ارشد محمود
ریاستی سیکورٹی ادارے عمومی طور پر استبدادی ہوتے ہیںَ۔ خفیہ ایجنسیاں ہوتی ہیں۔ جن کا دائرہ کار لامحدود خود مختاری پر مبنی ہوتا ہے۔ ایجنسیوں پر بہت کم ڈسپلن نافذ کیا جاتا ہے۔ منطق یہ ہوتی ہے کہ اگران پر جابجا جواب دہی کی قدغنیں لگا دی جائیں تو وہ اپنا مطلوبہ مقصد پورا نہیں کرسکتیں۔
چونکہ یہ ریاست کو ‘دشمنوں اور غداروں‘ سے بچا رہی ہوتی ہیں۔ اس کا سارا سلسلہ کار ہی خفیہ ہائی کلاسی فائڈ ہوتا ہے۔ ہر معلومات، اطلاع مہر بند لفافے میں سفر کرتی ہے۔ اور متعلقہ باس تک پہنچتی ہے۔ خفیہ ہی آرڈر ہوتے ہیں۔ خفیہ ہی عمل ہوتا ہے۔ خفیہ ہی ریکارڈ رکھا جارہا ہوتا ہے۔
چونکہ خیال یہ ہوتا ہےکہ ایجنسیاں ریاست کی محافظ ہیں۔ چنانچہ ان کو لامحدود مالی اور افرادی وسائل دے دیئےجاتے ہیں۔ ایجنسیاں کیا کررہی ہیں۔ عام طور پر ان کی کارکردگی کا حکومت وقت کی سیاسی قیادت کو بھی پتا نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں تو یہ تک ہوا ہے کہ وزیر اعظم کو ‘سیکورٹی رسک‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔ بھٹو، بے نظیر اور نواز شریف بھی کسی نہ کسی طرح کا سیکورٹی رسک کا لیبل لگوا چکے ہیں۔
پولیٹیکل سائنس کی رو سے ریاستیں تو سب جبر پر مبنی ہوتی ہیں۔ (مارکسزم میں اس کی بڑی اچھی وضاحت ملتی ہے)۔ لیکن نظریاتی ریاست سب سے زیادہ ظالم اور جابر ہوتی ہے۔ نظریاتی ریاستیں عام طور پر آمریت پرمبنی ہوتی ہیں۔ نظریاتی ریاستوں میں صرف جغرافیائی حدود کی حفاظت ہی نہیں کرنی ہوتی ،ریاستی نظریئے کی بھی کرنی ہوتی ہے۔ چنانچہ جبر اور ظلم کا دائرہ بڑا وسیع ہوجاتا ہے۔
نظریاتی ہونے کی وجہ سے کمیونسٹ ریاستیں بھی سخت گیر انتہائی جابرانہ خفیہ اداروں کے حصارمیں چلتی رہیں۔ ہر دوسرا شخص ہی ریاستی جاسوس سمجھ لیا جاتا تھا۔ قبائلی، بادشاہی، جاگیردارنہ ریاستیں بھی سخت گیر ریاستی سیکورٹی کے حصار میں کام کرتی ہیں۔ ہر طرح کی مخالفانہ رائے کوبے رحمی کے ساتھ کچل دیا جاتا ہے۔ پاکستان نے بھی رفتہ رفتہ خود کو نظریاتی (اسلامی) ریاست میں بدل لیا ہے۔
ایجنسیوں کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ شاہ سے زیادہ شاہ کی وفادار ہوں۔ وہ تبھی داد پاتی ہیں۔ چنانچہ ایجنسیوں میں انتہا پسند فکر کے حامل، شکی مزاج لوگ بھرتی کئے جاتےہیں۔ چونکہ ان کو اندرونی طور پر لامحدود اختیار، طاقت اور آزادی عمل حاصل ہوتی ہے۔ پھر ان کے ذہنوں میں ‘محافظ ریاست‘ کا زعم بھی ہوتا ہے۔ ان لوگوں کے لئے تشدد پسند ہونا معمول کی بات ہوتی ہے۔ چنانچہ ایجنسیاں عمومی طور پر انتہائی جبر اور ظلم کے ادارے ہوتے ہیں۔ ان کو بے رحم اور سفاک لوگ چلا رہے ہوتے ہیں۔
میرے مطالعے میں کئی ناول اور حقیقی کہانیاں رہی ہیں۔ جن میں نہایت نفیس، تعلیم یافتہ، مہذب افراد پر شک کی بنا پربے حدوحساب ظلم اور تشدد کیا گیا۔ یہ کہانیاں پڑھ کر بندہ کانپ جاتا ہے۔ اور حیرت ہوتی ہےکہ ایجنسیوں کے بنائے گئے خفیہ ٹھکانوں میں کس قبیل کے، کس ذہنیت کے، کس نفسیات کے لوگ کام کرتے ہیں۔ وہ خود کو انسان کہتے کس طرح وہ اپنے گھروں میں اپنے بال بچوں کے سامنے کس منہ سے جاتےہیں۔
صرف اس جعلی زعم میں کہ وہ ریاست کو ‘دشمنوں‘ سے بچا رہے ہیں۔ جب کہ ان کی اذیت کا شکار ہونے میں اکثریت معصوم ہوتی ہے۔ اور وہ ضمیر کے قیدی ہوتے ہیںَ وہ جرائم پیشہ نہیں ہوتے، وہ ریاست کے دشمن نہیں ہوتے۔ صرف ریاست سے اختلاف کررہے ہوتے ہیں۔ وہ بھی اصلاح کے لئے۔ اپنے ملک اور قوم کی بہتری کے لئے۔
ریاست کی ایجنسیوں اور ان کے حکام بالا کو سمجھنا چاہئے کہ وہ تعلیم یافتہ محب وطن اور مہذب ذہنوں کے حامل لوگوں پر ملک دشمنی کا لیبل لگا کر۔۔۔۔اور پھر ان کو میڈیا پر اپنے نظریاتی گھٹیا ایجنٹوں کے ذریعے بلاسفیمی کا مرتکب مشہور کرکے نہ صرف ظلم کے مرتکب ہورہے ہیں بلکہ پاکستان میں انتہا پسندی کو فروغ بھی دے رہے ہیں۔ جب کہ ایک جمہوری و سیاسی حکومت کا مقصد ملک سے انتہا پسندی کا خاتمہ کرنا ہوت ہے۔
♦