لاہور نئی انار کلی میں قطب الدین ایبک کے مزار کی طرف مڑنے سے ذرا پہلے واقع ایک فلیٹ میں طویل عرصہ تک مقیم پرانا کمیونسٹ مزدور راہنما روزی خان اپنی نظریاتی سرحدوں کا تحفظ کرتا کرتا آخر اب اپنے خالق حقیقی سے جا ملا ہے۔میں ناسازی طبیعت کی بنا پر خان صاحب کی نماز جنازہ نیں شرکت نہیں کر سکا۔۔ جسکا دکھ مجھے ہمیشہ رہے گا۔۔ مگر میری سرخ آنکھیں اس بات کی گواہ ہیں کہ روزی خان تمہاری یاد میں یہ کس قدر کھل کر برسی ہوں گی۔
میں روزی خان کو ایک طویل عرصے سے جانتا تھا۔اس کا تعلق سوات سےتھا مگر وہ لاہور میں بائیں بازو کی سرگرمیوں کی جان تھا۔ ایک وقت تھا جب لاہور کی سیاسی سرگرمیوں کی آماجگاہ روزی خان کی رہائش گاہ ہوا کرتی تھی۔۔ معراج محمد خان، سید اقبال حیدر ، پرویز رشید ، طارق عزیز اور میرے بابا سمیت شاید کئی درجن ایسے سیاسی کارکن اور پرانے سرخے آج بھی حیات ہیں جو روزی خان کی رہائش گاہ ہر لمبی لمبی نشستیں کر چکے ہیں۔۔
روزی خان جب منٹگمری جیل میں سیاسی اسیر تھا تو اسی ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ضمیر کا قیدی قرار دیا۔۔ اس نے اپنی جدوجہد سے ثابت کیا کہ وہ محض زبانی کلامی مزدوروں اور محنت کشوں کا ہمدرد نہیں ہے بلکہ عملی طور پر وہ ان کے لیے زندہ تھا۔۔ روزی خان نے طویل عرصہ تک شادی محض اس لیے نہیں کی تھی کہ وہ اپنی زندگی کمیونزم کیلئے وقف کر چکا تھا۔۔
وہ 45 سال سے زیادہ کا ہوا اور پے درپے سیاسی ناکامیاں اور روزی خان کے سیاسی دوستوں کا جو کہ سیاسی بھگوڑے بن چکے تھے اور دیگر پارٹیوں سے وابستہ ہورہے تھے اور ان سا تھیوں کی سیاسی بے وفائی نے اسے بھی مجبور کیا کہ وہ اب اپنے مستقبل کی فکر کرے۔۔ مگر جب اسے فکر لاحق ہوئی تب تک وہ وقت اور پیسہ دونوں سے بہت آگے نکل چکا تھا۔
روزی خان نے چونکہ ہمیشہ مزدورں ، محنت کشوں اور عام لوگوں کیلئے جدوجہد کی۔ لہذا اسے محنت میں کبھی بھی کوئی عار محسوس نہیں ہوئی۔۔ روزی خان کا سب سے بڑا المیہ یہ تھا کہ اسے سیاست اور سیاسی جدوجہد کے علاوہ کچھ آتا ہی نہ تھا۔۔ سیاست پر تو قبضہ پہلے ہی مفاد پرستوں ، فصلی بٹیروں، رسہ گیروں، چوروں ، اچکوں ، خوشامدیوں اور غیر سیاسی لوگوں کا ہو چکا تھا۔ لہذا روزی خان نے نئی انار کلی میں ہی قلم بیچنے کا ذمہ اٹھا لیا۔۔ وہ قلم بیچتا۔۔ لوگوں کو علم کی طرف راغب کرتا ۔۔ انہیں سیاسی شعور دیتا اور ان کی مدد بھی کرتا۔۔ میں کچھ ایسے پردہ نشینوں کو بھی جانتا ہوں جن کی علمیت روزی خان کے بیچے ہوئے قلموں سے قائم تھی۔۔مگر میں نے کبھی روزی خان کو اپنے احسانات گنواتے نہیں دیکھا۔ اکثر وہ سردیوں وہ دہی پکوڑیاں لگا لیتا اور گرمیوں میں شربت بیچنےلگتا۔
روزی خان کے فلیٹ میں جب پہلی دفعہ جانے کا اتفاق ہوا تو میں حیران رہ گیا ۔۔ اس کے پاس شاید ہزاروں ہی کتابیں تھیں ۔۔ پاکستاں میں چھپنے والی شاید ہی کوئی کتاب ایسی ہو گی جو روزی خان کے پاس نہ ہو۔ ہاں البتہ روزی خان کتاب دینے کے معاملے میں کافی رجعت پسند تھا۔۔ صاف انکار کر دینا وہ نسبتا آسان سمجھتا بجائے کتاب دے کر واپس مانگنے کے۔۔
قمر یورش کے علاوہ میں نے روزی خان کو کسی اور سے کتاب لیتے یا دیتے نہیں دیکھا۔۔ قمر یورش کی کل آمدنی ہی چونکہ کتابوں کی خرید و فروخت سے ہوتی تھی لہذاروزی خان اکثر و بیشتر اسے کئی کتابیں یہ کہہ کر دے دیتا کہ وہ اس کے کام کی نہیں۔۔ ایک دفعہ جب روزی خان نے ایک بیش قیمت کتاب قمر یورش کو یہ کہہ کر تھما دی کی بہت ہی عجیب کتاب ہے میرے بالکل کام کی نہیں ۔۔ تو میرے استفسار پر کہ اتنی مہنگی کتاب آپ نے فری میں کیوں دے دی۔۔ تو وہ بولے۔۔ بیٹا یہ اس کتاب کو بیچے گا تو ہی روٹی کھائے گا ؟ ویسے تو یہ کھا تا پیتا کچھ نہیں کسی سے۔۔ کیونکہ قمر یورش بہت خودار تھا وہ پیسے نہیں لیتا تھا لہذا روزی خان ہمیشہ اس کے آنے سے پہلے اس کی روٹی کا بندوبست کر کے رکھتا۔
اب روزی خان نہیں رہا۔۔ معلوم نہیں کس کس کی روٹی کا بندوبست بھی وہ ساتھ ہی لے گیا۔۔ کون کون اس عظیم خان کو روئے گا کون کون اس کی کمی محسوس کرے گا۔۔ کون کون سسکیاں لے کر اسے یاد کرے گا۔۔ آج کسی میڈیا پر اس کی موت کی خبر نہیں چلے گی کوئی چینل اس پر کوئی رپورٹ نہیں چلائے گا کہ ایک گمنام سیاسی کارکن اور پرانا کیمونسٹ بابا روزی خان زندگی کی بازی ہار گیا۔ مگر تاریخ اس اہم شخصیت کو کبھی نہیں بھولے گی۔
سلام روزی خان۔۔ مجھے پتہ ہے خدا تمہیں وہ ساری خوشیاں دے گا جو تم ا پنی زندگی میں زمیں زادوں کو دیتے رہے۔۔
♣
6 Comments