انقلاب روس: سماجی تار یخ میں نویدِ صبح نو۔3

ڈاکٹر طاہرمنصور قاضی

یہ مضمون روس کے بالشویک انقلاب کی وجوہات اور ناکامی کی تاریخی اور سماجی جہات کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔ طوالت کی وجہ سے اسے چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے مگر اسے ایک مکمل اکائی کے طور پر پڑھا جانا چاہَے۔

حصہ سوم

روسی انقلاب کا دوسرا حصہ

روسی تار یخ کے اس مقام پر انقلاب کا پہیہ اپنی گردش کے دوسرے حصے میں داخل ہو چکا تھا۔ اب جب کہ بادشاہ کی بالا دستی ختم ہو چکی تھی مگر ڈوما میں ابھی بھی ملک کی لبرل پارٹیوں کے اراکین، زمیندار اور امراء بھرے پڑے تھے جنہوں نے ملک میں عبوری حکومتکا انتظام سنبھال لیا تھا۔ عبوری حکومت اس وقت کے تاریخی حقائق کے نتیجے میں بہت سی مشکلات کا شکار تھی۔ عملی طور پر وہ حکومت کسی بھی قسم کی سماجی تبدیلی کا نشان نہیں تھی۔

اسی اثناء میں بالشویک اور منشویک پارٹی کے ممبران نے بھی سوئٹزرلینڈ سے روس واپس آنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ لینن کی واپسی زار کی بادشاہت کے اختتام کے قریباً ایک مہینہ بعد اپریل 1917 میں ہوئی جبکہ ٹراٹسکی مئی 1917 میں روس واپس آ ئے۔ اس وقت تک ٹراٹسکی نے منشویک چھوڑ کر بالشویک پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔

بالشویک پارٹی کی مقبولیت

انقلاب کے دوران روس کی شہری اور دیہی آبادی کے معاشی حالات بے شک ملتے جلتے تھے مگر سیاسی نقطہء نظر سے بالشویک پارٹی کے منشور کی جانب ان کا رویہ ایک دوسرے سے مختلف رہا۔ شہروں میں بالشویک نعرے گونجنے لگے : “طاقت کا منبع سوویٹس ہیںاور ہم جنگ بند کریں گے۔ صنعت، مزدوروں کے لئے۔ زمین، کسانوں کے لئے اور روٹی اور امن سب کے لئے۔ بالشویک کے ان خیالات کی صنعتی مراکز اور ان کے ارد گرد کے علاقوں میں بہت پزیرائی ہوئی۔ مگر دور دراز کے جنوبی دیہاتوں اور ان کے زرعی مراکز میں یہ نعرے اس طرح سے مقبول نہ ہوئے۔

پٹروگراڈ، ماسکو اور یورال جیسے شہروں میں بالشویک مقناطیس کی طرح عوام کو اپنی جانب کھینچنے لگے۔ فروری 1917 کے انقلاب میں بالشویک کے ممبر صرف 24000 تھے۔ اپریل کے آخر میں ان کی تعداد 100000 اور اکتوبر کے انقلاب تک باقاعدہ ممبروں کی تعداد ساڑھے تین لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی۔ مگر یہ ممکن کیسے ہوا؟ انقلاب کے طالبعلموں کے لئے یہ سوال ہمیشہ اہم رہا ہے۔

بالشویک انقلاب کی کامیابی میں لینن کی حکمتِ عملی کا بڑا دخل ہے۔ اس وقت کے سارے رہنماؤں کے مقابلے میں لینن کا ہاتھ ایک ماہر حکیم کی طر ح عوام کی نبض پہ تھا۔ جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے زار کے نظام کا رعایا پر برداشت کی حد سے زیادہ بوجھ اور امراء کی تن آسانیاں عوام کے لئے کسی عذاب سے کم نہ تھیں۔ رہی سہی کسر متعدد جنگوں نے نکال دی تھی بالخصوص جنگِ عظیم اوّل نے ملک، عوام اور ریاست کی کمر توڑ دی۔

لینن اور ٹراٹسکی نے اس وقت عوام کے جذبات کو محسوس کیا اور اپنے منشور کے عملی خطوط واضح کرتے ہوئے عوامی مطالبات کو مدِ نظر رکھا۔ بالشویک پارٹی نے پالیسی کے طور پر مزدوروں، کسانوں اور فوجیوں کی حمایت کی اور اس پالیسی کا باقاعدہ چرچا بھی کیا۔ لینن نے انقلاب کے لئے نہایت جراْت مندانہ حکمتِ عملی تیار کی جس میں جنگ بند کرنے کا فیصلہ بھی تھاجبکہ منشویک، انقلابی سوشلشٹ پارٹی اور دیگر جماعتیں بادشاہ کے جا نے کے بعد بھی جرنیلوں کے ساتھ مل کر جنگ جاری رکھنے کی ترکیبوں میں لگے ہوئے تھے۔

بالشویک پارٹی کے واضح لائحہ عمل کی وجہ سے پٹروگراڈ، ماسکو اور دیگر شہروں کے ٹیلی گراف اور ریلوے کے مزدور اور فوجی اس پارٹی کے ساتھ ہم آہنگ ہوتے چلے گئے۔

بادشاہ کے جا نے کے بعد عبوری حکومت کے سامنے دو مسئلے تھے : کہ جنگ کو کس طر ح جاری رکھا جا ئے اور روس کے اندر بورژوالبرل نظام کس طرح نافذ کیا جا ئے۔ عوام جنہوں نے بادشاہ کی معزولی کے بعد اپنے آپ کو رعایا کی بجائے شہری سمجھنا اور کہنا شروع کر دیا تھا، ملک کے مستقبل کے لئے ایک بصیرت کے منتظر تھے جو صرف اور صرف لینن کی راہبری میں بالشویک پارٹی کی شکل میں سامنے آئی ۔

روسی شہری جن میں کسان تھے، شہروں کے مزدور تھے اور جنگِ عظیم کے لئے جبری بھرتی کئے گئے دیہاتی کسان تھے، ان سب کا مشترکہ تجربہ یہی کہتا تھا کہ نہ تو جنگ جیتنا ممکن تھا اور نہ ہی ہاری ہوئی جنگ کو جاری رکھنا ملکی مفاد میں تھا۔

جولائی 1917 میں روس کو آسٹریا میں شکست ہوچکی تھی اور جرمنی کی فوج کے مقابلے میں روس کی کمزوریاں سامنے آ چکی تھیں اور فوج کے اندر شکست کا احساس بھی نمایاں تھا۔ بگڑتے ہوئے شہری نظام کو قابو میں رکھنے کے لئے دیہاتوں سے جبری بھرتی کیے ہوئے فوجی اپنے بھائی بند مزدوروں اور کسانوں کے خلاف انتظامیہ کے جبر کا آلہء کار بننے سے گریزاں تھے۔ ان حالات میں جو بھی شہر کے ریلوے اور ٹیلی گراف ورکروں اور فوجیوں کے دل جیت کر انہیں منظم کر لیتا، اس کی جیت یقینی تھی۔ یہی وہ نقطہ ہے جہاں بالشویک اپنی بصیرت اور حکمتِ عملی کی بناء پر کامیاب ہوئے۔

پچیس25 اکتوبر 1917 کو فوجی انقلابی کمیٹینے بالشویک پارٹی کے ساتھ مل کر لینن اور ٹراٹسکی کی راہنمائی میں پارلیمنٹ کا اجلاس شروع ہونے سے پہلے ہی پارلیمنٹ کی عمارت پر قبضہ کر لیا۔ ریلوے اور ٹیلی گراف کی تنصیبات پر قبضہ اس سے پہلے ہی مکمل ہو چکا تھا اور دو بحری جنگی جہاز اپنی توپوں کا رخ ونٹر پیلس [بادشاہ کا محل]” کی طرف کئے تیار کھڑے تھے۔ محل میں اُس وقت وزیراعظم کیرانسکی براجمان تھے جو اس گھیراؤ سے پریشان ہو کر امریکی سفیر کی کار میں چھپ کر، اس پر امریکہ کا سفارتی جھنڈا لہرا تے ہوئے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

یہ یاد رہے کہ فوج کے حرکت میں آنے سے پہلے ہی لینن نے ٹیلی گراف کے ذریعے انقلاب کا یہ اعلامیہ جاری کر دیا تھا : “وہ ارفع مقاصد جن کے حصول کے لئے عوام نے جدوجہد کی ہے یعنی فوری امن کی ضرورت، زمینداری نظام کا خاتمہ، صنعتوں پر مزدوروں کا حق اور سوویٹ گورنمنٹ کا احیاء، تمام شہریوں کو بشارت ہو کہ وہ مقاصد فتح سے ہمکنار ہو چکے ہیں۔ مزدوروں، کسانوں اور فوجیوں کا انقلاب ہمیشہ سر بلند رہے ۔

اگلے دن انقلابی کمیٹی کے اجلاس میں منشویک لیڈروں نے بالشویک اور معطل شدہ عبوری حکومت کے درمیان سمجھوتا کروانے کی قرارداد پیش کی، جس پر ٹراٹسکی نے ایک زوردار جوابی تقریر کی اور کہا ؛ اپنے حقوق کی خاطر اٹھ کھڑے ہونے وا لے عوام کو اپنے مقصد میں کامران ہونے پر کسی توجیہہ کی ضرورت نہیں ۔۔۔ اب ہمیں کہا جا رہا ہے کہ سمجھوتہ کر لیا جائے۔ سمجھوتہ دو برابر فریقین میں ہوتا ہے۔ لاکھوں مزدور اور کسان جو اپنے نمایندوں کے ذریعے اس کانگریس میں موجود ہیں، کیا وہ اپنے حقوق صرف اس لئے بیچ دیں کہ بورژوا لوگ سمجھوتے کو مناسب سمجھتے ہیں۔ نہیں ہر گز نہیں ۔۔۔ جائیے جہاں آپ کا صحیح مقام ہے یعنی تار یخ کا کوڑے دان ۔

بالشویک انقلاب، معاشرہ اور ریاست

بالشویک انقلاب کی وجہ سے روس کے اندر بنیادی قسم کی تبدیلیاں ہوئیں جو دراصل انقلاب کا ہی خاصہ ہوتی ہیں۔ سب سے پہلی چیز ریاست تھی۔ ریاست صرف اداروں یا حاکموں کی افسر شاہی نہیں ۔ ریاست دراصل معاشرے کے اندر کلاس کو برقرار رکھنے کا ایک نظام ہوتی ہے۔

روس کے تناظر میں کچھ اس طرح سے دیکھا جا سکتا ہے کہ پرا نے نظام کی شکست کے بعد وہاں نئے معاشرتی رشتے بننے ناگزیر تھے۔ انقلاب کی وجہ سے روس میں معاشرتی اقدار میں تبدیلی واقع ہوئی اور ادارے بھی از سر نو تشکیل پا ئے۔ اور مزدوروں اور کسانوں کی ریاست نے ایک نئے سرے سے عوام کے اقتصادی اور معاشرتی رشتوں کی نگران ہونے کا علم بلند کیا جو پرا نے بادشاہی نظام کے بالکل بر عکس تھا کیونکہ پرانی ریاست کی ترجیحات کلاس کے مفادات سے وابستہ تھیں۔ جبکہ روس کا بالشویک انقلاب ایک کلاس لیسیا غیر طبقاتی معاشرے کا علم بردار تھا۔

کلاس یا طبقاتی سماج میں ریاست غیر جانب دار نہیں ہوسکتی۔ اس کا کام طبقاتی مفادات کے لئے نظام کو قائم رکھنا اور عوام کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے۔ سماجی انقلاب سے بجا طور پر یہ توقع کی جانی چاہئے کہ ریاست عوام کی محافظ اور معاون ہو۔ روسی انقلاب کے بعد ملکی اور بین الاقوامی سیاست کا منظر نامہ اور نظم و ضبط کی ضروریات بجا مگر یہ جانچ پرکھ از حد ضروری ہے کہ نئی روسی ریاست نے کس حد تک عوام کی بہبود کو اپنا فرضِ اوّلین سمجھا، کس حد تک ان مقاصد کے لئے کام کیا اور کہاں وہ ناکام ہوئی۔

عمومی طور پر ہوتا یہ ہے کہ معاشرے کے انتظام و انصرام کے لئے ریاست اور عوام کے درمیان ایک رشتہ اور رابطہ ہوتا ہے جسے سیاسی کلچر بھی کہا جا سکتا ہے۔ کلچر کا کام معاشرتی اقدار کی طنابیں سنبھال کر رکھنا درست تو ہے مگر اس کے اندر تبدیلی کے امکانات کی گنجائش اہم ہی نہیں، بہت ضروری ہے۔

یہ تو طے ہے کہ روس میں انقلاب کے بعد سارے کا سارا معاشرہ اس کشمکش میں تھا کہ نئے کلچر کے خدوخال کیا ہوں گے۔ بالشویک پارٹی اور دیگر نظریاتی مفکرین کے ذہن میں یہ سوچ تو تھی کہ نئے سوشلسٹ معاشرے میں فلاح و بہبود کی پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہو گی مگر یہ کہنا کچھ مشکل ہے کہ وہ مستقبل میں بیگانگی کے امکانات کا سدِباب کرنے کے بارے میں کس حد تک سوچ رہے تھے۔ اس بات کا اشارتاً ذکر ضروری ہے کہ انقلاب کے بعد بہت سی پالیسیوں کے دور رس نتائج نے روسی معاشرے میں اُسی بیگانگی کو جنم دیا جس سے بالشویک انقلاب کے سوتے پھوٹے تھے۔

روس کے نئے سوشلسٹ معاشرے میں بالشویک پارٹی اور ریاست کچھ اس طرح دخل انداز ہونے لگے کہ کلچر انسانوں کے سانس لینے اور پھلنے پھولنے کی جگہ کی بجا ئے پارٹی پالیسی کی تجربہ گاہ کی شکل اختیار کر گیا۔

اقتصادی محاذ پر روس کے اندر تیزی کے ساتھ صنعت کاری کا خیال اور اس کا منصوبہ اپنے ساتھ بہت سی اچھائیاں رکھتا تھااوراس کے بہت سے دور رس مفید نتائج بھی برآمد ہوئے۔ مگر ایک کمزوری کی طرف اشارہ ضروری ہے۔ بات دراصل معاشرے کے مختلف پہلوؤں کے درمیان توازن کی ہے۔ روس میں صنعت کاری کا رجحان زار کے آخری سالوں سے شروع ہو چکا تھا۔ بالشویک انقلاب کے ساتھ اس میں تیزی آ گئی۔

اس جگہ پر ایک سادہ سا عملی سوال ابھرتا ہے۔ کہ کیا اس وقت کا روسی معاشرہ مادی حیثیت سے اس قابل تھا یا اس مقام پر تھا کہ جس پر انحصار کر کے صنعتی ترقی کی رفتار تیز تر کیا جا سکتا؟ اگر نہیں تو کسی بھی منصوبہ بندی کے ناکام ہونے کے امکانات زیادہ تھے۔

میرا خیال ہے کہ صنعت کے بنیادی ڈھانچے میں کئی کمزوریاں تھیں جو ایک ٹیکنیکل سا معاملہ ہے۔ تا ہم اس کا معاشرتی نتیجہ یہ ہوا کہ جب مال اور وسائل دیہاتوں سے شہروں کی طرف منتقل ہونے لگےتو دیہاتوں کے اندر فارم پر کام کرنے والے کسان اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگے۔ اس سے پروڈکشن میں ان کی دلچسپی کم ہونے لگی؛ جس کا لازمی نتیجہ خام مال کی کمی کی صورت میں صنعت کے میدان میں بھی سامنے آیا۔

یہاں ضمنی طور میں کہتا چلوں کہ جدید نفسیاتی تحقیقات میں کام، پیشے اور انسانی شناخت کے باہمی تعلق پر مغربی یونیورسٹیوں میں آج کل بہت سا قابلِ قدر کام ہو رہا ہے۔

موازنے کے لئے یہ کہنا بجا معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں معاشرہ عام انسانوں کی شناخت کو صارفین میں ڈھالنے میں مصروف ہے۔ جبکہ انقلابی روس میں انسانی شناخت کی سمتیں مرکز سے متعین ہو رہی تھیں جس میں عوام کو معاشرتی انسان کی بجائے پیداواری پیمانوں سے ناپا جانے لگا۔ اس طر ح انسان کی پہچان اور پرکھ کلچرل انسان کی بجائے میکانکی انسان کی طرح ہونے لگی جو ہر جگہ صنعتی نظام کا خاصہ ہے۔ یہ نقطہ بذاتِ خود اہم ہے اور مزید تفصیل کا متقاضی ہے۔ چونکہ یہ ایک مختلف موضوع ہے اس لئے اسے یہیں چھوڑ دیتے ہیں۔

۔جاری ہے۔

دوسرا حصہ

انقلاب روس: سماجی تار یخ میں نویدِ صبح نو۔2

پہلا حصہ

انقلاب روس: سماجی تار یخ میں نویدِ صبح نو۔1

2 Comments

  1. Pingback: Niazamana