے۔ تنظیم سازی اور سیاسی موبلائزئشن کے سستے آسان اور تیز رفتار طریقوں سے بھر پور استفادہ نہیں کیا جا رہا ہے۔ ان تحریکوں کی لیڈرشپ کو پیسہ بنانے کا گُر تو آگیا ہے مگر پارٹی کو مضبوط بنانے اور جدید بنیادوں پر اسے منظم کرنے کیلئے پیسہ لگانے کا طریقہ نہیں آتا۔
♥