ذوالفقار علی زلفی
میں غربت اور مفلسی کے سائے میں پل کر جوان ہوا، زندگی نے اتنے چابک برسائے کہ میرے ارادے چٹان کی طرح مضبوط ہوگئے
یہ ہیں غریبوں کے فنکار اوم پوری کے الفاظ جن کی زندگی جہدِ مسلسل سے عبارت ہے ، جو مشعلِ راہ ہیں ان لوگوں کے لیے جو کچھ نہ ہونے سے بہت کچھ بننے کا سپنا دیکھتے ہیں۔
اٹھارہ اکتوبر 1950 کو جب وہ انبالہ میں پیدا ہوئے تو ان کے چہار جانب غربت ، مفلسی اور فاقوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ والد ایک معمولی ریلوے ملازم تھے بعد میں وہ بھی نہ رہے۔ بے روزگار باپ کا چھوٹا سا بچہ روٹی کو ترستا تھا سو تعلیم کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ خوش قسمتی سے ان کے ایک ماموں نسبتاً خوشحال تھے انہوں نے بچے کو اسکول میں داخل کرادیا۔
مڈل تک تو ماموں ساتھ رہے اس کے بعد وہ بھی معاشی گرداب میں پھنس کر بھانجے کو بھول بھال گئے۔ پڑھنے کا شوق تھا ، ذہین تھے ، سو خود کچھ کرنے کی ٹھانی۔
ایک ہوٹل میں بیرے کی نوکری شروع کردی تاکہ اسکول کی فیس بھرسکیں۔ یہاں سے پڑھائی اور روزگار کا زگ زیگ سلسلہ شروع ہوا۔ بوجھ ڈویا، مزدوری کی ، چیزیں بیچیں، گھروں میں ٹیوشنز دیے الغرض کام کرتے کرتے خود کو کالج تک پہنچایا۔ آگے پڑھنا مشکل تھا اس لیے اسکالر شپ کی درخواست دی۔ ہندوستان کے بیوروکریٹک اور کرپٹ سسٹم میں ان کی درخواست فائلوں میں دب کر رہ گئی۔
اسکالر شپ کے حصول میں ناکامی نے ان کے فکر و شعور پر کافی گہرے اثرات مرتب کیے جنہوں نے ان کے مستقبل کو ایک نئے رخ پر ڈال دیا۔ امکان تھا کہ وہ گرد کا حصہ بن کر ہواؤں میں بکھر جاتے مگر ایسے میں ان کے چند دوست کام آگئے انہوں نے چندہ کرکے ان کو نیشنل اسکول آف ڈرامہ میں داخل کروادیا۔
ان دنوں پاکستان اور بھارت بنگال کی سرزمین پر سینگ لڑائے ہوئے تھے ، کچھ کرگزرنے کی چاہ میں مبتلا اوم کے دل میں فوج کا بھی خیال آیا لیکن یہ خیال بعد میں فن کے بادلوں کی اوٹ ہمیشہ کے لیے چھپ گیا۔ نیشنل اسکول آف ڈرامہ میں ان کا دل لگ گیا شاید اس کی ایک وجہ ان کے کلاس فیلو اور بعد میں جگری دوست بننے والے بذلہ سنج نصیر الدین شاہ بھی ہوں۔
سنہ1973 کے آتے آتے وہ اداکاری کے عشق میں مبتلا ہوچکے تھے۔ انہوں نے اس فن کی گہرائیوں کو ناپنا شروع کردیا ، کردار میں ڈھل جانے کے ہنر کو پانے میں جان کھپادی۔ مختلف اسٹیج ڈراموں میں اداکاری کرتے کرتے انہوں نے دیگر فنکاروں کی فنّی زندگی کا بھی گہرا مطالعہ کیا۔ خوش قسمتی کہیے ان کے قریبی دوست نصیر بھی انہی جیسے نکلے، ساتھی اچھا ہو تو سفر اچھا کٹ جاتا ہے ، اوم پوری پر یہ بات صادق آتی ہے۔
سنہ1975 میں جب انہوں نے ہندی سنیما کی جانب رختِ سفر باندھا تو زادِ راہ کے لیے صرف شوق تھا اور کچھ نہیں۔ ہندی سنیما اپنا سنہری دور گزارچکا تھا۔ سماجی، سیاسی اور نفسیاتی موضوعات پر فلمیں بنانے کا دور تقریباً تقریباً لد چکا تھا۔ یہ وہ سنیما نہ تھا جس پر ستیہ جیت رے ، بمل رائے، وی شانتا رام اور گرودت جیسے نابغہِ روزگار جان چھڑکتے تھے۔ ان حالات میں جب اوم پوری مشاہدوں، مطالعوں اور جذبوں کا صندوقچہ لے کر وہاں پہنچے تو ان سے پوچھا گیا “بھائی ناں ہیرو لگتے ہو ناں ولن دکھتے ہو، کہاں فٹ کریں……؟۔
بھدے نین نقش اور معمولی شکل و صورت کے مالک اوم پوری کہتے ہیں اس سوال سے میں ہرگز پریشان نہ ہوا آخر میرے اور نصیر سے پہلے بھی تو دو بدصورت اداکار وہاں کام کررہے تھے، ان میں سے ایک بلا ضرورت لمبے امیتابھ بچن اور دوسرے ہرلحاظ سے بدصورت شتروگھن سنہا تو ہم کیوں نہیں۔
بہرکیف 1976 کو انہوں نے “گھاسی رام کوتوال” نامی فلم سے اپنی فنکارانہ زندگی کی شروعات کردی۔ 1976 سے 1980 تک وہ مختلف کردار نبھاتے رہے اور یہ بتانے کی شاید ضرورت نہ ہو ان کی توجہ کا مرکز متوازی سنیما ہی رہا جہاں ان کو کھل کر کھیلنے اوراپنا فن دکھانے کا وسیع میدان میسر تھا۔ وہ غالباً ایک درست گیند کا انتظار کررہے تھے۔ 1980 کو جب ہدایت کار گووند نہلانی نے ان کی طرف گیند پھینکی تو انہوں نے وہ چھکا مارا کہ فلم “آکروش” ہندی سنیما کی دس اہم ترین فلموں میں سے ایک بن گئی۔
سپاٹ چہرہ، خالی آنکھیں اور مہر بہ لب آدی واسی کے کردار میں ڈھلتے اوم پوری کے فن نے سب کو چونکا دیا۔ انہوں نے ان سب کی زبان بند کردی جو سنیما کو صرف گلیمر سمجھتے تھے۔
“آکروش” کے بعد انہوں نے پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔
سنہ80 کی پوری دہائی میں انہوں نے نصیرالدین شاہ، فاروق شیخ، کلبھوشن کھربندا، شبانہ اعظمی اور سمیتا پاٹیل جیسے ہونہار فنکاروں کے ہمراہ انہوں نے سماجی اور سیاسی موضوعات پر مبنی فلموں میں نچلے اور پسے ہوئے طبقات کی بھرپور ترجمانی کی۔ “منڈی”، “مرچ مصالحہ”، “اردھ ستیہ” ،”جانے بھی دو یارو” وغیرہ جیسی فلموں میں انہوں نے انتہائی مشکل کرداروں میں اداکاری کے وہ وہ رنگ بھرے کہ دیکھنے والا متاثر ہوئے بنا شاید ہی رہ پائے۔
نوے کی دہائی آتے آتے متوازی سنیما زوال پذیر ہوکر سمٹ گیا۔ متوازی سنیما چونکہ دولت کمانے کی بجائے معروض کو بدلنے کے فلسفے پر یقین رکھتا ہے اس لیے اس سنیما کے لیے حکومت کی مالی امداد لازمی ہے دوسری صورت میں اس کا دو قدم بھی چلنا ممکن نہیں۔ اوم پوری جیسے باصلاحیت اداکاروں کی وجہ سے متوازی سنیما مرکزی سینما کے لیے ایک چیلنج بن چکی تھی اور اس کا مقابلہ کرنا ناممکن تھا۔
اس لیے سرمایہ داروں نے حکومت پر دباؤ ڈالا کہ وہ آزاد منڈی کی معیشت کے نظریے کے تحت آزادانہ مقابلے کی فضا پیدا کرے۔ سرمایہ داروں کے شدید دباؤ کے باعث حکومت نے متوازی سنیما کے ساتھ تعاون کرنا بند کردیا نتیجتاً وہ خود کو سنبھال نہ سکا اور نوے کی دہائی میں اس کا جنازہ نکل گیا۔
اوم پوری کو بھی ناچار مین اسٹریم سنیما کا رخ کرنا پڑا۔ تاہم مرکزی سنیما میں بھی ان کا منفرد انداز نمایاں رہا انہوں نے اپنے فن کو چکاچوند پر قربان کرنے کی بجائے “گھائل”، “ماچس”، “دراہ کال”، “چاچی 420” اور “چائنا گیٹ” جیسی کمرشل و نیم کمرشل فلموں میں اپنا یکتائے روزگار انداز برقرار رکھا۔ اس دوران انہوں نے امریکی، برطانوی اور پنجابی فلموں سمیت متوازی سنیما سے بھی اپنا اٹوٹ رشتہ ٹوٹنے نہ دیا۔
نئی صدی کی پہلی دہائی سے اپنی جسمانی موت تک کے عرصے میں انہوں نے بعض ایسے کردار بھی ادا کئے جو ان کے فن کے شایانِ شان نہ تھے۔ اس کی وجہ صرف اور صرف نئی نسل کی بےقدری ہے۔ نئی نسل کے فلمساز مکمل طور پر ہیروشپ کے سحر میں مبتلا ہوچکے ہیں ، اگر انہیں کسی ساٹھ سالہ بوڑھے پر کوئی فلم بنانی ہو تو ان کا پہلا انتخاب امیتابھ بچن جیسے چارمنگ اداکار ہوتے ہیں بلکہ یوں سمجھیں امیتابھ بچن کو سامنے رکھ کر اسکرپٹ لکھے جاتے ہیں۔ اس بےقدری کا سامنا نصیرالدین شاہ کو بھی ہے لیکن اپنی مخصوص شکل و صورت کے باعث اوم پوری کے ساتھ یہ زیادتی کچھ زیادہ ہی ہوتی رہی ہے۔
اس کے باوجود انہوں نے “ڈھول” اور “چپکے چپکے” جیسی مزاحیہ فلموں سمیت “قربان” ، “رنگ دے بسنتی” ، “چکرویو” اور “مس ٹنک پور حاضر ہو” جیسی سماجی فلموں میں اپنی مکمل موجودگی منوائی۔ اسی طرح “دبنگ” ، “مرزیا” اور “مائی گاڈ” جیسی کمرشل فلموں میں مختصر کردار ادا کرنے کے باوجود اپنا لوہا منوایا۔
اوم پوری کی فنی زندگی پر ایک اچٹتی نظر ڈالنے سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ عمر کے آخری حصے میں وہ سرمایہ دارانہ نظام پر کھڑی ہندی سینما کے ساتھ بمشکل نبھا پارہے تھے۔ وہ مکمل طور پر بےقدری کے شکار تھے ، حالانکہ ان جیسا فنکار اب شاید ہی ھندی سینما کو دوبارہ نصیب ہو۔
چھ جنوری 2017 کو بظاہر وہ اس دنیا سے چل بسے مگر جب تک فن زندہ ہے فنکار کی موت ممکن نہیں۔ سو اوم پوری بھی ہمیشہ زندہ رہیں گے امید ہے آنے والی نسلیں 80 کی دہائی کی فلموں کو تلاش کرکے ان کے کام کو دریافت کرکے ، ان کے تجربات کی روشنی میں اپنا راستہ متعین کرنے کو قابلِ فخر امر سمجھیں گے۔ متوازی سنیما کے اوم پوری کی موت ممکن نہیں۔
♥
بشکریہ: حال احوال