علی احمد جان
پیشہ آخر پیشہ ہوتا ہے۔اینکر ہو یا عالم ، صوفی ہو یا ملنگ پیشے سے محبت ہی جزو ایمان ہے چاہے پیشہ بیسوا کا ہو یا خطیب کا۔ گاہک تو آتے جاتے ہیں وہ تو تماش بین ہیں ، جو کل تھے آج نہیں اور جو آج ہیں کل نہیں ہونگے۔ اصل چیز تو پیسہ ہے جو پیشے کی برکت سے آتا ہے۔ پیسہ خیرات میں آئے یا زکوۃمیں تنخواہ ہو یا وظیفہ آتے تو کاغذی نوٹ ہی ۔ تشکیل ایمان بھی پیسہ ہے اور تکمیل ایمان بھی یہی تفصیل بھی اور اجمال بھی یہی ۔ اصول ، ضابطے اور قاعدے سب اچھے مگر بھاشن کے لئے اپنے لئے بس ایک ہی اصول پیشہ میرا پیسہ تیرا ، تو دام لگا میں کام لگا تا ہوں ۔
بنانا اور بناکر بگاڑنا اور بگاڑ کر پھر بنانا یہ کھیل ہے میرے پرکھوں کا۔ کل جن کو پیر و مرشد بنایا تھا آج ان کو نفس ناقص بنا دیا اور آج جن کو میں نابغہ روزگار کہتا ہوں وہ بھی مطلق نہیں ۔ دیکھا نہیں میں نے اس کو کیسے اس کو آمر سے امر کردیا ؟ کیا کسی نے محسوس بھی کیا ؟ نہیں نا تم بھی بھولے بادشاہ ہو یہاں لوگ اپنے بچوں کے نام یاد نہیں رکھتے کسی اور کو کیا یاد کریں گے۔ ویسے بھی جب باتیں تاریخ بن جاتی ہیں تو کون ثبوت مانگتا ہے سب اپنی اپنی نگاہ سے دیکھتے ہیں سو میں ان کو انکھیں دیتا ہوں روشنی نہیں۔
کل وہ میرے مائی باپ تھے، آج تو میرا بھائی ہے ، کل کا پتہ نہیں آج جن کو میں کوستا ہوں وہ سب بھی میرے دوست ہی تھے ۔ پر دھندے میں دوستی کیسی ، پیشے میں لحاظ کیسا بس ایک دعا کرنا کہ تو میرے سامنے نہ آئے میں تیرے ساتھ بھی وہی کرنے والا ہوں جو میں نے ان سب کے ساتھ کیا ہے۔ میں کسبی ہوں وہ بھی نسلی ۔ میں پیشہ ور ہوں اور سودا گر ہوں۔ میں کرتے بیچتا ہوں تو چھرے بھی بیچ سکتا ہوں ۔ میں اس کو بیچ سکتا ہوں تو تجھے بھی بیچ سکتا ہوں ۔
ہم کسی کی شوریٰ میں تھے تو کسی کے دربار میں ، کسی کے نور چشم تھے تو کسی کے لاڈلے ۔ کسی پیر کو سجدہ کرتے تھے تو کسی بھگوان کو پوجھتے تھے ، اور پھر منتر بدل دیا ان ہی پیروں کو اسی بھگون کو رسوا کیا ۔ ہم پیشہ ور دھرمی ہیں جو دھرم بدلتے رہتے ہیں منتر بدلتے رہتے ہیں۔ ہم ایسے گیانی ہیں کہ فرشتے ہر وقت ہمارے ساتھ رہتے ہیں۔ قدم قدم پر ان ہی کی راہنمائی ہے اور منزل منزل پر ان ہی کا کرم۔ مگر دوسروں کا ہر وقت ہم کرتے ہیں کریا کرم۔ بدلتے دھرم کا ، گزرے کرم کا سوچتے نہیں ہمیں تو بس فکر فردا رہتی ہے کہ کل کون سا دھرم ہوگا اور کونسا منتر۔ اس میں بھی ہمیں فکر کیوں ، فرشتے ہمیں بتا دیں گے کہ کس کو پوجنا ہے کس کو دبوچنا ہے۔
شرم ، حیا اور تاسف یہ الفاظ ہی نہیں یہ دھوکہ ہیں ۔ سراب ہیں جو عام لوگ بار بار کھاتے ہیں ۔ ہم جب چہرے پر داڑھی سجاتے ہیں، سرخی پاؤڈر لگاتے ہیں اور قبلہ رخ ہوتے ہیں تو ہمیں بس اپنی منزل ہی نظر آتی ہے پہاڑوں کی چٹانوں پر۔ سرخ ہرے نوٹوں کی لالی اور ہریالی بنگلے گاڑی کسی کے ہمارے ہوتے ہیں۔ جب وہ دلارے ہوتے ہیں ہمارے پیارے ہوتے ہیں۔ کوئی بھاڑ میں جاتا ہے یا چولھے میں ہمیں سروکار نہیں ، اپنے علاوہ کسی سے پیار نہیں ۔
تم کیا سمجھتے ہو کہ مجھے زنجیروں میں باندھ لوگے۔ میری زبان بند کر لوگے اور مجھے پابند کر لوگے۔ نہیں تمھاری خام خیالی ہے یہ تمھاری خوش فہمی ہے۔ میں نے جتنا کاٹنا تھا کات لیا تم سے پہلے بھی تم جیسوں نے یہ سوچا تھا مگر ہم ہر زنجیر توڑ کر آئے تھے کیونکہ ابھی کوئی دیوار ایسی بنی نہیں اور ایسی مہر لگی نہیں کہ جس کو توڑا نہ جائے جسے پھلانگا نہ جائے۔ یہ کچھ ہی دنوں کی بات ہے اس دوران میری شہرت اور بڑھ جائیگی میری طلب اور بڑھے گی۔ میرے چاہنے والے عشاق کے قافلے اور نکلیں گے جن کی راہ طلب سے ہر دیوار گرے گی ہر زنجیر ٹوٹے گی اور میں پھرواپس آؤنگا اور سب ایسا ہی چلے گا کیونکہ میں ایسی ویسی چیز نہیں میں نسبی کسبی ہوں اس لئے منصبی ہوں۔
♦