مقتدا منصور
آج تقسیم ہند کو 70 سال ہونے کو آئے ہیں۔ لیکن ان گنت معاملات اور مسائل ایسے ہیں، جوبرٹش انڈیا کے آخری دنوں میں پیدا ہوئے تھے،بعض انتہائی غلط سیاسی فیصلوں،حکمت عملیوں اور اقدامات کے باعث تقسیم ہند کے بعد ختم ہونے کی بجائے مسلسل گہرے ہوتے چلے گئے۔اس صورتحال میں تقسیم ہند کے حوالے سے ان گنت سوالات تشنہ جواب ہیں۔لیکن یہاں دو سوالات کے جوابات تلاش کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کرنا چاہیں گے تاکہ کسی حد تک سمت کا تعین کیا جاسکے۔
اولِ، کمیونسٹ پارٹی جو عقیدے کی بنیاد پر انسانوں کی تقسیم کوغلط سمجھتے ہوئے طبقاتی تقسیم پر اصرار کرتی ہے ، اس نے کن وجوہات کی بنا پر برٹش انڈیا کی کمیونل بنیادوں پر تقسیم کی حمایت کی؟ دوئم، جب آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنی پوری تحریک مسلم اقلیتی صوبوں میں چلائی،تو ان صوبوں سے ممکنہ ہجرت کو کیوں نظر انداز کردیا؟ اور آنے والوں کیلئے مناسب منصوبہ بندی کیوں نہیں کی؟
دنیا بھر میں کمیونسٹ پارٹیاں کارل مارکس کے فلسفے اور کارل مارکس اور فریڈرک اینجلز کے 1848میں تحریر کردہ کلیدی نکات پر مبنی کمیونسٹ مینی فیسٹو کی بنیاد پر وجود میں آتی ہیں۔ کمیونسٹ پارٹیوں کا کلیدی ہدف ایک ایسے معاشرتی ڈھانچے کا قیام ہوتا ہے، جس میں معاشی اور سماجی انصاف ہو اور جہاں معاشرہ اپنی مالی حیثیت کی بنیاد پر طبقات میں منقسم نہ ہو۔ اسلئے ان کی جدوجہد کا بنیادی مقصدو محورطبقات سے آزاد(غیر طبقاتی )معاشرہ کی تشکیل ہوتی ہے۔
کمیونسٹ مذہب کو انسانی ثقافتی نظام کا حصہ ضرور سمجھتے ہیں،لیکن مذہب پرستوں کی طرح اسے مکمل ضابطہ حیات تسلیم نہیں کرتے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مذاہب ا لوہی قوانین پریقین رکھتے ہیں، جوپیغمبروں کے ذریعہ عوام تک پہنچتے ہیں اور اگلے پیغمبر کی آمد تک مستعمل رہتے ہیں۔ اس طرح یہ لازمی طورپر جامد و ساکت ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس کارل مارکس سمیت دنیا بھر کے فلاسفہ یہ سمجھتے ہیں کہ قانون انسانی معاشرے کی ضرورت ہوتے ہیں۔ معاشرہ جیسے جیسے آگے بڑھتا ہے قوانین کی ضرورت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اسلئے سابقہ قانین میں ترامیم و اضافہ اور نئے قوانین کی تشکیل وقت کی اہم ترین ضرورت ہوتی ہے۔ کارل مارکس نے کہا تھا کہ
“Mode of production determines the social, political and intellectual life processes”
یعنی کسی معاشرے میں ذرائع پیداوار سماجی، سیاسی اور فکری رجحانات کا تعین کرتے ہیں۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ان ہی نظریات اور اصولوں کی بنیاد پر قائم کی گئی تھی۔پارٹی ریکارڈ کے مطابق اس کے قیام کی تاریخ 26دسمبر1925بتائی گئی ہے۔جبکہ کمیونسٹ پارٹی(مارکسسٹ)کادعویٰ ہے کہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا 1920میں تاشقند میں منعقد ہونے والی دوسری کمیونسٹ انٹرنیشنل کے فوراً بعدوہیں وجود میں آئی۔ بہر حال اس کی تاریخ پیدا کچھ ہی کیوں نہ ہو،اس کے قیام کا مقصد ہندوستانی معاشرے کو سامراجیت سے آزاد کرانے کے بعداس میں استحصال سے پاک سماجی وسیاسی ڈھانچے کی تشکیل تھا۔
کمیونسٹ پارٹی کے بانیوں میں ہندو اور مسلمان برابر کے شریک تھے۔ بعد میں سکھ، مقامی مسیحی اور دیگر عقائد اور قومیتوں کے افراد اس کا حصہ بنتے چلے گئے۔یوں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا پورے ہندوستان کے محکوم، مظلوم، مفلوک الحال محروم طبقات کیلئے مساویانہ باوقار (ڈیسنٹ ) زندگی کے حصول کی جدوجہد کرنے والی جماعت کے طورپر ابھر کر سامنے آئی۔
اپنے قیام سے 1935تک یہ مختلف نوعیت کے انتشار کا شکار رہی۔اس نے سرمایہ داری کے ساتھ سامراجیت (امپیریلزم ) کا بیانیہ تو ضرور تشکیل دیا،مگر ہندوستان کے قومی سوال پر کوئی واضح قومی موقف اختیارکرنے میں ناکام رہی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ 1940کی دہائی تک کمیونسٹ پارٹی نوآبادت کے بارے میں اسٹالن کی سوچ اور پالیسیوں کی اسیر رہی۔لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ پارٹی برطانوی ہند کے بارے میں قومی سوال میں توازن پیدا کرنے میں ناکام رہی۔ حالانکہ سامراجیت کے بارے میں اس کے نظریات کانگریس سمیت ہندوستان کی دیگر قوم پرست جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ جارحانہ رہے تھے۔ یوں مسلمانوں سمیت مختلف مذہبی، لسانی اور قومیتی اقلیتوں کواپنی جانب بھرپور انداز میں متوجہ کرنے میں ناکام رہی۔حد یہ ہے کہ دلت( شیڈولڈ کاسٹ ) بھی اس کی جانب خاطر خواہ انداز میں متوجہ نہیں ہوسکے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کانگریس اور مسلم لیگ کو عوام کو اپنے اپنے حق میں متحرک کرنے کیلئے کھلا میدان مل گیا۔
دراصل کمیونسٹ پارٹی آف انڈیافکری طورپر توانا ہونے کے باوجود عملی محاذپراس کی ناکامی کاسبب یہ تھا کہ اس نے بین الاقوامی اور قومی معاملات اور سوالات کو گڈمڈ کردیا تھا۔ حالانکہ ہر ملک بالخصوص نوآبادیات کے اپنے معروضی حالات ہوتے ہیں،جن کوسمجھنا اور آفاقی فکری نظر یات اور اصولوں سے ہم آہنگ کرنا کمیونسٹ پارٹی جیسی نظریاتی سیاسی جماعت کے فکری حلقوں کی ذمہ دمہ داری ہوتی ہے۔چونکہ تجزیاتی محاذ کمزور تھا،اسلئے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سے دوسری عالمی جنگ کے دوران بعض انتہائی فاش غلطیاں سرزد ہوئیں،جن کے بھیانک اور دور رس اثرات مرتب ہوئے۔
انہی غلطیوں میں سے ایک فاش غلطی یہ تھی کہ 22جون1941کوجب نازی جرمنی نے سوویت یونین پر حملہ کیا ،تو وہ اتحادی فوج کے ساتھ شامل ہوگیا۔ یہ یورپ میں ہونے والی جنگ کے حوالے سے سوویت ریاست کا تزویراتی (سٹریٹجک) فیصلہ تھا،جس کا مقصد نازی جرمنی کے بڑھتے قدموں کو روکنا تھا۔جبکہ برصغیر میں معاملات و مسائل بالکل مختلف تھے۔ یہاں انگریز بصورت سامراج پوری ریاست پر قابض تھااور ہندوستانی عوام اس غاصبانہ قبضہ سے چھٹکارا حاصل کرنے کی جدوجہد میں تھے۔ اس لیے سوویت یونین کے ریاستی فیصلوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔
اس کے برعکس کانگریس نے جنگ دوران انگریز حکمرانوں کی کمزوریوں سے بھرپورفائدہ اٹھایا۔کانگریس نے 1942 میں ترک موالات کی تحریک شروع کردی۔ مسلم لیگ بھی مسلمان ریاست کے قیام کیلئے فعال ہوگئی۔ ایک ایسی صورتحال میں جب آزادی کی تحریک تیز ہورہی تھی اورکمیونل اختلافات کو دانستہ ہوادی جارہی تھی، کمیونسٹ پارٹی کی ذمہ داری تھی کہ وہ تیسرا متبادل نقطہ نظر پیش کرے ۔مگر سی پی آئی (کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا )نے آزادیِ ہند کاکوئی قابل عمل کلیہ پیش کرنے کی بجائے جنگ کے آخری برسوں میں فیض احمد فیض مرحوم سمیت کئی بڑے مارکسی دانشوروں کو برطانوی فوج کے شعبہ اطلاعات میں ملازمت کیلئے بھیج دیا۔اس کے بعد انیس ہاشمی مرحوم سمیت ان گنت مسلمان کمیونسٹ کارکنوں کو آل انڈیا مسلم لیگ میں بھیج کرخوداپنے ہی نظریات اور فکری رجحانات پر کاری ضرب لگالی۔لہٰذااس پر لگنے والے اس الزام میں وزن معلوم ہوتا ہے کہ سی پی آئی سوویت یونین کی ریاستی پالیسیوں کے دفاع جیسی غلط حکمت عملیوں کے باعث ہندوستان میں دانستہ یا نادانستہ طورپر برطانوی استعمار کی معاون بن گئی۔
نومبر1947میں انجمن ترقی پسند ہند کے سربراہ سجاد ظہیر کو کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کاآرگنائزربناکر بھیج دیا۔ اس فیصلے میں دو بنیادی خامیاں تھیں۔ اول، سجاد ظہیرپارٹی کی علمی وادبی شاخ یعنی انجمن کے سربراہ تھے، وہ فعال سیاسی کارکن نہیں تھے،جو کارکنوں کوعوامی سطح پرمنظم کرتے۔دوئم، وہ اس خطے (مغربی پاکستان) کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی پس منظرکے بارے میں واجبی سا علم رکھتے تھے۔جبکہ موجودہ خطے میں دادا منصور، مرزا ابراہیم، میاں افتخار الدین جیسی شخصیات موجود تھیں۔
اس کے باوجود کہ سجاد ظہیر ایک دانشور تھے، انہوں نے کمیونسٹ پارٹی کو اس خطے میں منظم کرنے کی اپنی سی بھر پور کوشش کی۔ لیکن پاکستان جن حالات میں معرض وجود میں آیا تھا اور جو عالمی مفادات اس کے قیام کے پس پشت کارفرماتھے،وہ کمیونسٹ پارٹی کی آزادانہ سرگرمیوں کی راہ میں بڑی رکاوٹ تھے۔ لہٰذا وہی ہوا، جو کہ ایسے حالات میں ہوا کرتا ہے۔ یعنی پہلے راولپنڈی سازش کیس میں ملوث کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلا گیا، پھر پارٹی کے ساتھ انجن ترقی پسند مصنفین اور طلبہ تنظیم ڈیموکرٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی بے بصیرتی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے تقسیم ہند کی حمایت اورکمیونسٹوں کو ہندو اور مسلمانوں میں تقسیم کرتے وقت یہ سوچنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی کہ اس فیصلے کے نتیجے میں کمیونل ازم اپنے عروج پر پہنچ جائے گا اور قتل و غارت گری کو روکنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ تاریخ نے دیکھا کہ کانگریس اور مسلم لیگ کی ہٹ دھرمی اور کمیونسٹ پارٹی کی غیر ذمہ داری کے باعث پورا برصغیر آتش فشاں بن گیا۔ لاکھوں لوگ لقمہ اجل ہوئے،اس سے زیادہ تعداد میں بے گھر ہوئے جبکہ اربوں روپئے مالیت کی املاک برباد ہوئی۔
اس نقصان کی ذمہ داری قبول کرنے کو نہ آل انڈیا مسلم لیگ تیار ہے،نہ انڈین نیشنل کانگریس اور نہ ہی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا۔ کمیونسٹ پارٹی کے ذمہ داران یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ 1948میں ہونے والی کانگریس میں پارٹی نے وہ فیصلہ واپس لے لیا تھا۔فیصلہ کب واپس لیا؟ جب تقسیم ہند کے نتیجے میں لاکھوں زندگیوں کے خاتمے اور کروڑوں روپے مالیت کی املاک کے نقصان اور لاکھوں افراد کے بے گھر ہوچکے تھے۔کیا تقسیم کا فیصلہ اس وقت لینا مضحکہ خیز نہیں ، جب سب کچھ لٹ لٹا گیا۔
اب دوسری طرف آئیے۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنی پوری تحریک برٹش انڈیا کے ان صوبوں میں چلائی،جہاں مسلمان اقلیت میں تھے۔مسلم اکثریت والے صوبوں میں یہ تحریک1946تک کوئی خاطر خواہ مقبولیت حاصل نہیں کرسکی تھی،ماسوائے بنگال۔ جس کا معاملہ متحدہ ہندوستان کے دیگر صوبوں سے قطعی مختلف تھا۔ بنگال کی سیاست پر ایک مکمل اظہاریہ کی ضرورت ہے۔بہر حال یہ بات مسلم لیگی قیادت کو سمجھناچاہئے تھی کہ اگر ان کے مطالبے پر تقسیم ہند ہوجاتی ہے،تو سب سے زیادہ مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمان ہوں گے۔ مگر 1940سے1947تک اس پہلو پر توجہ دینے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت آگ وخون سے گذرکر ہوئی۔
چونکہ ہجرت آل انڈیامسلم لیگ کے ترجیحی ایجنڈے میں نہیں تھی،اس لیے اس حوالے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ملک کادارالحکومت کراچی قرار پایا تھا،لہٰذا مسلم اقلیتی صوبوں کے اربن علاقوں سے ہونے والے مہاجرین کا رخ کراچی اور سندھ کے شہروں کی طرف ہوگیا۔جس کے نتیجے میں سندھ کا آبادیاتی (ڈیموگرافک) منظر نامہ تبدیل ہونے گا جو اہل سندھ کیلئے تشویش کا باعث تھا۔ سندھیوں نے بمبئی پریسیڈنسی سے علیحدگی کیلئے 90برس تک اپنے تاریخی، ثقافتی اور لسانی بااختیاریت کیلئے کامیاب جدوجہد کی تھی۔ پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ بھی اسی خود مختاری کے تحفظ کی خاطر کیا گیاتھا۔
مگر پاکستان کے قیام کے بعد سندھیوں کو پاکستان کی شکل میں ایک نئی بمبئی پریسیڈنسی میں پھنس جانے کا احساس ہوا۔ دوسری طرف بنگالی مسلمان جو1905میں تقسیم بنگال کی تنسیخ سے پریشان تھے ،وہ پاکستان کو ایک ایسا وفاق سمجھ رہے تھے، جہاں انہیں اپنے پورے تاریخی، ثقافتی اور لسانی تشخص کے ساتھ سیاسی بااختیاریت کی امید تھی۔ بلوچستان اور پختونخواہ پاکستان میں شامل ہونے پر آمادہ نہیں تھی۔ جبکہ پنجاب کی اسمبلی نے سب سے آخر میں پاکستان کے حق میں فیصلہ دیاتھا۔
پاکستان کو قیام کے فوراً بعد ہی وفاق کی بجائے ایک وحدانی ریاست بنانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ سب سے پہلے اردو کو قومی زبان بنانے کا یک طرفہ فیصلہ کرکے وفاقیت کی کمر میں پہلی چھری گھونپی گئی۔ اس کے بعد 1955میں ون یونٹ قائم کرکے رہی سہی کسر بھی پوری کردی گئی۔ جس سے پنجاب کے سوا کسی بھی صوبوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔
دوسری طرف ہجرت کرکے آنے والے جب تک اسٹبلشمنٹ کے آلہ کار بنے رہے،انہیں ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا جاتا رہا۔ لیکن جب انہوں نے اپنے حقوق کیلئے آوازاٹھائی،تو ان پر غداری اور ملک دشمنی کے الزامات عائد کردئیے گئے۔ یہ ایک طویل داستا ن ہے جس پر بنگال کی سیاست کی طرح ایک علیحدہ مکمل اظہارئیہ کی ضرورت ہے۔
♣
3 Comments