سعودی عرب کے مفتی اعظم ہوں یا طالبان یا کوئی بھی اسلامی مذہبی تنظیم ، ان تمام کے نزدیک اسلام میں تفریح کی کوئی گنجائش نہیں ۔لیکن فنون لطیفہ میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ لوگ اس کی طرف کھنچے چلے جاتےہیں شاید یہی وجہ ہے کہ مذہبی پیشوائیت اس سے انتہائی نفرت کا اظہار کرتی ہے۔
اسلام میں تفریح سرگرمیوں کو لہو لعب سے تعبیر کیا گیا ہے اور ایک مسلمان کو ان سرگرمیوں سے اجتناب کرنا چاہیے اور اسے ان سرگرمیوں کی بجائے ہر وقت جہاد کی تیاری کرنی چاہیے۔شاید اس لیے کہ ابتدائی دور میں ذرائع پیداوار نہ ہونے کے برابر تھے اور جہاد ہی واحد تفریح ہوتی تھی جس کے ذریعے نہ صرف مال غنیمت اکٹھا ہوتا تھا ۔
اور آج کے دور میں طالبان ہو ں یا القاعدہ یا داعش ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ پندرہ سو برس پہلے کا نظام قائم کریں ۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جب بھی مذہبی پیشوائیت کی عوام پر گرفت کمزور ہونے لگتی ہے تو وہ تفریح سرگرمیوں کے خلاف اعلان جنگ یا فتوے شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن جہاں یہ اقتدار میں ہوں تو وہاں جبر کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔
یہی حال مذہبی ریاستوں چاہے وہ ایران ہو یا سعودی عرب کا ہے جہاں فنکاروں پر زندگی تنگ کر دی جاتی ہے۔ سعودی عرب کے مفتی اعظم عبدالعزیز الشیخ نے خبردار کیا ہے کہ ’سینما اور میوزیکل کنسرٹس ’اخلاقی زوال‘ کا باعث ہیں اور یہ اقدار کی تباہی کا باعث بن سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ ان مذہبی ریاستوں کی اشرافیہ تو ہر قسم کی تفریح سے لطف اندوز ہوتی ہے مگر جب معاملہ عوام کا ہو تو انہیں اسلام خطرے میں دکھنا شروع ہو جاتا ہے۔خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ’سبق‘ نیوز ویب سائٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ سعودی عرب کے مفتی اعظم عبدالعزیز الشیخ نے سینما گھروں اور میوزیکل کنسرٹس کو ’اخلاقی بے راہ روی‘ کا پیش خیمہ قرار دیتے ہوئے سعودی عرب میں ان پر پابندی کی حمایت کی ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ سعودی عرب میں اگر سینما گھروں اور موسیقی کے پروگراموں کی اجازت دی گئی تو یہ ’اخلاقی زوال‘ کا باعث بنیں گے۔
سعودی عرب کے مفتی اعظم عبدالعزیز الشیخ نے جمعے کی رات اپنے ایک نشریاتی انٹرویو میں کہا، ’’ہم جانتے ہیں کہ سینما گھر اور موسیقی کے کنسرٹ اخلاقی زوال کا باعث ہیں‘‘۔
سعودی عرب کی اسلامی تحقیق کی کمیٹی کے سربراہ مفتی عبدالعزیز کا یہ تبصرہ اس سوال کے جواب میں تھا، جس میں ان سے پوچھا گیا کہ ملک
میں انٹرٹینمنٹ کی خاطر سینما گھروں اور موسیقی کے پروگراموں کی اجازت دینے کے حکومتی منصوبہ جات پر ان کا کیا مؤقف ہے۔
مفتی اعظم نے خبردار کیا ہے کہ سعودی عرب میں سینما گھروں میں ایسی فلمیں بھی دکھائی جا سکتی ہیں، جو آزاد خیالی، واہیات پن، غیر اخلاقی اور لادینیت کو فروغ دیں اور ان فلموں سے سعودی ثقافت کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گانا بھی کوئی اچھی بات نہیں ہے۔
مفتی اعظم عبدالعزیز الشیخ کا مؤقف ہے کہ میوزکل انٹرٹینمنٹ کی اجازت اور سینما گھروں کو کھولنے کا مطلب ہو گا کہ مردوں اور خواتین کو کھلے عام ملنے جلنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ’’شروع میں تو سینما گھروں میں خواتین اور مردوں کے لیے الگ انتظام کیا جائے گا لیکن بعد یہ دونوں ایک ہی مقام پر بیٹھنے لگیں گے۔ اس طرح اقدار اور اخلاقیات تباہ ہو جائیں گی‘‘۔
مفتی اعظم نے البتہ کہا کہ ثقافتی اور سائنسی میڈیا سے لطف اندوز ہونے میں کوئی برائی نہیں ہے تاہم انہوں نے حکام پر زور دیا کہ اس تناظر میں کسی ’برائی‘ کو پنپنے کی اجازت نہ دیں۔
صحرائی ملک سعودی عرب کی حکومت نے گزشتہ برس اپریل میں وژن 2030 کے نام سے ترقی کے نئے اہداف بنائے تھے، جس میں سیاحت اور انٹرٹینمنٹ کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔ اس تناظر میں سعودی عرب میں انٹرٹینمنٹ اتھارٹی نے بھی کئی ایونٹس کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔
تاہم ناقدین کے مطابق سعودی عرب کے قدامت پسند معاشرے میں مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے سیاحوں کو راغب کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
DW/News desk