یکم جولائی 2016 کو ڈھاکہ میں اسلام کی بالادستی قائم کرنے کے لیے پانچ مسلح اسلامی جنگجوؤں نے ریسٹورنٹ پر حملہ کیا جس میں 29 افراد نے اپنی جانیں کھو دیں۔ قتل و غارت کے اس واقعہ کے دوران ہمت اور حوصلے کی بہت سی داستانیں بھی سامنے آئیں۔
عید کے تہوار سے قبل جمعے کی شب آٹھ بجکر 45 منٹ پر ڈھاکہ کے اہم علاقے میں واقع ہولی آرٹیسن بیکری اوکیچن ریسٹورانٹ غیر ملکی باشندوں سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔اچانک ہی پانچ مسلح نوجوان شدت پسند وہاں داخل ہوئے اور کھانا کھاتے لوگوں پر حملہ کر دیا۔ششیر سرکار اسی ریسٹورانٹ میں بطور شیف ڈیوٹی پر موجود تھے۔ وہ کھانے کی اشیا کو ٹھنڈا رکھنے کےلیے مخصوص ‘سرد کمرے‘ (کولر) سے باہر نکل رہے تھے جب انھوں نے گولیوں کی آوازیں سنیں۔
ان مناظر کو یاد کرتے ہوئے ششیر نے بتایا کہ ‘میں نے دیکھا کہ ایک حملہ آور کے ایک ہاتھ میں تلوار تھی اور اس کی گردن میں گن لٹک رہی تھی۔‘بطور ہندو ان کے لیے خوف زدہ ہونا یقینی بات تھی کیونکہ اگر اسلامی جنگجوؤں کو ان کے مذہب کے بارے میں پتا چل جاتا تو ان کی موت یقینی تھی۔ششیر کہتے ہیں کہ ‘اسی لمحے ایک جاپانی نے چیخ کر مجھے کہا میری مدد کرو، وہ مڑے اور سرد خانے میں جا کر ان کی مدد بھی کی‘۔
وہ کہتے ہیں کہ سرد کمرے کو اندر سے لاک نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ‘جاپانی باشندوں نے پوچھا کہ وہ کون ہیں۔ میں نے کہا معلوم نہیں لیکن تم پریشان نہ ہو، پولیس آ رہی ہے‘۔
دو گھنٹے تک وہ لوگ سرد کمرے میں ہی رہے جہاں بہت ہی سردی تھی اور وہاں رکنے کے لیے وہ ایکسرسائز کر کے جسم کو گرم رکھنے کی کوشش کرتے رہے۔لیکن پھر وہ خوفناک گھڑی آگئی ایک حملہ آور نے سرد کمرے کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی۔‘ہم نے دروازے کو مضبوطی سے پکڑا رکھا اور وہ اسے کھولنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ ‘وہ واپس تو چلا گیا لیکن انھیں معلوم ہوچکا تھا کہ سرد کمرے میں بھی لوگ موجود ہیں‘۔دس سے 15 منٹ کے بعد حملہ آور دوبارہ سرد خانے میں آ گئے۔
ششیر کہتے ہیں کہ ‘وہاں بہت سردی تھی، ہماری ہمت جواب دے رہی تھی۔‘پھر حملہ آوروں نے دروازے کو دھکیلا اور مجھے کہا کہ باہر نکلو۔ میں بہت خوفزدہ تھا، میں فوراً زمین پر گر گیا اور لیٹ گیا۔ میں نے سوچاکہ اگر میں کھڑا ہوا تو شاید وہ مجھے تلوار سے مار دیں گے۔ میں بار بار یہی دہرا رہا تھا ‘اللہ کے واسطے، مجھے مت مارو‘۔
انھوں نےسمجھا کہ میں مسلمان ہوں اس لیےگن مین کو کہا کہ ریسٹورنٹ کے دوسری جانب چلے جاؤ۔‘میں اپنی کہنیوں اورگھٹنوں کے بل خون اور لاشوں سےرینگا۔ ‘پھر اچانک میں نے دو گولیاں چلنے کی آواز سنی۔ سرد کمرے میں موجود دونوں جاپانی مرچکے تھے۔‘
دو بجے کے بعد ایک شدت پسند نے آ کر پوچھا کہ شیف کون ہے؟
ششیر کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ کام کرنے والوں نے ان کی جانب اشارہ کیا۔ وہ انھیں باورچی خانے میں لے گیا۔
انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ کھانے میں کیا ہے؟ کیا ہمارے پاس مچھلی اور جھینگے ہیں؟ میں نے کہا جی تو انھوں نے جواب کہا کہ انھیں فرائی کر کے اچھی طرح سے سجا کر لاؤ‘۔
ابھی ششیر انھیں فرائی کر ہی رہے تھے کہ ایک جنگجو باورچی خانے میں آیا۔
‘اس نے میرا نام پوچھا میں نے صرف کہا ششیر۔ میں نے اپنے نام کا دوسرا حصہ نہیں بتایا جس سے یہ پتہ چل سکتا تھا کہ میں ہندو ہوں۔‘
شاید شدت پسند کو شک ہو گیا تھا ان نے ششیر سرکار کو کہا کہ قرآن سناؤ۔
ششیر آرام سے باس مچھلی فرائی کرتا رہا اور قرآن کی آیات پڑھتا رہا۔
ششیر کے مطابق ‘میری ساری زندگی مسلمان دوستوں کے ساتھ گزری ہے اس لیے مجھے قرآن کی چند سورتیں یاد تھی، لیکن میں بہت خوفزدہ تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ کیا میں اسے مطمئن کر پاؤں گا‘۔
رمضان المبارک کی روایت کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلمان مغویوں اور سٹاف کو صبح صادق سے قبل(سحری کو) کھانا دے دیا گیا۔
‘میں بہت خوفزدہ تھا، جب میں کھا رہا تھا تو مجھ سے خوراک نگلی نہیں جا رہی تھی مگر میں نے سوچا اگر میں نے کھانا نہ کھایا تو وہ سوچیں گے کہ میں روزہ نہیں رکھتا اور پھر انھیں اندازہ ہو جائے گا کہ میں مسلمان نہیں ہوں‘۔
سورج نکلنے کے کچھ ہی دیر بعد فوج کے کمانڈوز کی سربراہی میں آپریشن تھنڈر بولٹ کیا گیا جس کے نتیجے میں محاصرہ ختم ہوا۔ پانچوں حملہ آور مارے گئے اور ششیر سرکار کو اپنے زندہ رہ جانے والے ساتھیوں سمیت مدد ملی۔
اس نوجوان شیف کے لیے زندگی پھر کبھی ویسی نہیں ہوسکے گی۔ وہ دوبارہ سے کام کر رہے ہیں لیکن وہ اس بھیانک رات کے اثر سے اب بھی آزاد نہیں ہو سکے۔
‘مجھے آگے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ میں رات کو پرسکون طریقے سے سو نہیں سکتا۔ جب بھی میں اکیلا ہوتا ہوں اور اس رات کے بارے میں سوچتا ہوں و میں کچھ نہیں کر سکتا۔ میں بہت خوف محسوس کرتا ہوں‘۔
BBC