تصنیف حیدر
دنیا جانتی ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی حالت تعلیمی اعتبار سے کتنی لچر ہے۔ انہیں بہتر مواقع حاصل نہیں ہیں۔ وہ عملی زندگی میں دوسری قوموں سے بہت پچھڑے ہوئے اور ایک جامد و سخت گیر سوچ کی قوم بن کر رہ گئے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کی ذمہ داری انہیں اس معاشی و علمی بحران سے نکال کر مین سٹریم میں لانے کی ہے، مگر خود مسلمانوں کا رویہ اتنا غیر سنجیدہ، بوگس اور بے وقوفانہ ہے کہ یہ سیاست کے ہاتھوں استعمال ہونے اور مسلسل اپنی ہتک کروانے اور اپنی حالت کو مزید ابتر بنانے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں۔
دہلی کی جامع مسجد ہو، کولکاتا کی ٹیپو سلطان مسجد یا پھر اس ملک کی کوئی بھی چھوٹی سے چھوٹی مسجد، آپ کو وہاں تعمیری ذہن تیار کرنے والے مولوی ہرگز دکھائی نہ دیں گے۔ ابھی کولکاتا کے ایک بے وقوف مولوی نے نوٹ تبدیلی کے فیصلے پر پرائم منسٹر کے خلاف فتویٰ دیا ہے کہ ان کے سر اور داڑھی کے بال مونڈنے پر پچیس لاکھ انعام دیا جائے گا۔
اس جاہل مولوی سے پوچھا جائے کہ کیا یہ پچیس لاکھ کچھ بہتر سکول قائم کرنے کے لیے، غریب مسلمانوں کا مستقبل سنوارنے کے لیے نہیں استعمال کیے جاسکتے۔ جبکہ سبھی جانتے ہیں کہ بنگال میں ممتا بنرجی نے جو فسادات کروائے ہیں، اس میں بہت سے غریب ہندو بے گھر ہوئے ہیں، مارے گئے ہیں اور ان پر ظلم ہوا ہے۔
اگر یہ ان پڑھ مولوی ان کی حالت سدھارنے کے لیے یہ پچیس لاکھ روپے وقف کرتا تو ملک میں مسلمانوں کی ساکھ کتنی مضبوط ہوتی۔ پھر سوشل میڈیا پر جب کوئی شخص کمنٹ کرتا ہے کہ ‘ہندو مسلم سکھ عیسائی، آپس میں ہیں بھائی بھائی‘ کے نعرے سے مسلم کا لفظ نکالا جانا چاہیے تو اس کا مطالبہ ہرگز غلط نہیں ہوتا۔
ان مولویوں نے اور ان کے مقلدین نے سیاست کی گرم ہانڈیوں میں اپنے لیے مرغ مسلم تیار کروائے کرنے کی خاطر مسلمانوں کو چنے کھانے کے لائق بھی نہ چھوڑا۔ مگر مجھے مکمل یقین ہے کہ عام مسلمان اس معاملے سے خود کو علیحدہ رکھنا ہی پسند کرے گا اور ایسے جاہلانہ بیان کی مذمت کو بھی ضروری نہیں سمجھے گا۔
ہاں اگر ساکشی مہاراج جیسا کوئی سیاسی پنڈت چار بیویوں یا چالیس بچوں جیسا ‘غیر ذمہ دارانہ‘ بیان دے گا تو یہ شور مچانے، ایف آئی آر درج کرانے سے نہیں چوکیں گے۔ ان کا مسئلہ بابر کی بنائی ہوئی مسجد ہے، مرد کو تین طلاق دینے کا حق ہے، گستاخی مذہب ہے، جو سب فروعی مسئلے ہیں، زندگی اور ایک بہتر مستقبل نہ کل ان کا مسئلہ تھا، نہ آج ہے۔ مجھے اس فکر اور اس حالت پر افسوس ہے۔
♦
2 Comments