سوشل میڈیا میں سلمان حیدر کی واپسی کا خیر مقدم کیا جارہا ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ ان کی رہائی کے لیے لڑائی بھی سوشل میڈیا میں ہی لڑی گئی وگرنہ سیاستدان اور پارلیمنٹ نے خاموشی اختیار کیے رکھی۔
ذوالفقار زلفی لکھتے ہیں کہ
کامریڈ واحد بلوچ اغوا ہوئے۔ کچھ لوگ نکلے اور آواز اٹھائی۔ بالآخر بازیاب ہوکر آگئے۔
سلمان حیدر اغوا ہوئے۔ چیخ و پکار ہوئی، نتیجہ یہ کہ سلامت رہے۔ اچھی بات ہے ، خوش ہونا چاہیے…..لیکن
ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی “سمی بلوچ” اس وقت بالشت بھر کی تھی جب ان کے والد اغوا ہوئے آج وہ احتجاج کرتے کرتے جوان ہوچکی ہیں….والد تاحال لاپتہ ہیں۔
ذاکر مجید بلوچ کی بہن فرزانہ مجید بلوچ ریکارڈ توڑ لانگ مارچ کرنے کے بعد تھک ہار کر جلاوطن ہوگئیں….بھائی ہنوز گمشدہ
زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی پر لطیف بلوچ بھوک ہڑتال کرتے کرتے جاں بلب ہوئے مگر زاہد بلوچ کو نہ آنا تھا نہ آئے۔
شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی پر ان کی اہلیہ مشکے جیسے دور افتادہ گاؤں سے چل کر کراچی پہنچی….شریک حیات تو بازیاب نہ ہوئے البتہ انہیں احتجاج سے ضرور روکا گیا….شبیر بلوچ کہاں ہیں , معلوم نہیں۔
پرویز مشرف کے زمانے میں ایک علی اصغر بنگلزئی اغوا ہوئے تھے۔گورنر بلوچستان نے بازیابی کی یقین دہانی کرائی مگر عشرہ بیت گیا , وہ نہ آئے۔
عبدالغفور بلوچ ، رمضان بلوچ سمیت نجانے کتنے بلوچ میرے وطن سے اٹھا کر تہہ خانوں میں پہنچائے گئے۔
آج ایک دانشور فرمارہا ہے اب گمشدگی کا قصہ تمام ہوا گر تمام ہوا تو ہم کیوں ہنوز “لاپتہ” ہیں؟۔
آپ کی جنگ شاید ختم ہوچکی ہو ہماری تو جاری ہے….آخری مغوی کی بازیابی تک۔
سلمان حیدر صاحب آپ کو مبارک نئی زندگی،آپ نے ہمارے لیے آواز اٹھائی , ہماری خاطر دکھ جھیلے یقین مانیے ہم نے ایک لمحے کیلئے بھی آپ کو فراموش نہ کیا…..بلوچی میں کہتے ہیں “تاسے آپ ءَ سد سال وفا انت” یعنی کوئی کٹورا پانی پلائے تو سو سال تک اس کا وفادار رہو پھر آپ نے تو ہم پر جاں نچھاور کی۔
سلمان بھائی ! جنگ جاری ہے , بھولیے مت۔
میر کامران مگسی سلمان حیدر کی رہائی پر لکھتے ہیں کہ
خبر ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر سلمان حیدر خیر سے واپس آ گئے ہیں گزشتہ شب انہیں ریاستی ادارے کے اہلکار نے گھر چھوڑا اب یہ بات کسی سے
ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ ان کو کس نے اغوا کیا تھا مزید یہ کہ ان پر کسی قسم کا کوئی بھی مقدمہ قائم نہیں کیا گیا ان کی گمشدگی اور بازیابی نے کئی لوگوں کے کالے چہروں کو بے نقاب کیا ہے۔
عامر لیاقت قسمیں اٹھا اٹھا کر کہتا رہا کہ وہ اپنی مرضی سے انڈیا چلے گئے ہیں اور انڈین ادارے کی حفاظت میں ہیں پاکستانی ریاستی ادارے کے ذریعے سلمان حیدر کی واپسی پر ان کو بتانا چاہیے کہ کیا بھارتی اور پاکستانی ادارے مل کر کام کرتے ہیں۔
دس روپے میں امت بیچنے والے روزنامہ امت نے جب نامور علماء کرام کے نام سے سلمان حیدر پر جعلی فتوے چھاپے تو علماء کرام نے اسی دن تردید کر کے ان کے جھوٹ کا پول کھول دیا تھا مگر اخبار نے پھر بھی سلمان حیدر کو گستاخ مذہب اور غدار وطن پیجز کا ایڈمن بنا کر کردار کشی جاری رکھی۔ اب کیا وہ اپنے قارئین کو بتائیں گے ایسے غدار اور گستاخ کو بغیر کوئی مقدمہ قائم کیے کیوں چھوڑ دیا گیا۔
اپنے اوریا مقبول جان تو سب سے بازی لے گئے ان کے زہریلے پروپیگنڈے کے باعث تو ان گمشدگیوں کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے لئے بھی زمیں تنگ کر دی گئی لاہور میں سلمان حیدر کی بازیابی کے لئے ہونے والے مظاہرے میں پہنچ کر مذہبی جماعت کے کارندوں نے جس طرح ان بلاگرز کے خلاف نعرے لگائے اور جذبہ ایمانی کے تحت دھمکیاں دیں یہ انہی جھوٹی تہمتوں کا نتیجہ تھا مذہب کے ان ٹھیکداروں کو کوئی بتائے کہ اسلام میں تہمت لگانا اور افواہوں سے انتشار پھیلانا گناہ ہے۔
دوران گمشدگی سلمان حیدر کو گستاخ مرتد ملحد قراد دینے والے ان ڈھیٹ حضرات کو اب سانپ سونگھ گیا ہے سلمان حیدر واپس تو آ گئے ہیں مگر ان کی جان کو اب بھی خطرہ ہے اس زہریلے پروپیگنڈے کے زیر اثر کوئی جذباتی انسان کبھی بھی جذبہ ایمانی کا مظاہرہ کر سکتا ہے لہذا ان ڈھیٹ انسانوں کو چاہیے کہ بغیر ثبوت کردار کشی اور معصوم زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے پر یہ سلمان حیدر سمیت عوام الناس سے معافی مانگیں باقی جبری گمشدگی کی مذمت تو یہ مر کر بھی نہیں کریں گے
♦