ایمل خٹک
پاکستان میں پشتونوں کو دیوار سے لگانے کی تمام لوازمات موجود ہیں ۔ بجائے اس کے کہ سنجیدگی سے اصلاح احوال کی کوششیں کی جاتی اور پشتونوں کے جائز مطالبات پر سنجیدگی سے غور کیا جاتا اور حل کرنے کی کوشش کی جاتی۔ انتہائی منظم انداز میں اور دانستہ طور پر ” گل خان کلچر” کو فروغ دیا جارہا ہے اور روزانہ جعلی ناموں اور سوشل میڈیا اکاؤنٹوں کے ذریعے پشتون قیادت کی کردار کشی ، پشتون تاریخ کو مسخ اور سرحد کے آرپار موجود پشتونوں کے درمیان نفرت اور مخاصمت کو ہوا دی جا رہی ہے ۔
گل خان کی اصطلاح کے استعمال کے کچھ دانشور مخالف ہیں ۔ اور ان کی بات کسی حد تک درست بھی ہے کہ اس سے بہت سے لوگوں کو بڑے دائرے سے خارج کیا جا رہا ہے گل خانی سوچ اس وجہ سے موجود ہے کہ سیاسی تربیت کا فقدان ہے اور قوم پرست یا تو اپنا پیغام بہت سے حلقوں اور خاص کر نوجوانوں کو پہنچانے میں ناکام ہیں اور یا پیغام میں کہیں نہ کہیں سقم موجود ہے۔ دوسرا مٹی یا وطن سے محبت اور آزادی کی سوچ میں فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہر آزادی کی سوچ رکھنے والا محب وطن ہو سکتا ہے مگر ہر محب وطن آزادی چاہنے والا نہیں۔
پشتون بیلٹ یعنی پاکستان کے پشتون علاقے گزشتہ تین دہائیوں سے زائد سرد جنگ اور نئی گریٹ گیم کے اہم محاذ رہے ہیں اور عالمی قوتوں کی سترٹیجک شطرنج اب بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے.افغان جہاد اور بعد میں دھشت گردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ بیرونی امداد آئی مگر تباہی اور بربادی تو صوبہ پختونخوا اور فاٹا کے حصے میں آئی اور امداد کے فوائد اور اثرات اوروں کے حصے میں آئے۔
میدان جنگ تو پشتون بیلٹ بنا یہاں کے باسی جنگ کا ایندھن بنے مگر ترقی کی رفتار کسی اور جگہ تیز رہی رسمی معیشت تو تباہ ہوئی مگر جنگی معیشت ( وار اکانومی ) اور بلیک اکانومی بڑھی۔ ذخیرہ اندوزی ، اسمگلنگ ، بلیک مارکیٹنگ ، اور منظم جرائم جیسے بھتہ خوری اور اغوا براے تاوان وغیرہ سے وابستہ افراد راتوں رات کڑور پتی اور ارب پتی بنے۔ سینکڑوں سول اور ملٹری بیوروکریٹس ، سیاستدانوں ، علماء ، عسکریت پسند کمانڈروں اور قبائیلی سرداروں نے بھی بہتے گنگا میں ہاتھ دہوے اور ارب پتی بنے۔ اگر ایک طرف لاکہوں لوگوں سے سر چھپانے کیلئے چھت چھن گئی تو دوسری طرف ڈیفنس اور بحریہ ٹاؤن جیسے پوش ہاوسنگ منصوبوں کے تعداد تیزی سے بڑھی۔
اس دوران وسیع تباہی اور بربادی کے ساتھ پشتون اجتماعی وجود اور شعور کو شدید زخمی کیا گیا اور ان کے اجتماعی شعور کو جھنجھوڑا گیا۔ علاقائی اور عالمی قوتوں نے پشتونوں کی قومی وقار اور عزت نفس کو مجروح کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا اور جانی اور مالی نقصانات کے ساتھ ساتھ اس کے قومی غرور اور عزت نفس کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا ۔ قومی مشیران کی ٹارگٹ کلنگ اور چیک پوسٹوں پر ان کے ساتھ ذلت آمیز اور ناروا سلوک کے ذریعے ان کو سر عام ذلیل و خوار کیا گیا ۔
وسیع پیمانے پر بیدخلیوں اور نقل مکانی سے ان کی عزت نفس کے ساتھ ساتھ ان کی گھروں اور ذرائع معاش کو شدید نقصان پہنچایا گیا اور انہیں اپنے آبائی گھروں سے دور محتاجی ، لاچاری اور کمتر زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا ۔ چند سو یا ہزاروں عسکریت پسندوں کو ٹارگٹ اور انٹلی جنس بیس آپریشنوں کے ذریعے نشانہ بنانے کی بجائے وسیع علاقوں میں آپریشن کئے گئے اور شورش زدہ علاقوں کے عوام کے ساتھ اپنوں جیسا نہیں بلکہ دشمنوں جیسا سلوک کیا گیا ۔
شورش زدہ علاقوں میں واپس گئے افراد کی شکایات اور مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ان کی نہ تو باعزت واپسی ہوئی اور نہ ان کی مناسب طریقے سے بحالی کے انتظامات۔ مثال کے طور پر شمالی وزیرستان کے قبائل گوناگوں مشکلات اور مسائل سے دوچار ہیں ۔ جبکہ حکومت ان کے مسائل اور مطالبات حل کرنے کی بجائے الٹا ان کی زمینوں ، معدنی وسائل اور چلغوزے کے منافع پر ناجائز اور بزور قبضے کے ذریعے ان کی مشکلات میں اضافہ کر رہی ہے۔ شمالی وزیرستان آئی ڈی پیز کی واپسی کے بعد اپنے جائز مطالبات کے حق میں اور حقوق کی حصول کیلئے ان کے احتجاجی مظاہروں اور بیانات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جبکہ حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے جس کی وجہ قبائلی عوام میں غم وغصہ بڑھ رہا ہے اور سوشل میڈیا پر ریاست مخالف سرگرمیاں بڑھ گئی ہے۔
سوات اور بعض دیگر شورش زدہ قبائل علاقوں میں امن پسند اور حقوق کیلئے سرگرم عمل افراد کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے ۔ اس طرح پختونخوا کے دیگر علاقوں میں قوم پرست اور جمہوری سیاسی سوچ رکھنے والے راہنماوں اور کارکنوں کی پرسرار ھلاکتوں جس کو عرف عام میں ٹارگٹ کلنگ کہتے ہیں سلسلہ جاری ہے ۔ اوروں کے علاوہ صوابی میں اے این پی کے شعیب خان اور بنوں میں حالیہ دنوں میپ کے خلیل سرباز کی شہادت قابل ذکر ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا قول ہے کہ نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل ہونے والے مقتول کے قاتل حکمران ہوتے ہیں ۔ سوات اور قبائلی علاقوں میں ٹارگٹ کلنگ کے سلسلے میں ایجنسیوں پر کھلے عام شک کیا جاتا ہے۔ اور اس ضمن میں کافی قصے کہانیاں سینہ بہ سینہ چل رہے ہیں۔
دوسرا شورش زدہ علاقوں خاص کر قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کی عملداری ختم ضرور ہوئی ہے مگر طالبا نائزئشن کا عمل کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے ۔ اور عسکریت پسند چاہے گڈ طالبان کی شکل یا کسی اور شکل میں ابھی تک موجود ہیں ۔ اس طرح ریاستی اداروں کا امن پسند اور قومی مشیران کے ساتھ ناروا سلوک ابھی تک برقرار ہے ۔ جس کی حالیہ مثال وانا میں میرزا عالم مارکیٹ کو گرانا ہے ۔
اس عظیم قومی ٹریجڈی کے ذمہ دار بیرونی کے ساتھ ساتھ اندونی عوامل بھی ہیں جو شعوری یا لا شعوری طور پر علاقائی اور عالمی قوتوں کی سازشوں کا حصہ بنے اور اس کو پروان چڑہایا۔ بعض سادہ لوح پشتون یا ان کا لبادہ اوڑھے پشتون نما کرداروں کے زریعے قومی وقار اور عزت نفس کو قسم ہاقسم طریقوں سے مجروح کیا گیا۔
پشتونوں کی ثقافت کو شعوری طور پر آلودہ کیا گیا ۔ جہادی سرگرمیوں کے مرکز ہونے کی حیثیت سے پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں نفرت ، فرقہ واریت اور تشدد کی کلچر کو فروغ دیا گیا اور تشدد کی نئی نئی شکلیں متعارف کرائی گی اس طرح ہر نئے پراجیکٹ کے ساتھ تشدد اور خوف و ہراس پھیلانے کے نئے طریقے آئے۔ افغان جہاد کے دوران پہلے وہابیت اور پھر اس کے بعد اس کے مزید تنگ نظر نظریات مثلا تکفیری سوچ نے پشتون معاشرے میں کافی سرایت کی اور سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کیا۔
تنگ نظر مذ ہبی سوچ کے نتیجے میں فرقہ واریت میں شدت کے ساتھ ساتھ تمام دیگر مسلکوں اور فرقوں کے لوگوں سے نفرت اور امتیازی سلوک میں اضافہ ہوگیا ۔ سکولوں خاص کر بچیوں کو نشانہ بنایا گیا ۔ مزارات کی مخالفت کی وجہ سےپشتون صوفیاء اور شاعروں کے قبروں کو بھی اڑانے کی کوشش کی گی حالانکہ وہاں دیگر مزاروں کی طرح لوگ منتیں مانگنے یا چڑھااوے چڑھانے نہیں جاتے۔
پاکستانی ریاست اور ریاست کی پروردہ میڈیا اور دانشوروں نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اپنی تنگ نظر اور محدود ( ایکس کلوسیو) پالیسیوں کی وجہ سے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر بار بار قوم پرست جماعتوں کی حب الوطنی اور وفاداری کو چیلنج کر رہی ہے جو چھوٹی قومیتوں کو علیحدگی پسند سوچ کو زندہ رکھنے پر مجبور کر رہی ہے ۔ ریاستی دانشوروں نے نہ تو مکمل طور قوم پرست بیانیوں کو سمجھنے کی کوشش کی اور نہ اختلاف نظر کو برداشت کیا ۔ اور مزید یہ کہ ریاستی دانشور قوم پرست بیانیوں کی بڑے بھونڈے اور منفی انداز میں تشریح کرتے رہے۔
قوم پرست سیاست میں نظریاتی طورر چار تبدیلیاں اہم ہیں ۔ جس کی درجہ بندی میں اس طرح کرتا ہو۔ آزادی پسند قوم پرستی ، علیحدگی پسند قوم پرستی ، وفاق پرست قوم پرستی اور نیو علیحدگی پسندی۔ قیام پاکستان تک آزادی پسند قوم پرستی رہی۔ پاکستان بننے کے بعد آزادی پسند خیالات علیحدگی پسندی میں تبدیل ہوگئے۔ اور سترویں کے آخر اور آسی کی دہائی میں قوم پرستی میں ایک نظریاتی بدلاؤ آیا اور وفاق پرستی میں تبدیل ہوگئی ۔
اب گزشتہ چند سالوں میں نیو علیحدگی پسند رحجانات کا ظہور شروع ہوگیا۔ بعض مایوس اور ناراض سیاسی کارکن جو عرصہ دراز تک کسی سیاسی تحریک کا فعال حصہ نہیں رہے اور یا وہ نوجوان جو پشتون بیلٹ میں جاری سماجی و معاشی اور سیاسی تبدیلیوں سے متاثر ہیں علیحدگی پسند رحجانات کی طرف راغب ہیں ۔ نیو علیحدگی پسندوں کی اکثریت مخلص اور جذباتی نوجوانوں پر مشتمل ہے جو قومی حقوق کیلئے ہر قدم اٹھانے کیلئے تیار ہیں۔
بدقسمتی سے ایک محدود تعداد ان مفاد پرست عناصر کی بھی ہے جو علاقے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور تناؤ کی فضا میں پراکسی وارز کا ایندھن بن کر اپنا الو سیدھا کرنا چا ہتے ہیں ۔ نیو علیحدگی پسندوں کے پاس کوئی واضح اور ٹھوس پروگرام نہیں بلکہ چند پر کشش جذباتی نعرے ہیں۔ اور اسٹیٹس کو کو چیلنج کرنے کے بہانے مروجہ سیاسی جماعتوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔ خدشہ یہ ہے کہ نہ تو کوئی متبادل قوت وجود میں آجائیگی اور مروجہ سیاسی جماعتوں کو مزید کمزور کیا جائیگا ۔ جس سے غلامی کی جڑیں مضبوط ہوجائیں گی ۔
نئی علیحدگی پسند سوچ ابھرنے کی وجوہات درج ذیل ہیں ۔ پشتونوں میں مایوسی پھیلنے کی ایک وجہ جینوئن قیادت کا فقدان بھی ہے۔ موجودہ قوم پرست قیادت کا عوام سے تعلق کمزور ہوتا جارہا ہے ۔ بدعنوانی ، اقرباروری اور دیرینہ مخلص کارکنوں کو نظر انداز کرنے اور مفاد پرست اور ذاتی وفاداروں کو ترجیح دینے کی وجہ سے کافی ناراضگی اور غم وغصہ پایا جاتا ہے ۔
موروثی سیاست یا سیاست میں خاندانی مفادات کو فوقیت دینے سے بھی کارکنوں اور حامیوں میں بے دلی اور عدم دلچسپی بڑھی ہے ۔ سیاسی رقابت اور حسد کی وجہ سے دشمن کی بجائے قوم پرست جماعتوں کے راہنما اور کارکن ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیوں اور کردار کشی میں مصروف رہتے ہیں۔ قیادت کی ترجیحات اور عوامی مطالبات اور مسائل میں کوئی جوڑ نہیں یعنی ڈس کنیکٹ موجود ہے ۔ قیادت اور عوام میں دوریاں اور خلیج بڑھ رہی ہے ۔ جس کی وجہ سے عوام میں اور خصوصا دانشور طبقے میں سیاست سے لاتعلقی یا بیگانگی بڑھی۔
اس طرح افغانستان میں جاری مداخلت کی وجہ سے بھی بے چینی اور غم وغصہ کے جذبات موجود ہیں۔ غلط پالیسیوں اور نئے ناقص بارڈر مینجمنٹ کے انتظام سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اب متبادل راستے تلاش کر رہی ہے ۔ اس طرح پہلے طورخم اور اب چمن بارڈر پر کشیدگی اور اب سرحد پر مقامی قبائل کی نقل و عمل پر پابندیوں سے پشتون تاجروں ، ٹرانسپورٹروں اور دیگر متعلقہ کاروباروں سے وابستہ افراد اورسرحدی علاقوں کے عوام کا اقتصادی قتل عام شروع ہے۔ پاک۔افغان سرحدی علاقوں کے لوگ پہلے سے بد امنی کی وجہ سے بدحال اور پریشان تھے اب نئی بارڈر مینجمنٹ پالیسی سے متبادل روزگار کا انتظام کیے بغیر لاکھوں قبائلیوں کو ذرائع آمدن سے محروم کیا جا رہا ہے۔
طاقتور حکمران طبقات کے کنٹرول اور فرسودہ قومی سلامتی کے بیانیوں کی وجہ سے عوامی بیانیوں یعنی عوام کی رائے، مسائل ، مشکلات اور مطالبات کو دبایا جاتا ہے۔ فاٹا کا بہت عرصے تک اور بلوچستان کا ابھی تک میڈیا بلیک آوٹ ہے اور عوامی مسائل اور شکایات کو مین سٹریم میڈیا میں کوریج سے روکا جاتا ہے۔ شورش زدہ علاقوں میں اہم واقعات کی خبریں اور رپورٹنگ کنٹرول کی جاتی ہے اور صرف ریاستی اداروں کے نکتہ نظر کو سامنے لایا جاتا ہے۔ میڈیا کو صرف سرکاری ہینڈآوٹ اور پریس ریلیز شائع کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔
اس صورتحال میں مظلومیت اور محرومی کا احساس بڑھتا ہے۔ پچھلے سال وانا جنوبی وزیرستان کے نواح میں کرکٹ کا میچ جیتنے کی خوشی میں خوشیاں منانے پر جب عسکریت پسندوں نے نوجوانوں کو روکنے کی کوشش کی اور گولیاں چلائی جس ایک نوجوان ہلاک ہوا تو سیکورٹی اداروں نے اس خبر کو قومی سلامتی کے نام پر روکنے کی سرتوڑ کوشش کی۔
نفسیات دان زیادہ تفصیل اور بہتر انداز میں اس بات پر روشنی ڈال سکتے ہیں کہ بے بسی اور لاچاری کی فضا بھی لوگوں میں ریڈیکل سوچ کو جنم دیتے ہیں ۔ اور تبدیلی لانے کی کوشش میں وہ پورے نظام کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
بہت سے لوگ اگرچہ ابھی تک موجودہ آئینی اور جغرافیائی ڈہانچے کے اندر معاملات کو دیکھنے اور حل کرنے کا سوچ رکھتے ہیں مگر نوجوان نسل نے دوسرے زاویوں سے بھی چیزوں کو دیکھنا شروع کیا ہے۔ اگرچہ ابتدا ہی سہی مگر ادھر اُدھر سے مختلف آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہے۔ اگر صورتحال اس طرح جاری رہی تو یہ کمزور آوازیں آگے جاکر مضبوط ہو سکتی ہے۔
پاکستان میں علیحدگی پسندی خاص کر بلوچ سرمچاریوں کی سرگرمیوں کے بعد دیگر قومیتوں کو بھی شہہ مل رہی ہے اور بلوچ سرمچاری بھی پشتنوں اور سندھیوں کو طعنے یا ترغیب دیتے ہیں ۔ گزشتہ تین ساڑھے تین دہائیوں کے حالات اور واقعات نے بھی پشتون تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ایسا سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔
یہ سوال کہ پشتونوں کے مسائل موجودہ جغرافیائی فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے حل ہو سکتے ہیں یا اس سے علیحدگی میں انتہائی سنجیدہ اور پیچیدہ سوال ہے۔ جس کیلئے کافی غور و خوض اور سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ قوموں کی تاریخ میں ایسے سوالوں کے جوابات جوش سے نہیں ہوش سے ڈھونڈے جاتے ہیں ۔ آزادی جذباتی نعروں سے نہیں بلکہ ضروری مشاورت کے زریعے بنائے گئے ایک ٹھووس عملی پروگرام سے حاصل ہوتی ہے۔
جہدوجہد میں نعروں کی اہمیت کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے اور کوئی بھی سیاسی ورکر اس کی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتا ۔ مگر نعرہ برائے نعرہ نہیں ہوتا بلکہ نعرے سیاسی شعور اور عملی جہدوجہد کی آئینہ دار اور ہرمعاشرے کے مخصوص معروضی اور موضوعی صورتحال کی پیداوار ۔
♦
One Comment