آئینہ سیدہ
پاکستان کے شہروں میں رہنے والی سیاسی طور پرافیم زدہ مگر ڈگریوں سے لدی ہوئی مڈل کلاس اشرافیہ کا پسندیدہ مشغلہ کافی برسوں سے یہ ہوگیا ہے کہ روزانہ تقریبا ” تیس مین سٹریم نیوز چینلز اور ان پر خبروں کےعلاوہ تجزیوں کی پھلجڑیاں اڑاتے روز سات بجے شام سے بارہ بجے رات تک آتے چارعدد ٹاک شوز دیکھنا اور ان میں موجود ایک اینکر نامی ” سوٹ ٹائی میں ملبوس معزز مرغے لڑانے والے” مرد کو اپنا مسیحا سمجھنا ! یہ مرغ لڑانے والا مسیحا اپنے اکھاڑے کی ریٹنگ کے لیے خاص طور پرڈھونڈ ڈھانڈ کر تین سیاسی جماعتوں کےتگڑے مرغے لے کر آتا ہے جو کبھی ایک دوسرے کی کلغیاں نوچنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر کلغی نہ نوچ سکیں تو “دم ” ضرورنوچ ڈالتے ہیں۔
کسی اور اکھاڑے میں سوٹ ٹائی میں ملبوس ایسا ہی معزز“مسیحا ” اپنے سامنے آوٹ ہوئےیپرمیں پوچھے گئے سوالات دہراتی نازک اندام ، کم عمر ہرنی جیسی حیران آنکھوں والی بلا وجہ مسکراتی حسینہ بھی بیٹھا لیتا ہے جوبیٹری کی گڑیا کی طرح یا تو سر ہلاتی رہتی ہے یا پھر معزز مرد کو ٹوک کرایک ہی جملہ دہراتی ہے “پہلےایک کمرشل بریک لےلیں۔
اپنے ریموٹ کو مزید تکلیف دیں تو آپکو ایک اورڈرائنگ روم سجا ملے گا جہاں دو معزز مسیحا ئے قوم اپنے بھیڑ چال موضوع والے شو کی ریٹنگ بڑھانےکےلیےایک دوسرے پر“دو نمبر” حملے اس طرح کریں گے کہ دیکھنے والے کو یقین ہوجاے گا کہ اب “ہوجائے گی “گم …. ایک کی چونچ اور ایک کی دم ۔
وائے ری قسمت2002سے چلا یہ چکرآج چودہ سال بعد بھی اس پہیے کی طرح گھو م رہا ہے جو سن ستر کی فلموں میں اکثر ہدایتکار گھوما کر ہیرو کو بچے سے جوان کردیا کرتےتھےلیکن نیوز میڈیا کا یہ پہیہ ہماری قومی تقدیر کی طرح الٹا چل چکا ہے۔
جس طرح پاکستان کا ہر ادارہ ترقی معکوس کا عملی نمونہ پیش کر رہا ہے اسی طرح ہمارا نیوزمیڈیا بھی اپنی ملکی روایت کے شانہ بشانہ پروفیشنل ازم سے “بھانڈ ا زم ” کی طرف تیزی سے سفر کر رہا ہے بلکہ جس طرح بغیر وقفے کے اس شعبے نے یہ الٹے پاؤں کا سفر کیا ہے یقینا” یہ پستی میں لڑھکنا ” اپنی مثال آپ” ہے۔
سیاستدانوں پر تیر آزمائی ان ٹاک شوزکا خاصہ ہے مگر اکثر ایسے شوز میں “ہاں یا نہیں” میں جواب دینے کی سہولت حکمران جماعت اور اپوزیشن کے نمایندوں کو دستیاب ہوجاتی ہے مگر اصل “جگتیں ” نیوز بلیٹینز کے ذریعے گرم گرم توے سے اتار کر ناظرین کے منہ میں ٹھونسی جاتی ہیں۔ اب اگر ان گرم جگتوں سے قوم کا منہ اگلے دس دن تک چھالوں سے بھرا رہے تو سمجھ جائیں۔ نیوز چینل نے وہ دان وصول کر لیا جس کے لیے اتنی محنت سے پاکستان نامی ملک کے سب سے بڑے بھائی نے ” میڈیا ہاوسز ” قایم کیےتھے۔
سندھ صوبہ اور ادھر قائم پتلی گردن والی پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت ان “نوٹنکی بلیٹنز ” کا بہترین ہدف ہے خضدار سے بندہ غائب ہونا ،شیخو پورہ سے بندی اور مردان سے بچہ کوئی بڑی بات نہیں مگر کراچی سے “گٹر کا ڈھکن ” غا ئب ہونا “سائیں سرکار ” کا اتنا بڑا گناہ ہے جسکی پاداش میں میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا تک ایک ہی نعرہ لگایا جاتا ہے یعنی
“ FIXIt# ”
اس کہانی کا اختتام البتہ کافی طربیہ رہا اور “فکس “کرنے کے جنون میں مبتلا افراد ڈھکن اٹھاتے، لگاتےاور پھر اٹھاتے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے مگر اس بارخاص “چرچا ” نہ ہوا آپ پوچھیں گے کیوں ؟ ہم جواب دیں گے” ریٹنگ بھائی ریٹنگ ” !!۔
یہ تو صرف ایک مثال تھی مگر اسی طرح اکثرجعلی وارداتوں کا ذکر تو ہوتا ہے مگر نہ فالوآپ کیا جاتا ہے نہ برے کو گھر تک پہنچایا جاتا ہےکیونکہ ظاہر ہے جو مال افواہ اڑانے ،الزام لگانے اور افرا کے ساتھ تفریح میں ہے وہ سچ بتانے اور ذمہ داری کا تعین کرنے میں کہاں ؟؟؟
سچ یہ ہے کہ ٹی وی اسکرینوں پر سجی ان دکانوں نے اپنی رنگ برنگی “مٹھائیا ں” بیچنے کا مکمل بندوبست کیا ہوا ہے اور ” اللہ کے فضل و کرم “سے ہم پاکستانیوں جیسے بیوقوف شوگرکے دائمی مریض موجود ہیں جن کو شوگر منع ہے پر کیا کریں” کنٹرول نہیں ہوتا “…….اس لیے روز ٹی وی کے سامنے ریموٹ ہاتھوں میں لیےایک سےدوسری دکان پرپہنچ جاتے ہیں.کچھ دکانوں کے سامنے آج میں بھی مال دیکھنے رکی ہوں
“کچھ خاص نہیں لینا پر” جسٹ فورونڈو شاپنگ یو نو
ایک صاحب قیامت کےڈاکٹرہیں سن کریہی لگ رہا ہےکہ قیامت کی تین خوراکیں دے کر اس ملک کے نصیب بہتر بنائیں گےاگلی دکان پر بورڈ لگا ہے“ہماری صرف یہی برانچ ہے “… ظاہر ہے جس طرح کی زہریلی مٹھائی آپ لقمانی حکمت کے لفافوں میں ڈال کر بیچ رہے ہیں آپکے علاوہ کون ایسی دوسری دکان کھول سکتا ہے ؟؟
مزید آگے بڑھیں تو جن کے والد ایکٹنگ میں کچھ خاص کارنامہ انجام نہ دےسکے انہوں نے بیچاری صحافت کو اداکاری بنا دیا اور ریٹنگ کی دوڑ میں کامیاب و کامران ٹھہرے فرماتے ہیں فون نمبر دے دیں چینل سے فون کیا جائے گا سوال بھی میں بتاؤں گا اورشو کے بارے میں تعریفی کلمات بھی یعنی اپنے باپ سے زیادہ گورے ہیں برخودار۔
یہاں خواتین دکانداربھی موجود ہیں مگرانکی مٹھائی سے پہلے انکےحسن ، انکی ادا ؤں ، نت نئے فیشن پرنظرجمی رہ جاتی ہے الیکٹرانک نیوز میڈیا کی کھڑکیوں سے سوشل میڈیا کی طرف جھانکیں تو اکثر ان ہی خواتین کی رنگ برنگی “سیلفیوں ” پر نگاہ پڑتی ہے اورآپ سمجھنا چاہیں تب بھی سمجھ نہیں پاتے کہ یہ خواتین دکاندار ہیں یا صرف ” مٹھائیاں“؟
ایک دوخواتین اینکرز کو چھوڑ کر لگتا نہیں کہ کوئی حسینہ عالم کسی سنجیدہ گفتگو کےموڈ میں ہے اکثر یہی سمجھتی ہیں کہ جتنا چیخ کر” گرما گرم جلیبی لے لو ، گھر کا بنایا حلوہ ٹھونس لو ،موتی چور کے لڈو کھالو ” کی صدائیں لگائیں گی اتنا ہی اچھا مال بکے گا۔
مزید آگے بڑھیں تو ایک صاحب بیٹھے تو پرچون کی دکان میں ہیں مگر انہیں یقین ہے کہ صدر اوبامہ سے لیکرجرنیل باجوہ تک سب اپنی تمام ترمصروفیات ترک کرکے انکا ہی پروگرام دیکھیں گے۔ ہاں جی کیوں نہیں آخر ہاورڈ یونی ورسٹی سے پلٹے ہیں کیا ہوا جو بلوچستان نے اپنا خون پلا کر جوان کیا ہے آخر “مائیں ہوتی کس لیے ہیں” ؟ یقینا قربانی کے لیے …. سو موصوف اپنی “لشکے مارتی ” ٹنڈ کے ساتھ وقار کوایسا سیلوٹ کرتے ہیں کہ دھرتی ماں کا سینہ انکے چمکتے بوٹوں کی دھمک سے کانپ جاتا ہے اور یہی بات انکی دکان کے گاہک بڑھانے کا باعث بنتی ہے۔
کچھ دیر کے لیے قدم ایک دکان کے سامنے جم گئےکہ دکاندار نے اپنا مال بیچنے سے پہلے فرعون کی تا ئی کے برے انجام اور نمرود کے چھوٹے چچا کا حال سنا نا شر و ع کر دیا ابھی تک میری کیفیت یہ سوچ کرعجیب ہورہی ہے کہ اس زمانے میں بھی چودھری صاحب مذکورہ بالا افراد کے ہمساۓ تھے یا شاید انکے گھر ملازم ! آخر اتنے “اندر کی بات ” ان تک پہنچی تو کیسے پہنچی ؟
ابھی اسی شش وپنج میں تھی کہ چنگاڑنے کی صدائیں بلند ہوئیں ایک ڈھابے پرایک محترم چیخ و پکار کر رہے تھے اور وہ بھی معصوم سی بچی کو سامنے بیٹھا کر! زور وشور سے اپنی جوانی کےدنوں کے کارنامے بیان کر رہے تھے میٹھا زیادہ ڈال رہے تھے اور کیوں نہیں ڈالیں؟ یہاں انکے بیانات کو جھوٹا ثابت کرنے والا رہ کون گیا ہے ؟ جو ہیں وہ بھی جانتے ہیں کہ اگر ہم نے انکا گریبان پھاڑنے کی کوشش کی تو ہوسکتا ہے یہ ہماری پوری “قمیض ” ہی لے اڑیں لحاظہ بہتری اسی میں ہے کہ بچی ہی سنے اور عوام نامی بچے ہی احمق بنیں۔
کچھ اینکر نما سینئیر تجزیہ کار ایسے “جوان بزرگوں ” سے زیادہ دبنگ اور نیکوکار ہیں وہ کسی ناقص العقل کو سامنے بیٹھا کر خطبہ کرنا حلال نہیں سمجھتے سو وہ فاترالعقل کو سامنے بیٹھا لیتے ہیں اور اسکو کبھی غصے سے تو کبھی پیار سے کہتے ہیں سوال کرو نا “جانو“….اور سامنے بیٹھا بت نما مرد کہتا ہے “سرجی ! میں کہاں…” جانو” تو صرف آپ ہیں۔
اگلی دکان پیرزادوں کی تھی سو کافی اونچی تھی مگر جیسا کہ بزرگ فرما گئے کہ اونچی دکان میں ہوتا ہے پھیکا پکوان …… اور بزرگ توسب کے سانجے ہوتے ہیں اکثر درست بات کر جاتے ہیں اگر کوئی انکی بےہوشی سے فائدہ اٹھانا چاہے تو وہ نافرمان کہلائے گا پیرزادہ نہیں۔
کچھ سید بچے بھی کاروبار چلانے کے جنون میں مبتلا ہیں مگر وقت بڑا بےرحم ثابت ہوا جس نے سادات کی انکساری چھین کر ہاتھ میں غرور کا چابک پکڑا دیا ہے جس سے ہر آنے جانے والا خوفزدہ ہے. سید زادوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ دکان پربیٹھنے والے کے لیے “گاہک ہمیشہ درست ” کا اصول اپنانا ضروری ہے اور اس اصول کو ردی کی ٹوکری میں پھینکنا ہے تو بہتر یہی ہے کہ صاحب بہادریہ دکان بند کریں اور ایک یونیورسٹی کھول لیں جہاں ساری کلاسیں خود ہی لیا کریں نصاب بھی خود طےکر لیں اورسوال کرنے والے شاگرد کو طنز کے تیر مارکر ہلاک کرنے کا اپنا سنہری اصول پہلی کلاس سے ہی لاگو کر دیں۔
دکانیں تورات دیر تک کھلی رہتی ہیں مگرآج لگتا ہے کسی کی” چڑیا “ا ڑ گئی ہے اور ایک کہرام ہے جو اس بازار کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے ایسے ایسے فسادی اپنی دانش کا اظہار کر رہے ہیں جو میڈیا میں باوقار بنتے ہیں اور رات ہوتے ہی سوشل میڈیا پہ بے وقار ہوجاتے ہیں …جی ہاں “بے وقار ” ! او ہو آپ غلط سمجھے، ایسے دانش مند تو رات کو سوتے بھی یونیفارم پہن کراور بوٹوں کو سینے سے لگا کرہیں۔
مگر “دل کی کیا بات کریں ، دل تو ہے ناداں جاناں ” اور جاناں سوشل میڈیا پر آکراچھےبھلےدانش مندوں کی دانش اڑا لےجاتی ہیں
لگتا ہے بارہ بجنے والےہیں اورآٹھ بجےکی دکانوں کےمالک اپنےاپنے باسی مال کے ساتھ “نشر مکرر “ کے نام پر دوبارہ حملہ آ ورہونے والے ہیں سو اجازت دیں مزید دکانوں کی سیر پھرکبھی سہی۔
♦