ڈاکٹر عبدالسّلام، کائناتی بنیادی قوّتیں اور ذرّہِ خدائی

آصف جاوید

ڈاکٹر عبدالسّلام کا نام کسی تعارّف کا محتاج نہیں۔ سائنس کی دنیا جب بھی اپنے مشاہیر کا ذکر کرے گی تو ان کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر عبدالسّلام کا ذکر بھی کرے گی۔ ڈاکٹر عبدالسّلام، ایک مسلمان ، پاکستانی سائنسداں ، ریاضی داں اور نظری طبعیات کے جیّد عالم تھے، ڈاکٹر عبدالسّلام نے کائنات میں پائی جانے والی چار بنیادی قوّتوں میں ربط اور یکجائی  کا سائنسی نظریہ پیش کیا تھا، جس پر انہیں 1979 میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔

ڈاکٹر عبدالسلام نے کمزور نیوکلیائی قوّت اور برقی مقناطیسی قوّت کو ایک ہی قوّت کے دو رخ قرار دینے کا نظریہ پیش کیا تھا۔ یہ تھیوری پیش کرنے کے دس سال بعد 1979 میں ایک پارٹیکل ایکسلیریٹر میں پروٹان اور اینٹی پروٹان کے ٹکراؤ سے جو نتائج سامنے آئے تھے اس سے ڈاکٹر عبدالسلام کے نظریات کی تصدیق لیبارٹری میں تجرباتی طور پر بھی ہو گئی تھی۔ ڈاکٹر عبدالسلام کا نام سنہ 1975 ءمیں پہلی بار طبیعیات کے شعبے میں نوبل انعام کے لئے زير غور آیا تھا، تا ہم یہ انعام انہیں چار سال بعد دس دسمبر 1979ء میں دو ،دوسرے سائنسدانوں کی شراکت میں سویڈن کے بادشاہ کارل گستاؤ کے دستِ مبارک سے ملا تھا۔

دسمبر 1979 میں ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے، جناب ڈاکٹر عبدالسّلام نے ایک سوال کے جواب میں اپنے تحقیقی کام کو نہایت ہی سادہ اور آسان زبان میں اس طرح بیان کیا تھا۔

۔آج کے موجودہ وقت میں یہ سمجھا جا رہا ہے کہ کائنات میں چار بنیادی قوّتیں ہیں، جو اس کائنات کو چلا رہی ہیں۔ ہم نے اب تک کی تحقیق میں جو کیا وہ یہ ہے کہ، یہ قوّتیں چار نہیں، بلکہ صرف تین ہیں۔ یعنی کششِ ثقل کی قوّت، طاقتور نیوکلیائی قوّت، اور کمزور نیوکلیائی قوّت و برقی مقناطیسی یکجائیقوّت ۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ آگے چل کر ہم اِن کو مزید کم کرکے صرف دو کردیں گے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارا یہ نظریہ آگے آنے والے تین یا چار سالوں میں مزید تحقیق سے چیک کر لیا جائے گا، پھر دو قوّتوں میں سے بھی صرف ایک قوّت رہِ جائیگی، یہ ابھی ایک تخیل ہے، جس کے لئے ہم کوشش (تحقیق) کریں گے۔ آئن اسٹائن برقی اور مقناطیسی قوّتوں کو یکجا دیکھنا چاہتا تھا۔ اور مقناطیسی قوّت کو کششِ ثقل (تجاذبی قوّت) کے ساتھ یکجا کرنے کی کوششیں کررہا تھا۔ ہم نے آئن اسٹائن سے مکمّل طور پر ایک الگ راستہ اختیار کیا، اور کمزور نیوکلیائی قوّت کو برقی مقناطیسی قوّت کے ساتھ یکجا کردیا۔ اِس مرحلے کے بعد ہم آئن اسٹائن کی طرف لوٹ کر آئیں گے ۔

جب ڈاکٹر عبدالسّلام سے سوال کیا گیا کہ آپ تو انتہائی مذہبی انسان ہیں، اِس دریافت کے بعد کیا آپ کا خدا پر ایمان کم ہوا یا بڑھ گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بڑا منطقی اور مدلّل جواب دیا۔

۔یقیناً خدا پر میرا ایمان کم نہیں ہوا، مذہب ایک بنیادی چیز ہے، روحانی چیز ہے (انسانی علم، تجربہ اور دلیل کے دائرے سے بڑھ کر ہے) ، مذہب سائنس کی دسترس سے ماوراء ہے۔ یہ گمان کرنا کہ سائنسی تخلیقات، انکشافات، اور دریافتیں، مذہب کے بعض عقائد کی تائید کرتے ہیں، ایک مکمّل بے عقلی ہے، سائنس جیسی چھوٹی چیز مذہب کا احاطہ نہیں کرسکتی ہے۔ عربی زبان میں سائنس کے معنی علمکے ہیں ۔ دینی عالم اور مولوی ہرگز انبیاء کے علم کے وارث نہیں ہیں۔ ۔ سائنس دان حقیقت میں انبیاء کے ورثاء ہیں، کیونکہ سائنسدان اپنے علم ، مشاہدے اور تجربات کی بنیاد پر ، خدا کی کائنات، اُس کے کاموں، اور مظاہرِ فطرت ، سے بہت زیادہ گہرائی میں واقف ہیں۔

ڈاکٹر عبدالسّلام کے علمی کام کا جدید سائنس پر جو قرض ہے، اُس کا اعتراف عہدِ جدید کے عظیم سائنسداں اسٹیفن ہاکنگ نے اپنی کتاب اے بریف ہسٹری آف ٹائم میں کیا ہے۔ سائنسدانوں کے نظریہ وحدت (سائنسی معنوں میں) کے مطابق اوّل اوّل کائنات ایک بند نقطے کی مانند تھی۔ لمبا عرصہ گذرنے کے بعد بِگ بینگ دھماکے کے نتیجے میں مادّہ وجود میں آیا۔ سائنسداں ہگز بوسن کے مطابق اس وقت بنیادی ایٹمی ذرّات وجود میں آئے تھے۔ آگے چل کر سائنسدانوں نے اُن میں سے ایک ذرّے کا نام ہگز بوسن رکھ دیا۔ ان بنیادی ذرّات نے ہی مادّے میں کمیت پیدا کی، اور فوراتحلیل ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر مادے میں کمیت پیدا ہونے کے نتیجے میں کائنات کی چار معروف قوّتیں نمودار ہوئیں۔کششِ ثقل یعنی تجاذبی قوّت ، برقی مقناطیسی قوّت ، کمزور نیوکلیائی قوّت اور طاقتور نیوکلیائی قوّت۔

ڈاکٹر عبدالسّلام نے اپنے دور کے دو سائنسدانوں گلیشاؤ اور وائن برگ کے ساتھ ان میں سے دو قوّتوں یعنی برقی مقناطیسی قوّت اور کمزور نیوکلیائی قوّت کو نظریاتی طبعیات اور ریاضی کی پیچیدہ مساواتوں کے ذریعے حسابی طور پر ایک ہی قوّت کے دو رُخ ثابت کرکے نوبل انعام حاصل کیا۔

جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ ڈاکٹر عبدالسّلام نے اِس نظرئیے کی تائید کی تھی، اور اس بات کی پیشن گوئی کی تھی کہ کائنات میں پیدا ہونے والی بنیادی قوّتوں کا باعث بننے والے ذرّات کا وجود کسی دن تجربات سے ثابت ہوجائے گا۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ جولائی 2012 میں سرن لیباریٹری میں ہونے والے ایک عظیم سائنسی تجربے نے ہگز بوسن نامی گاڈ پارٹیکل کو دریافت کرکے سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا، اور یوں ذرّاتی طبعیات میں وضع ہونے والے سٹینڈرڈ ماڈل کی آخری گمشدہ کڑی کا معمّہ حل ہوگیا، اور ڈاکٹر عبدالسّلام کا پیش کردہ نظریہ تجربے کی کسوٹی پر سچ ثابت ہو کر قانون کی حیثیت اختیار کرگیا۔

قارئین اکرام مضمون طوالت اختیار کرگیا ہے۔ جبکہ ابھی مجھے اپنے قارئین کے لئے سادہ اور آسان زبان میں کائنات کی چاروں بنیادی قوّتوں کا تعارّف بھی پیش کرنا بھی ہے، ورنہ مضمون کا حق ادا نہیں ہوگا ۔ اُس کے بعد والے مضمون میں، میں گاڈ پارٹیکل یعنی ہگز بوزان کی دریافت اور اہمیت پر روشنی ڈالوں گا۔ تب کہیں جاکر مذکورہ مضمون کا احاطہ ہوگا۔ قارئین اکرام آپ لوگ حیران ہوں گے کہ سماجی و سیاسی موضوعات پر لکھنے والے قلم کار کو اچانک یہ کیا ہوگیا کہ وقیع سائنسی موضوعات کو تختہ مشق بنانے پر تل گیا ہے۔ مگر قارئین اکرام آپ حیران نہ ہوں۔

میری بنیادی تعلیم سائنس و انجینئرنگ کی ہی ہے۔ کیمیکل انجینئرنگ میری بنیاد اور اطلاقی کیمیاء میں میری ماسٹرز ڈگری ،گولڈ میڈل کے اعزاز کے ساتھ ہے۔جس کے بعد درس و تدریس و تحقیق سے وابستگی اور صنعتی میدان میں کام کے تجربے نے مجھے سیکھنے اور سمجھنے کے وسیع مواقع فراہم کئے، اسکے علاوہ ساری زندگی کا مطالعہ بھی میرا سرمایہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک دورِ طالبعلمی، اور علم کی پیاس بجھانے کی علّتِ سے باہر نہیں نکل سکا ہوں۔

مجھے موقعہ دیجئے کہ عظیم سائنسداں جناب ڈاکٹر عبدالسّلام کے سائنسی کارناموں اور انکے علمی کام کو سادہ اور آسان لفظوں میں آپ تک پہنچاؤں۔ کس حد تک کامیاب رہوں گا ۔ اس سلسلے میں آپ کے تبصرے کا طلبگار ہوں۔

حوالہ جات:۔

سائنس کی دنیا آن لائن میگزین کے مضامین

پاکستان کے نامور سائنسدانوں کی ادبی خدمات از عمران اختر

رموزِ فطرت از زکریا ورک

سلام! عبدالسّلام از زکریا ورک

5 Comments