اینڈرسن شاہ
دینِ اسلام کبھی بھی اتنی منافع بخش تجارت نہیں رہا جتنا کہ آج ہے، مولویانِ اسلام نے دین کے نام پر کبھی اتنی دولت نہیں کمائی جتنی کہ آج کما رہے ہیں، مولویوں کے فتاوی کی کبھی اتنی اشد ضرورت نہیں تھی جتنی کہ آج ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جامعہ ازہر نے فتاوی دینے کے لیے ایک ہاٹ لائن بنا رکھی ہے۔ اسلام میں کبھی اتنے فتاوی صادر نہیں ہوئے جتنے کہ اب ہو رہے ہیں، عالمِ اسلام میں دینی مدارس کا پھیلاؤ ماضی میں کبھی اتنا نہیں تھا جتنا کہ آج ہے، اسلامی ممالک کی جامعات سے اسلامیات پر ایم اے، ماسٹر اور پی ایچ ڈی کرنے والوں کی تعداد ماضی کے مقابلے میں کئی سو گنا زیادہ ہے۔
تبلیغ بھی ماضی کے مقابلے میں زوروں پر ہے، تاریخ میں کبھی بھی اسلامی دنیا کی سیکولر ونیم سیکولر قوتیں اسلام کے مولوی طبقے سے اس قدر خائف نہیں تھیں جتنا کہ آج خائف ہیں، پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا، دینی تعلیمات کے لیے صفحات کے صفحات اور گھنٹوں پر محیط ٹی وی پروگرام جس قدر آج وقف کیے جارہے ہیں اس کی کہیں نظیر نہیں ملتی، اور جس قدر آج مولوی طبقہ دہشت گردی کی سرِ عام حمایت کر رہا ہے بلکہ دہشت گرد پیدا بھی کر رہا ہے۔
دین کے نام پر اس منظم عالمی دہشت گردی کی بھی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی بلکہ ایسا جہاد کرنے والے کو شیخ الاسلام ، مجاہد اکبر اور شیخ المجاہدین جیسے القابات سے نواز ا جاتا ہے۔ اور سرِ عام ان جیسوں کے حق میں دعائیں کی جاتی ہیں کیونکہ ایسے لوگوں نے ہزاروں مسلمانوں، عیسائیوں، یہودیوں، ہندؤوں اور کرہ ارض کے دیگر تمام مذاہب کے ماننے والے بے قصور لوگوں کا خون بہانے کا نیک کام کیا ہوتا ہے، ایسی ننگ دینی کی بھی تاریخ میں شاید ہی کوئی نظیر ملتی ہو۔
ایسے میں کیا ہم یہ کہنے میں حق بجانب نہیں ہوں گے کہ مسلمانوں کا دماغ خراب ہوگیا ہے؟ آج کے عالم اسلام میں مولوی کو فرسٹ مین کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے، اس کا مقام بلند ہے، اس کی بات حتمی ہے، اور اس کا خطبہ اور منبر دونوں کلیدی حیثیت کے حامل ہیں، مولوی کے منہ سے نکلے ایک لفظ پر کوئی سڑک بلاک کردی جاتی ہے اور کوئی کھول دی جاتی ہے، کوئی اخبار بند ہوجاتا ہے اور کوئی چیف ایڈیٹر فارغ کر دیا جاتا ہے کسی ادیب و شاعر کی کتابیں جلا دی جاتی ہیں، کسی کو ملک بدر کر دیا جاتا ہے تو کسی کو توہینِ رسالت کی آڑ میں نامعلوم انجام کی طرف ۔دھکیل دیا جاتا ہے۔
آج مولوی ٹی وی پر بیٹھ کر دھمکیاں دیتا، جہاد کا اعلان کرتا اور کفر کے فتوے دیتا ہے مگر کسی میں ہمت نہیں کہ اس کے خلاف ایک لفظ بھی بول سکے۔ مولوی لوگوں کی ذاتی زندگی کی ہر ہر بات میں مداخلت کرتا ہے، وہ زبردستی گھروں میں گھس سکتا ہے، زبردستی تلاشی لے سکتا ہے، گھر کے مالک کو زبردستی جیل بھجوا سکتا ہے، اس پر زبردستی کفر کا فتوی لگا سکتا ہے، عورتوں کے منہ پر زبردستی تھوک سکتا ہے، ان پر زبردستی عریانت وفحاشی کا الزام لگا سکتا ہے، اور یہ سب کرنے کے لیے اسے کسی سے کسی بھی طرح کا کوئی بھی اجازت نامہ لینے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔
مسلمانوں کی عقلی نا پختگی اور علمی جہالت کی وجہ سے مولوی کو فرسٹ پالیٹیشن کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے، کیونکہ جیسے ہی قرآن کو اوپر اٹھایا جاتا ہے دوسری تمام کتابیں زمین پر گرا دی جاتی ہیں اور انہیں پیروں تلے روند دیا جاتا ہے جیسے ہی “اسلام ہی حل ہے” کا نعرہ بلند ہوتا ہے تو دوسرے تمام علمی، سیاسی، اقتصادی، معاشرتی اور ثقافتی نعروں کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔
ہزاروں سال پہلے جب مذاہب آئے، تو انسان اپنی جہالت اور معارف کی شدید کمی کی وجہ سے لاکھوں سوالوں کے جوابات کی تلاش میں سرگرداں تھا مگر اسے جواب نہیں مل پاتا تھا لہذا وہ مُسبب الاسباب کو کسی پوشیدہ قوت کی طرف موڑ دیتا تھا۔
علم کی ترقی اور صدی در صدی انسانی عقل کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ بے جواب سوالات کی تعداد کم ہونے لگی اور لاکھوں سے ہزاروں میں سمٹ آئی، آج کے ترقی یافتہ دور میں جہاں علوم کی ترقی اور عقلِ انسانی کا ارتقاء نقطہء عروج پر ہے یہ ہزاروں سوالات اب سینکڑوں میں سمٹ آئے ہیں، وہ قدرتی مظاہر بھی اب سکڑتے چلے جا رہے ہیں جن کی ماضی میں انسان کے پاس کوئی معقول توجیہ نہیں ہوتی تھی، علم اور انسانی عقل کا ارتقاء اب بھی جاری ہے اور آگے چل کر ہمیں باقی ماندہ سوالوں کے جوابات بھی مل جائیں گے۔
جدید دور میں انسانی عقل خاص کر مغربی عقل کا کمال یہ ہے کہ اس نے غیبیات کو زیادہ اہمیت نہیں دی، بلکہ سوچ، تحقیق، ایجاد اور ہر اس چیز پر توجہ مرکوز رکھی جو انسان کی زندگی کو آسان بناتی ہو اور اس کی مشکلیں آسان کرتی ہو۔
مثال کے طور پر اعلی انسانی دماغ نے آسمانوں کی تعداد کی چنداں فکر نہیں کی کہ یہ سات ہیں، آٹھ ہیں یا چھ، اس کی بجائے اس نے اڑنے کی ٹیکنالوجی (ایروناٹیکلز) پر توجہ دی اور زیادہ سے زیادہ محفوظ اور ضخیم جہاز تیار کیے۔اعلی انسانی دماغ نے جنوں کے معاملات کو کوئی اہمیت نہیں کہ یہ موجود ہیں یا نہیں؟ اور کیا ان کے مردوں یا عورتوں سے شادی کی جاسکتی ہے؟ جائداد کس طرح تقسیم ہوگی؟ وغیرہ، ایسی خرافات کی بجائے جو فضول ولا حاصل بحث پر منتج ہوتی ہیں اور انسانی توانائیاں اور وسائل ضائع کرتی ہیں اعلی دماغوں نے انسان کی زندگی کو آسان بنانے پر توجہ دی اور اس مقصد کے حصول کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔
ایسے عظیم دماغ عورت کی شکل و صورت اور خصوصیات کی فضول بحث میں نہیں پڑے کہ اسے کیا پہننا چاہیے اور کیا نہیں، اور اس کے جسم کا کون سا حصہ ظاہر ہونا چاہیے اور کون سا نہیں، اسے مردوں سے کس طرح بات کرنی چاہیے اور کن چیزوں سے اجتناب برتنا چاہیے، نا ہی عورت پر صدیوں پرانی معاشرتی اور اخلاقی اقدار تھوپنے کی کوشش کی جو آج 180 درجے تبدیل ہوچکی ہیں۔
ایسی فضولیات کی بجائے اعلی دماغوں نے عورت کی تعلیم وتربیت اور اس کی ترقی کے بارے میں سوچا تاکہ وہ معاشرے میں ایک اعلی مقام حاصل کر سکے، اسے اس کے جسم اور معاملات دونوں کی آزادی دی کہ یہ دونوں اسی کی ملکیت ہیں اور صرف اور صرف وہی ان کے حق میں بہتر فیصلہ کر سکتی ہے اور کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اسے ان معاملات میں ڈکٹیٹ کرے جو خالصتاً اس کے ذاتی معاملات ہیں۔
اس کے برعکس مولویانِ اسلام عورت نامی اس عجیب وغریب مذموم ومردود وناپاک مخلوق کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہیں اور اس سوچ میں ہلکان ہیں کہ ایسا کوئی طریقہ ایجاد کیا جائے جس سے خدا کو بھی یہ پتہ نہ چل سکے کہ اس اسلامی معاشرے میں عورت نامی کوئی مخلوق بھی پائی جاتی ہے۔۔۔ کبھی اس سے حجاب ونقاب کا مطالبہ کرتے ہیں، کبھی اسے گھر میں قید کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ زنا سے بچنے کے لیے کسی غیر محرم کو اپنا دودھ پلائے،۔
الغرض کہ اس ضمن میں روزانہ کی بنیاد پر فتاوی جاری کیے جاتے ہیں جن کے سوالات اپنی جہالت کی وجہ سے خود مسلمان عورت ہی پوچھ رہی ہوتی ہے جن کا تعلق اس کی زندگی کی فضول ترین تفصیلات سے ہوتا ہے، اس سے اگر کوئی بات سامنے آتی ہے تو وہ یہ ہے کہ مسلمان مرد وعورت اب بھی جاہل ہیں اور انہیں اپنی زندگی گزارنے کے لیے مولویوں کی رہنمائی اور فتاوی کی اشد ضرورت ہے، اسلامی معاشروں میں دینی فتاوی ایک ضرورت بن گئے ہیں جن کے بغیر معاشرہ بکھر جائے گا، زندگی گزارنی مشکل ہوجائے گی اور سب برباد ہوجائیں گے۔
یہی وجہ ہے کہ ٹی وی چینلوں کے مختلف النوع اور طویل دینی پروگراموں میں ہمیں عورت کا حیض، حجاب، میک اپ، کپڑے، نکاح، ختنہ جیسے مسائل چھائے نظر آتے ہیں، اور مولوی حضرات ایسے گھٹیا فتاوی دے کر مال بناتے ہیں، عورت کے ختنہ کا مسئلہ تو فقہائے اسلام کی خصوصی توجہ کا مرکز بنا رہا اور آج بھی ایسا لگتا ہے جیسے عالمِ اسلام میں عورت کے ختنہ سے بڑا مسئلہ شاید ہے ہی نہیں۔
یوں اسلامی معاشروں میں عورت فوبیا نامی مرض نے جنم لیا یعنی عورت کا خوف اس لیے نہیں کہ وہ کوئی گوشت خور جانورہے۔ جو اپنے نزدیک آنے والے کسی بھی مرد کے چیتھڑے اڑا دے گی، بلکہ اس لیے کہ مولویانِ اسلام کی سرپرستی میں اس کے گرد محرمات اور انتباہات کا ایک طویل سلسلہ گردش کرتا ہے اور عورت کے شر سے بچنے کی ترغیب دیتا ہے کوئی اسے نجس مخلوق قرار دیتا ہے لہذا اس کے نزدیک جانے اور اس سے بات کرنے سے منع کرتا ہے، اس کی ذات، اس کی عقل اور معاشرے میں اس کے اہم کردار کی نفی کی جاتی ہے۔
اس کا منطقی نتیجہ مسلمان مردوں میں ایک نفسیاتی خبط کی صورت میں سامنے آیا اور “جنس کا خبط” اور اس سے محرومی سوائے مخصوص معاشرتی فریم کے ایک ایسا مرض بن گیا جس کا ہر مسلمان مرد شکار نظر آتا ہے، کیونکہ اگر مرد وعورت مل جائیں تو عورت سوائے ایک فوری جنسی ہدف کے اور کچھ ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ ان کے بیچ تیسرا شیطان (جنس) آجاتا ہے، اس طرح مسلمان مرد اتنی ساری جنسی محرومی کے بعد جب بھی عورت کو دیکھتا ہے تو صرف اس کی شرمگاہ کے بارے میں ہی سوچتا ہے، چاہے وہ سکول ہو، یونیورسٹی ہو، فیکٹری ہو، دفتر ہو، کھیت ہو، ٹرین ہو یا سڑک ہو، مسلمان مرد کو عورت میں ہمیشہ ایک شرمگاہ ہی نظر آتی ہے اور وہ اس سے زیادہ سوچ ہی نہیں سکتا۔
وہ شمال سے جنوب، اور مشرق سے مغرب تک جنس کی خاطر عورت کا پیچھا کرتا رہتا ہے، اس کی زندگی کا زیادہ تر حصہ اسی تعاقب میں گزر جاتا ہے، جنس کی اس محرومی نے مسلمان مردوں میں جنسی حدت کو جنم دیا، یہی وجہ ہے کہ مسلم ممالک میں آبرو ریزی اور جنسی ہراسمنٹ کے واقعات آسمانوں کو چھوتے نظر آتے ہیں۔
مختلف سروے بھی یہی بتاتے ہیں کہ انٹرنیٹ پر زیادہ تر مسلمان ،حسیناؤں، جنسی امور اور جنسی محرومی جیسے موضوعات ہی تلاشتے نظر آتے ہیں، انٹرنیٹ پر پورن کی تلاش میں پاکستان سرِ فہرست ممالک میں شامل ہے جبکہ جنسی ہراسمنٹ میں خلیجی ممالک اور مصر کا کوئی مقابلہ نہیں، اس ساری اخلاقی گراوٹ کی وجہ جنس پر مذہب کا تسلط ہے۔
بشکریہ: جرات وتحقیق