یہ ریاست ہے کہ بلیک ہول

آصف جاوید

یہ ریاست ہے کہ بلیک ہول! جو بھی ریاستی بیانئے کے خلاف آواز اٹھا تا ہےغائب ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں مہاجر اور بلوچ نوجوانوں کی ہزاروں کی تعداد میں گمشدگیوں کے بعد سوشل میڈیا بلاگرز کی گمشدگیوں یعنی غائب ہونے کا سلسلہ بھی تواتر سے شروع ہوگیا ہے۔ اب تک نو کی تعداد میں سوشل میڈیا بلاگرز کے غائب ہونے کی رپورٹ ملی ہے۔

قارئین اکرام یہ بلیک ہول کوئی تخیّلاتی وجود نہیں، بلکہ ایک مسلّم سائنسی نظریہ ہے۔ عظیم نظریاتی طبعیاتی سائنسداں داں اسٹیفن ہاکنگ کے مطابق بلیک ہول کائنات میں تاریک گہرائیوں کی مانند سوراخ ہیں جن کے اندر ایسی مقناطیسی کشش موجود ہے جو ہر چیز کو اپنے اندر کھینچ کر غائب کر دیتی ہے۔

اسٹیفن ہاکنگ کے نظریہ کے مطابق مادہ بلیک ہول میں جانے کے بعد ہمیشہ کے لئے غائب ہوجاتا ہے۔ ان کی اس تھیوری کے حساب سے بلیک ہول کی مقناطیسی کشش سے کوئی چیز نہیں بچ سکتی، یہاں تک کہ روشنی بھی نہیں۔ بلیک ہول میں جانے کے بعد روشنی بھی غائب ہوجاتی ہے۔

سٹیفن ہاکنگ کی اس تھیوری پر سائنسدان ہمیشہ فکرمند رہے ہیں کہ بلیک ہول میں جانیوالا مادہ آخر جاتا کہاں ہے؟ اس سوال کے جواب میں اسٹیفن ہاکنگ نے اس امکان کا اظہار کیا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ بلیک ہول میں جانے والا مادہ تباہ نہیں ہوتا ہو بلکہ کسی دوسری کائنات میں چلاجاتا ہو جو ہمارے قیاس سے بعید ہے۔

قارئین اکرام ، اسٹیفن ہاکنگ کی تھیوری کے تناظر میں پاکستان کی ریاست بھی کسی بلیک ہول سے کم نہیں ہے۔ جبری گمشدگیوں کے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق سنہ 2016 ء میں 728 پاکستانی شہریوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا جبکہ سنہ 2015 ء میں غائب ہونے والوں کی تعداد 649 تھی ۔

یہ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق ایک بڑی تعداد میں لوگوں کی رائے یہی ہے کہ انہیں ریاست کے عسکری اداروں نے ہی اٹھا کر غائب کیا ہے۔

اسی طرح بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے واقعات میں بھی ان گزشتہ پانچ سالوں میں تیزی آئی ہے ۔ انتہائی محتاط اندازے کے مطابق بلوچستان سے گذشتہ چھ سال میں ایک ہزار مسخ شدہ لاشیں مِلی ہیں۔ سنہ 1992 ء سے لے کر اب تک کراچی سے لاپتہ ہونے والے مہاجر نوجوانوں کی تعداد بھی ہزاروں میں بتائی جاتی ہے۔ مگر ظلم یہ کہ ان فاشسٹ اقدامات پہ سوائے چند لوگوں کے تقریباً پورا ملک خاموش تماشائی بنا ہوا ہے ۔ اور جو آواز اٹھاتے ہیں ، انہیں ریاست اٹھا لیتی ہے۔ پھر بلیک ہول میں غائب کردیتی ہے۔

اگر بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ انہیں ہیئت مقتدرہ کے پراسرار لوگوں نے نہیں اٹھایا تو سوال یہ ہے کہ امن و امان قائم کرنے کی ذمہ داری کس کی ہے ؟ 2016 میں جن 728 افراد جبکہ 2015 میں 649 افراد کو لاپتا کیا گیا ان کے ورثاء کہاں جائیں اور کس سے انصاف طلب کریں ؟ ایک بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ وہ ریاست جو جان و مال کا تحفظ یقینی نہیں بنا سکتی۔ اس کے وجود کا آخر کیا اخلاقی جواز باقی رہتا ہے ؟

گذشتہ دو برسوں سے نافذ العمل نیشنل ایکشن پلان کے تحت حاصل خصوصی اختیارات کے تحت ریاستی اداروں کو اپنے مخالفین (جن کو دہشت گردوں کا نام دیا جاتا ہے) سے نمٹنے کے لیے پروٹیکشن آف پاکستان ایکٹ کے تحت لا محدود اختیارات بھی حاصل ہیں۔آئین میں متفقہ اکیسویں ترمیم کے تحت دو برس کے لیے فوجی عدالتیں بھی قائم کی گئی تھیں جن کی میعاد پچھلے دنوں ختم ہوئی ہے۔

فوجی عدالتوں اور دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کے ہوتے ، اور سائبر کرائمز کنٹرول قانون بنانے کے باوجود اتنی جبری گمشدگیوں کی آخر کیوں ضرورت پیش آئی ہے۔ اگر کوئی دہشت گرد یا سہولت کار ہے تو پھر اسے باقاعدہ حراست میں لے کر خصوصی یا فوجی عدالت کے روبرو پیش کرنے میں کیا آئینی یا اخلاقی رکاوٹ ہے ؟ گمشدہ افراد کو عدالت میں کیوں پیش نہیں کیا جاتا؟ کیا ریاست کو اپنی عدالتوں پر اعتماد نہیں ہے؟

یہیں سے یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ ریاست نے نے ایسے حالات ہی کیوں پیدا کیے ہیں جو لوگوں کو اپنی شناخت چھپاکر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا رُخ کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ریاست کا حال یہ ہے کہ جہاں ریاست نے ایک طرف الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر یک رخی بیانیہ یعنی (اسلام، پاکستان، اور بوٹ پرستی ) کو رواج دیا ہے وہاں ریاست دوسری طرف متبادل بیانیہ کے لیے جگہ دینے اور اسے برداشت کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے ۔

ریاستی پالیسوں سے اختلاف رکھنے والوں اور ان پر تنقید کرنے والوں پر ریاستی گماشتے غداران وطن کا لیبل چسپاں کردیتے ہیں۔ یا پھر صدائے احتجاج بلند کرنے والوں کو توہین مذہب کا مرتکب قرار دے دیا جاتا ہے۔ اوریا مقبول جان اور لال ٹوپی والے بندر کو میڈیا میں اِس ہی کام کے لئے بٹھایا گیا ہے۔

ظلم و جبر کے خلاف، انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف، زندہ قومیں خاموش نہیں رہتیں بلکہ احتجاج کرتی ہیں۔ قومیں نغموں سے نہیں بلکہ احتجاج سے بنتی ہیں۔ اور ہم زندہ قوم ہیں۔ بلیک ہول ریاست، احتجاج کرنے والے انسانوں کو تو غائب کرسکتی ہے، مگر جذبوں کو نہیں۔ کیونکہ جذبات غیر مرئی ہوتے ہیں۔

بس یہی ریاست کو بتا نا تھا۔ ؔشاید کہ اتر جائے ، تیرے دِل میں میری بات۔

4 Comments