جیسا کے میں نے گذشتہ کالم میں عرض کیا تھاکہ ترقی کرنے کے لیے اس کائنات کے بارے میں جاننا ضروری تھا۔ جب تک خوف، اسرار اور بے یقینی کی کیفیت ختم نہ ہو انسان محنت اور دلجمعی سے کام نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے ایک خاص ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ماحول مہیا کرنے کے لیے سائنسدانوں نے گراں قدر خدمات سر انجام دی۔ انہوں نے کائنات کے اسرار او بھید کھولنے کے لیے بڑ ی جانفشانی سے کام لیا۔
کاپلر نامی سائنسدان اس سلسلے کی ایک اور کڑی تھا۔اس نے علم ہندسہ پر مشتمل ایک نیا ماڈل تیا ر کیا۔اس ماڈل میں کائنات کا مرکز سورج تھا۔ اس نے سیاروں کی نقل حرکت کا حساب کتاب اس ماڈل میں پیش کرنیکی کوشش کی۔یہ کوشش 1609 میں نیو اسٹرالوجی کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوئی۔اس کتاب سے اور کوئی فائدہ ہو ایا نہ ہوا ہو، لیکن اس سے اٹالین نثراد سائنسدان گلیلو سخت متاثر ہوا۔ اس کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعد اس نے ٹیلی سکوپ کا بھر پور استعمال کیا۔اس بھر پور استعمال سے جو کچھ اس نے دیکھا وہ حیران کن تھا۔
جو پہلی حیران کن چیز اس نے دیکھی وہ چاند پر پائے جانے والے پہاڑ تھے۔جس کا مطلب یہ تھا کہ عام خیال کے برعکس چاند شیشے سے بنی ہوئی کوئی شے نہیں بلکہ زمین سے ملتا جلتا سیارہ ہے۔اگر اس پر پہاڑ ہو سکتے ہیں تو اس پر انسان اور پودے بھی ہو سکتے ہیں۔ اس ٹیلی سکوپ کے باقاعدہ استعمال سے جو دوسری حیران کن چیز اس نے دیکھی وہ جیو پیٹر کے گرد پانچ سیاروں کی گردش تھی۔گلیلوتک اس کائنات کو ایک چھوٹی سی جگہ سمجھا جاتاتھا ۔ مگر گلیلو کے بعد یہ اچانک ایک ایسی کائنا ت کی شکل میں سامنے آئی جسکی بے کراں وسعتیں تھیں۔
اس وسیع و عریض کائنات کے بارے میں گلیلو نے ایک تفصیلی کتاب لکھی۔ دنیا کے دو نظاموں کے بارے میں مکالمہ نامی اس کتاب نے واقعی دنیا کوہلا کر رکھ دیا۔یہ وہی کتاب تھی جس نے رومن کیتھولک چرچ کی نظریاتی جڑیں اکھاڑ کر رکھ دیں۔چرچ نے اس کتاب کو بار بار پڑھا اور مذہبی کتابوں اور اصولوں سے اس کا موازنہ کیا۔اور اسے کفر قرار دیا۔مگر یہ کفر نہ تھا۔گلیلو تو صرف یہ کہہ رہاتھا کہ یہ کا ئنات سائنسی اصولوں کے مطابق چلتی ہے۔ چرچ اور پادریوں نے تو گلیلو کو بری طرح دھتکارا مگر یہ سائنسدان کائنات کے بارے میں یورپین علم میں گہری تبدیلی لانے میں کامیاب ہو گیا۔
سادہ زبان میں اس کے کہنے کا مطلب یہ تھا کے یہ کا ئنات ایک مشین کی طرح ہے۔ یہ کچھ اصولوں اور ضابطوں کی پابند ہے جن کے بارے میں جا نا جا سکتا ہے۔ اس سے روائتی سوچ کی کمر ٹوٹ گئی۔ سائنسدانوں کے اس روایت شکن سلسلے کی اگلی کڑی فرانسس بیکن تھا۔اس نے روا یتیعلوم پر زوردارحملے کیے۔اس نے تما م روایتیعلوم کو ترک کرنے کی کھلے عام وکالت کی۔اس نے کہا کہ کائنات کے بارے میں علم صرف سائنسی تجربات سے ہی ممکن ہے۔
حقیقت میں یورپ میں سائنسی انقلاب کی تکمیل بیکن کی کاوشوں کا نتیجہ تھی۔مگر فیصلہ کن وضاحت کا سہرا نیوٹن کے سر باندھنا پڑتا ہے۔نیوٹن نے قدرتی فلسفے کے علم ہندسہ پر مبنی اصولوں پر اپنی کتاب میں ساری گرہیں کھول کر رکھ دیں۔اس نے بنیادی نوعیت کے چار نقاط پر نا قابل تردید دلائل دئیے۔ پہلا یہ کہ اس کائنات کی علم ریاضی کے فارمولوں کے زریعے پوری وضا حت کی جا سکتی ہے۔دوسرا یہ کہ یہ کائنات باقاعدہ اصولوں اور ضوابط کے تحت چلتی ہے جن کو سمجھا جا سکتا ہے۔تیسرا یہ کہ اس کائنات کو جاننے کے لیے مافوق الفطرت علوم کی ضرورت نہیں ہے۔اور چوتھا یہ کہ اس کائنات کے تمام سیارے اور دوسری اشیا کشش ثقل کے تحت رواں دواں ہیں اور اس میں کسی پر اسرار قوت کا ہاتھ نہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ نیوٹن بذات خود ایک عقیدہ پرست عیسائی تھا۔مگر اس نے عقیدے کو سائنسی تجربات کے راستے میں حائل نہ ہونے دیا۔لیکن وہ اپنے آپ کو عقیدے سے مکمل طور پر آزاد بھی نہ کر سکا اور ایک طرح کے الجھاوء کا باعث بھی بنا۔ مگر اس نے کا ئنات کی گردش کی وضاحت کرنے کی کافی کامیاب کوشش کی۔اس حوالے سے الجھاؤ صرف اتنا تھا کہ اگر یہ کائنات ایک مشین کی طرح ہے تواسے مشین کی طرح ہی سمجھا جاناچاہیے جس کے لیے انسانی عقل اور تجربات کافی ہونے چاہیے۔
جلد ہی نیوٹن کے کائنات کے بارے میں نظریے کا اطلاق زندگی کے دوسرے شعبوں پر ہونے لگا۔اگر کائنات ایک مشین کی طرح ہے اور ایک مشین کی طرح اس کو سمجھا جا سکتا ہے تو پھر تاریخ، معاشیات، سیاست اور اخلاقیات کو بھی عقلی طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔اگر یہ ساری چیزیں میکانکی ہیں تو ان کو مافوق الفطرت علوم کے بغیر سمجھاجا سکتا ہے۔ان کی وضا حت کی جا سکتی ہے۔ اور ان کو بدلا جا سکتا ہے۔نیوٹن کا یہ کام اٹھارویں صدی میں جا کر ایک ٹھوس سائنسی انقلاب پر منتج ہوا اور بلاخر سائنسی علم اور عقیدے کے راستے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہوئے۔
اس سے علم اور عقل پر بٹھائے گئے پہرے بے معنی ہو گئے۔بیڑیاں ٹوٹنی شروع ہوئیں اور یورپ تیز رفتا ر ترقی کے راستے پر چل پڑا۔ مگر ابھی بہت سارے ابہام باقی تھے۔ فلکیات کے بعد اب حیاتیاتی سائنس کی باری تھی۔گلیلیو کی دوربین کے بعد اب رابرٹ ہک کی خوردبین کے استعمال کا وقت تھاَ خوردبین کے استعمال سے زندہ مخلوق پر حیرت انگیز انکشافات ہوئے۔یہ سلسہ آہستہ آ ہستہ کیمیا، طب اور دوسرے سائنسی علوم تک پھیلتا چلا گیا۔
۔ (جاری ہے )۔