آصف جاوید
پاکستان میں نو عدد سوشل میڈیا بلاگرز کی گمشدگی کے ردِّ عمل میں ، آن لائن میگزین “نیا زمانہ” میں شائع ہونے والے میرے دو کالموں کی اشاعت کے بعد جب ان کالموں کو میں نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا تو میرے کچھ قارئین دوستوں نے مجھ سے یہ سوال پوچھا کہ آخر یہ بلاگ ہوتا کیا ہے؟ بلاگر کسے کہتے ہیں؟ اور سوشل میڈیا بلاگر کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ تو مجھے احساس ہوا کہ واقعی سوشل میڈیا بلاگر کا لفظ اتنا مانوس نہیں ہے اور کافی لوگوں کو اس کے معنی ‘ و مطالب سے آگاہی نہیں ہے۔
اپنی کم علمی اور کم فہمی کے باوجود بطور قلم کار میں نے اپنی اخلاقی ذمّہ داری سمجھتے ہوئے مناسب جانا کہ اپنے دوستوں کے لئے ان سوالوں کا جواب ضرور تحریر کروں۔
دوستوں کی خدمت میں عرض ہے کہ لفظ بلاگ در اصل ویب لاگ کا مخفّف ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ آن لائن کوئی لاگ بُک یا ڈائری مرتّب کر تے ہیں یا انٹرنیٹ کے ذریعے کسی ویب سائٹ پر لاگ اِن ہو کر کچھ لکھتے ہیں۔ اب آپ کس ویب سائٹ یا سوشل میڈیا پر لاگ بُک (ڈائری) لکھتے ہیں؟ کِن موضوعات پر لکھتے ہیں؟۔ یہ سوال ہنوز غور طلب ہے۔
اردو میں لفظ بلاگ کی کوئی جامع تعریف ابھی تک وضع نہیں ہوئی ہے۔ مگر عرفِ عام میں ہم کہ سکتے ہیں کہ بلاگ انٹرنیٹ پر کسی ویب سائٹ (اب سوشل میڈیا) کے ذریعے ایک قسم کا ذاتی ،جذبات، محسوسات اور مشاہدات کا تحریری اظہار ہوتا ہے، یہ بالکل اس ہی طرح ہے جیسے کوئی شاعر اپنے اشعار کے ذریعے اپنے محسوسات اور جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔
بلاگ کسی بھی موضوع پر تحریر کیا جاسکتا ہے۔ مگر زیادہ تر بلاگرز، اپنے بلاگ عموما“سماجی اور سیاسی موضوعات پر تحریر کرتے ہیں۔ بلاگ کو جدید طرز کی آن لائن ڈائری بھی کہا جاتاہے، جس کو بلاگرز باقاعدگی سے پبلک میں شیئر کرتے ہیں ۔ تاکہ ان کے جذبات احساسات اور ردِّ عمل ان کے منتخب کردہ قارئین تک پہنچےاور آگاہی کا عمل مکمّل ہوسکے۔ سوشل میڈیا پر فیس بُک اور دوسرے سوشل میڈیا فورم وجود میں آجانے کے بعد بلاگ تحریر کرنا ، اُن کی اشاعت کرنا پھر ردِّ عمل جانچنا بہت آسان ہوگیا ہے۔ اِس لئے سوشل میڈیا بلاگرز کی تعداد میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
در اصل سوشل میڈیا، اب روایتی میڈیا کے متوازی کھڑا ہوگیا ہے، سوشل میڈیا روایتی میڈیا کے بالمقابل زیادہ موثُر طور پر سامنے آیا ہے۔ روایتی میڈیا تک ہر ایک کی رسائی نہیں ہے۔ مگر سوشل میڈیا پر ہر خاص و عام کی رسائی ہے۔ اس لئے اب سوشل میڈیا ایک عوامی میڈیا کے روپ میں کھڑا ہے۔ پرانے زمانے میں جب انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا کوئی وجود نہیں تھا ، اس زمانے میں اکثر لوگ اپنی ڈائری لکھا کرتے تھے۔ مگر ڈائری اکثر دن بھر کی نجی مصروفیات کا احاطہ کرتی تھی۔ اس میں سماجی یا سیاسی موضوعات پر اپنے جذبات کی ترجمانی اکثر ناپید ہوتی تھی۔ اور اِس قسم کی ڈائریاں عموما” مرنے کے بعد کسی کتابی شکل میں سامنے آیا کرتی تھیں۔
ذاتی ڈائری اور بلاگ میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ ذاتی ڈائری آپ تک یاچند ایک لوگوں (قریبی دوستوں) تک محدود ہوتی ہے ۔ جبکہ بلاگ پوری دنیا کے سامنے کھلی کتاب کی مانند ہوتا ہے۔ جہاں آپ اپنی سوچ اور جذبات کے مطابق اپنے خیالات، احساسات، تجربات اور معلومات شیئر کرتے ہیں اور بذریعہ انٹرنیٹ سوشل میڈیا کے توسّط سے اپنے قارئین سے تبادلہ خیال کرتےہیں۔
آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ آپ کا بلاگ آپ کی شخصیت کی عکاسی کرتا ہے۔ آپ کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ قارئین کے اور آپ کے درمیان کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔ کسی ایڈیٹر کی قینچی سے آپ کے خیالات اور جذبات کی قطع و برید نہیں ہوتی ہے۔جیسی آپ کی سوچ ہو گی۔ ویسا ہی آپ کا بلاگ ہو گا۔ آپ ذاتی ڈائری میں صرف تحریرلکھ سکتے ہیں، مگر سوشل میڈیا بلاگ میں آپ کو یہ سہولت ہوتی ہے کہ آپ بطور بلاگر اپنے بلاگ میں گرافکس، اور وڈیوز کا استعمال بھی آزادی کے ساتھ کرسکتےہیں۔
ساری بات کا خلاصہ یہ کہ اگر آپ بے حِس نہیں ہیں، اپنی بات کہنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، اور تنقید اور دباؤ برداشت کرسکتے ہیں ۔ تو آپ کو اپنی سوچ ، اپنے جذبات اپنے محسوسات اور معلومات دوسروں تک ضرور پہنچانی چاہئے۔ اور اِس کام کے لئے سب سے بہترین چیز بلاگ ہی ہے۔ لہذا جرات کیجئے، میدانِ عمل میں آئیے، سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی بات کیجئے۔ اظہار ہر انسان کی فطری خواہش ہے۔ سوشل میڈیا اظہارِ رائے کا ایک ذریعہ ہے۔
سوشل میڈیا نے عام آدمی کو اس قابل کردیا کہ وہ معاشرے میں ہونے والے کسی بھی جبر و تشدّد، ظلم و زیادتی ، ناانصافی کے خلاف ، بڑی آسانی کے ساتھ آواز اٹھا سکتا ہے۔ اپنے اوپر ہونے والے جبر و تشدّد، ظلم و زیادتی ، ناانصافی کو بغیر کسی رکاوٹ اور پابندی کے دنیا کے سامنے لا سکتا ہے۔ احتجاج کرسکتا ہے، دنیا کو بتا سکتا ہے۔ اسے انصاف ملے یا نہ ملے مگر دنیا کو پتا ضرور چل جاتا ہے، کہ کس پر ظلم ہوا؟، کس کے ساتھ ناانصافی ہوئی؟، کس کے حقوق کی پامالی ہوئی؟، کس نے کی؟ کون ذمّہ دار ہے؟۔ ظالم اور جابر کی نشاندہی ہوجاتی ہے، ناانصافی عیاں ہوجاتی ہے۔
خوف و جبر کا شکار معاشروں میں سوشل میڈیا بڑی تیزی کے ساتھ ایک متوازی میڈیا کے طور پر دنیا کے سامنے تصویر کا دوسرا رُخ پیش کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا ظالم اور جابر ریاستوں کے لئے ایک بڑا چیلنج اور دردِ سر بن گیا ہے۔ ظالم اور جابر ریاستیں سوشل میڈیا بلاگرز کی زباں بندی کے لئے ہر طرح کے حربےاستعمال کررہی ہیں۔ اور یہ پاکستان میں بھی ہورہا ہے۔ سائبر کرائمز کنٹرول قانون کی آڑ میں حکومت (ریاست کی ایماء پر ) اس بل کے ذریعے سوشل میڈیا کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینا چاہتی ہے۔
اس قانون کی آڑ میں شہریوں کا فیس بُک یا ٹوئیٹر پر اپنی مرضی سے مواد شیئر کرنے کا حق چھینا جا رہا ہے۔ نو عددسوشل میڈیا بلاگرز کی گمشدگی کے واقعات میں بھی کھُرے کے نشانات ریاست کے مقتدر ایوانوں کے خفیہ کارندوں تک جاتے ہیں۔ مگر یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ اقوامِ متّحدہ کے چارٹر آف ہیومن رائٹس کی شق نمبر 18 اور 19 اس کرّہ ارض کے تمام انسانوں کو آزادیِ فکر، آزادی ضمیر، آزادی رائے اور اختیارِ مذہب کا پورا اختیار دیتی ہے۔
ہر شخص کو اپنی رائے رکھنے، اور اظہارِ رائے کی آزادی کا پورا حق حاصل ہے۔ ہر شخص بغیر ملکی سرحدوں کا خیال کئے اپنے علم اور خیالات کی تلاش کرسکتا ہے، ان کا پرچار کرسکتا ہے، انہیں حاصل کرسکتا ہے اور ان خیالات کو پھیلا بھی سکتا ہے۔ اور اس عالمی قانون کا اطلاق پاکستان پر بھی ہوتا ہے ۔کیونکہ یہ بنیادی انسانی حقوق کے عالمی چارٹرڈ میں شامل ہے۔ اور پاکستان میں 22 کروڑ جیتے جاگتے اِنسان بستے ہیں۔ جِن کے بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت ریاست کا آئین اور قانون ہے۔
♥
One Comment