ایمل خٹک
بہت سماجی ، سیاسی اور معاشی وجوہات کی بناء پر قومی آزادی کی سوچ کمزور ہوتی گئی ۔ اور قومی آزادی کی سوچ کی جگہ صوبائی خودمختاری کی سوچ غالب آتی گئی۔ سوچ میں یہ تبدیلی کسی سازش یا قیادت کی سوچ میں کسی فتور کی وجہ سے نہیں بلکہ ٹھوس معروضی وجوہات کی وجہ سے آئی۔ سیاست کوئی جامد عمل نہیں یا خلاء میں نہیں کی جاتی بلکہ سیاست ایک تغیر پذیر سماج میں کی جاتی ہے اور یہ ایک حرکی ( ڈائنا مک ) عمل ہے۔ سیاسی مظاہر ٹھوس سوشو۔اکنامک تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ بدلتے ہیں۔ سوچ میں اس تبدیلی کے پیچھے بھی ٹھوس سماجی سیاسی اور ثقافتی تبدیلیاں ہیں۔
آزادی کے نعرے کو کئی داخلی اور خارجی قوتوں نے وقتا فوقتا اپنے اپنے سیاسی اور سٹرٹیجک مفادات کیلئے استعمال کیا ہے۔ مگر بہت سے پشتون سیاسی کارکنوں اور دانشوروں کیلئے یہ ایک آئیڈیل رہا۔ سال 1973 کے بعد پشتون اور بلوچ نوجوانوں کی مسلح جہدوجہد کے بعد آہستہ آہستہ یہ سوچ کمزور پڑگئی ۔
آزادی کے تصور کو سب سے بڑا دھچکا اس وقت پہنچا جب ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں پشتونوں اور بلوچوں کی طرف سے شروع کی گئی مہم جوئی ناکام ہوگئی ۔ دلچسپ بات یہ کہ گوریلہ جنگ تو شروع کی گئی مگر اس وقت آزادی کا کوئی ٹھوس نعرہ یا پروگرام نہیں دیا گیا۔ اور آخر تک یہ کنفیوژن رہی کہ آیا یہ گوریلا جنگ آزادی کیلئے تھی یا حکومت پر سیاسی دباؤ بڑھانے اور بہتر سوداکاری ( بارگینگ ) کیلئے۔
آزادی کی سوچ کو دوسرا دھچکا افغانستان میں مجاہدین کی حکومت کے قیام سےپہنچا جب افغانستان میں پاکستان کے اندر پشتونوں اور حتی کہ بلوچوں کی پشت پنائی کرنے والی قوتیں کمزور ہوگئیں ۔ اس طرح اس شفٹ کے پیچھے اور وجوہات کے علاوہ پشتون سیاسی دانشوروں کے اس احساس کا بھی عمل دخل تھا کہ بیرونی قوتوں پر ان کا تکیہ کرنا ایک غلطی تھی اور جو کچھ بھی کرناہے وہ انہوں نے اپنے بل بوتے پر کرناہے۔
افغانستان میں کمیونسٹ حکومت کے خاتمے کے بعد کی سیاسی تبدیلیوں نے بھی پشتون سیاسی دانشوروں کی سوچ میں بیرونی کی بجائے اندرونی عوامل پر توجہ مرکوز کرنے کی سوچ میں تبدیلی کے عمل کو تیز کیا۔ اس طرح علیحدہ ریاست کا خواب خودمختار صوبوں یا صوبائی خودمختاری کی تحریک میں بدل گئی۔
تیسری جھٹکا پشتون بیلٹ کی پاکستان کے دیگر علاقوں سےسماجی و معاشی رشتے مضبوط ہونے سے ملا۔ شروع میں یعنی افغان جہاد کے دوران جہاد کیلئے بے پناہ بیرونی سرمایہ آنے سے مقامی کاروبار اور صنعت کو ترقی ملی۔ روزگار کے کافی موا قع پیدا ہوئے اور مقامی کاروبار اور صنعت کا ملک کے دیگر خاص کر بڑے صنعت کاروں اور کاروبار ی افراد سے روابط بڑھے۔
پشتون سرمایہ داروں کو مختلف وفاقی صنعتی اور کاروباری انجمنوں میں رکنیت بڑھی اور نتیجتاً نمائندگی میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ بعد میں طالبان اور خاص کر پشتون علاقوں میں طالبانائزیشن سے بدامنی اور شورش پھیلنے کی وجہ سے شورش زدہ پشتون علاقوں میں ذرائع آمدن اور کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوئیں۔ اور بدامنی کی وجہ سے ان علاقوں سے ملک کے دیگر حصوں میں معاشی اور سیاسی مہاجرت میں بھی اضافہ ہوا۔
اس میں شک نہیں کہ نقل مکانی سے کئی افراد کی زندگی میں بہتری بھی آئی ہے۔ سندھ کے علاوہ پنجاب کے چھوٹے بڑے شہروں خاص کر جی ٹی روڈ یا بڑی بڑی شاھراوں پر پشتون آبادی میں اضافہ ہوا ہے اور شہروں کے داخلی اور خارجی راستوں پر جگہ جگہ خان مارکیٹوں ، باڑہ مارکیٹوں ، شاپنگ پلا زوں اور ہو ٹلوں وغیرہ کے جال بچھ گئے ہیں۔
پشتونوں کی جائدادیں اور کاروبار اب محسوس ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ان علاقوں میں نقل مکانی کرنے والے اکثر پشتونوں کو یا تو ان کو اپنی قوت کا اندازہ نہیں یا وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے مگر ان کی سماجی اور سیاسی حیثیت میں اضافہ ہوا ہے۔
بلوچ یا سندھی دوستوں کا یہ کہنا بیجا بھی نہیں کہ پشتونوں کا ایک طبقہ حکمران طبقات یا سیاسی اشرافیہ کا حصہ بن گئے ہیں۔ جونئیر پارٹنر سہی مگر پشتون اشرافیہ کے ایک حصہ کا شمار حکمران طبقات میں ہونے لگا ہے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ عام پشتون گزشتہ بیس پچیس سالوں میں معاشی طور پر بڑا بدحال ہوا ہے ۔ کیونکہ پشتون اشرافیہ نے مقامی انڈسٹری اور کاروبار میں بہت کم سرمایہ کاری کی ۔ اور پشتون بیلٹ میں مسلسل بدامنی نے بچے کھچی صنعتوں کا بٹھہ بٹھا دیا ۔ روزگار کے نئے مواقع پیدا نہ ہوسکے اور پہلے سے موجود صنعتیں بند ہونے سے پشتون بیلٹ میں بیروزگاری میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔
♥