بلوچ قومی تحریک اور بین الاقوامی سیاست

علی رفاعی

Balochistan

بین الاقوامی سیاست میں کوئی کسی کا مستقل دوست ہوتا ہے اور نہ ہی دشمن ۔ سب کو اپنے مفادات سے غرض ہوتی ہے ۔ اس لیے آج کا بین الاقوامی سیاست کا منظر نامہ تبدیل ہو رہا ہے اور اس تبدیل ہوتے ماحول میں آزادی کی تحریک چلانے والوں کے لیے سخت امتحانات کا سامنا ہے۔ کیا روس کے ساتھ مل کر داعش کے خلاف جنگ کی جائے یا امریکہ کے ساتھ مل کراپنے قومی مفادات کا تحفظ کیا جائے۔

اس تناظر میں بلوچستان کی صورتحال کافی تشویشناک ہو جاتی ہے ایک جانب پاکستان اپنے دیرینہ دوست سعودی عرب کے ساتھ مل کر طالبان اور جنداللہ کو سرگرم کررہا ہے تودوسری جانب پاکستان ،ایران کے ساتھ مل کر بلوچ آزادی کی تحریک کو کچلنے کے لئے جدیدہتھیاروں کا استعمال عمل میں لارہا ہے۔

امریکہ کی جانب سے ایران پر بین الاقوامی پابندیاں ختم کرنے کے اعلان پر حیر بیارمری نے کہا تھا کہ نام نہاد جوہری معاہدہ کے نام پہ ایران جیسے مذہبی و فاشسٹ ریاست پر اقتصادی و فوجی پابندیاں ختم کرنا، مظلوم و محکوم اقوام کے بنیادی انسانی حقوق سے مجرمانہ چشم پوشی کے مترادف اور علاقائی و بین الاقوامی امن کیلئے نہایت خطر ناک عمل ہے ۔

امریکہ جیسے جمہوری اور انسانی حقوق کے علمبردار ملک کا محض اپنے وقتی علاقائی سیاسی ومعاشی مفادات کیلئے بلوچ،کرد،ترک،عرب ،ترکمن اور دوسرے نسلی و مذہبی اقلیتوں پہ زبردستی قبضہ ظلم جبر اور بنیادی انسانی حقوق کی سنگین اور مسلسل پامالیوں پہ چشم پوشی کر کے ایسی دہشت گرد ریاستوں سے تعلقات کی بحالی اور ایسے معاہدات جو ان کے فوجی و معاشی طور پرطاقت ور بننے کے سبب ہوں پرُ امن اور مہذب دنیا کے سامنے ایک سوالیہ نشان ہے۔

ایران نے ایک طرف بین الاقوامی طور پر شیعہ رجعت پسندی کو بطور ہتھیار استعمال کر کے انتہا پسندی ،فرقہ واریت اور مذہبی دہشت گردی سے عالمی امن کو تہہ وبالا اور آس پاس کے ممالک میں اعلانیہ مداخلت اور کشت و خوں کا بازار گرم کیاہواہے تو دوسری طرف داخلی حوالے سے فارسی نسل پرستی پرعمل پیرا ہے۔ آذربائیجان کے ترک،الاحواز کے عرب مذہباً شیعہ ہونے کے باوجود نسلی بنیاد کی وجہ سے قبضہ گیریت اور ظلم و جبر کے شکار ہیں جبکہ بلوچ اور کرد نسلاً و مذہباً جدا ہونے کے سبب دوہرے عذاب سے دوچار ہیں ۔

بلوچوں کے تشخض کا خاتمہ اور ان کی مکمل نسل کشی باقاعدہ ایرانی غاصب ریاستی پالیسی کا حصہ ہے ۔پہلے بلوچستان کو تقسیم کر کے ایک حصہ کرمان اور ایک ہرموزگان میں شامل کیا گیا ۔ بعد میں باقی بلوچستان کے ساتھ سیستان کا سابقہ لگا کر زابلی فارسیوں کو زندگی کے ہر شعبے میں بلوچوں پہ مسلط کیا گیا ۔ظلم و جبر کے ساتھ ساتھ باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت ایرانی بلوچستان میں فارسیوں کی آباد کاری کی جارہی ہے۔

حیربیار مری نے کہا کہ ہماری معلومات کے مطابق بلوچ قومی تحریک کو کمزور کرنے کے لیے ایر ان اور پاکستان کے درمیاں ماہانہ اور ہفتہ وار مشترکہ اجلاس کوئٹہ ، زاہدان ، تفتان، دالبندین اور مند میں تواتر کے ساتھ ہورہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ایسی مذہبی و قابض ریاستیں جو کہ دوسری قوموں کے وجود مٹانے پہ عمل پیرا ہوں اور بین الاقوامی طور پہ مذہبی دہشت گردی کے سر غنے ہو ں دوسری ریاستوں کو غیر مستحکم ، ان میں خانہ جنگی اور خون ریزی کے براہ راست ذمہ دار ہوں۔ ان کو جوہری معاہدے کے نام پر ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد کر کے فوجی و معاشی لحاظ سے طاقت ور بنانا کسی بھی طور جمہوری ،انسانی اقدار سے میل نہیں کھاتا۔

افغانستاں،عراق،شام،بحرین،لبنان اور یمن میں جوخانہ جنگی اور فرقہ واریت کی آگ بھڑکی ہوئی ہے، اس میں ایران اپنے دہشت گرد ادارہ پاسداران انقلاب اور حزب اللہ جیسی پروکسی تنظیموں کے ذریعے براہ راست ملوث ہے ۔ ستر اور اسی کی دہائی کے دوران ایرانی ریاست نے اپنے ہٹ اسکواڈ کے ذریعے یورپ سمیت دنیا کے دوسرے حصوں میں اپنے سیاسی مخالفیں کو قتل کروایا جن میں اکثریت کردوں کی تھی۔

دوسری طرف ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے جن بلوچ سیاسی کارکنوں نے غاصب ایرانی ریاست سے اپنی زندگی بچا کر پاکستانی مقبوضہ بلوچستان سمیت سندھ میں قیام کیا ان کو بھی ایرانی ہٹ اسکواڈ نے چن چن کر شہید کیا۔ یہ تمام اقدامات کھلم کھلا انسانی حقوق کی پامالی ، عالمی قوانین کی خلاف ورزی اور ریاستی دہشت گردی تھی۔ ایرانی ریاست کی دہشت گردی کی تاریخ اور مقبوضہ اقوام پر بربریت کو جانتے ہوئے بھی اسے مضبوط کر نا ریاستی دہشت گردی اور عالمی قوانین کو روندنے کی حوصلہ افزائی کرنے کے مترادف ہے۔

خطہ میں دو طاقتور طاقتیں بھارت اور چین موجود ہیں۔ چین کے اپنے مفادات ہیں اور اسے بلوچستان کی سرزمین کو ہر حال میں اپنے ہاتھوں میں رکھنے کے جتن کرنا ہے۔ ایک جانب ریکوڈیک اور سینڈک کے وسائل لوٹے جارہے ہیں تو دوسری جانب گوادر پورٹ کو کنڑول میں رکھنا ہے۔

جب ہم بھارت پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں امید کی چھوٹی سی مدہم روشنی نظر آتی ہے۔پاکستان کی جانب سے مسلسل کشمیر کے نام پر دنیا کو اندھیرے میں رکھا جارہا ہے۔ کبھی کارگل کا مسئلہ کبھی ممبئی پر حملہ کبھی لائن آف کنٹرول پر بمباری جیسی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ حالیہ کچھ مہینوں سے بھارت نے بھی بلوچستان کے مسئلہ کو اجاگر کرنا شروع کیا ہے اور بلوچ آزادی پسندوں کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنا شروع کیے ہیں۔

اکتوبر کے پہلے ہفتے میں بھارت میں بلوچستان کی حمایت میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا تھا، جہاں بلوچ آزادی پسند رہنما حیر بیار مری کے نمائندے نے شرکت کی تھی اور حیر بیار کا پیغام پڑھ کر سنایا تھا۔ اس سیمینار کے بعد پاکستانی ایوانوں میں ہلچل مچ گئی تھی۔ چند دن پہلے پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کے دورہ امریکہ کے موقع پر واشنگٹن میں انسٹی ٹیوٹ اف پیس کی تقریب سے خطاب کے دوران وہاں موجود بلوچ ایکٹسوسٹ احمرمستی خان نے ان کی خطاب میں خلل ڈالا تو اس خبر کو بھارتی پرس میں بھر پور کوریج ملی۔

اس واقعہ کے حوالے سے بھارتی میڈیا نے باقاعدہ بلوچستان کی آزادی کی تحریک پر مختصر اور اہم ڈاکومنٹری بھی ٹیلی کاسٹ کی۔اگر ہم بہتر سفارتکاری کریں تو بھارت بلوچستان کی مدد کرسکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ مدد جنگی سازو سامان کی صورت میں ہو بلکہ سیاسی و اخلاقی طور پر بھی کی جاسکتی ہے ۔یہ اسی وقت ممکن ہے جب بلوچستان میں موجود آزادی پسند ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو جائیں تاکہ دنیا کو دکھائیں کہ بلوچ قومی تحریک کے اندر کوئی انتشار موجود نہیں بلکہ ہم سب کی پاکستان کے بارے میں پالیسی مشترکہ ہیں۔

ایک جانب بی آرپی کے سربراہ نواب براہمداغ بگٹی پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی حامی بھر چکا ہے دوسری جانب سلیمان داود خان آف قلات بھی پاکستان کی پارلیمنٹ کے سرداروں سے ملاقات کرکے واپسی جانے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ چلیں ہم ان دونوں کو آزادی کی تحریک کے چارٹ سے نکال دیتے ہیں تو ہمارے پاس ایک جانب حیر بیار اور دوسری جانب ڈاکٹر اللہ نذر ہیں ۔ اور انہیں آپس میں قریب ہونا پڑے گا۔

سیاست میں کوئی کسی کا مستقل دوست ہوتا ہے اور نہ ہی دشمن سب کو صرف مفادات عزیز ہوتے ہیں ۔ سیاست کا سب سے اہم اصول مذاکرات ہیں یعنی کسی بھی مسئلہ کا حل بات چیت سے ہی حل ہوسکتا ہے چاہے وہ مسئلہ کتنا ہی گھمبیر اور پیچیدہ کیوں نہ ہو۔

One Comment