اسرائیل، حماس امن معاہدہ

اسرائیل اور حماس کے درمیان امن معاہدہ طے پا گیا ہے ۔طویل وحشیانہ خانہ جنگی سے تنگ آئے اسرائیلی اور فلسطینی عوام جشن منارہے ہیں۔ اس معاہدے کے پہلےمرحلے میں اسرائیل نے غزہ سے اپنی فوجیں نکالنی شروع کردی ہیں۔ امن معاہدے کی نگرانی کے لیے مشرق وسطی میں ہی موجود 200 امریکی دستے غزہ پہنچ رہے ہیں۔ معاہدے کے مطابق حماس 20 زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گا اور جوابا اسرائیل 2000 کے قریب حماس کے قیدی رہا کرے گا۔ امید کی جارہی ہے کہ اس دفعہ حماس یرغمالیوں کی رہائی کے موقع پر پہلے کی طرح کوئی تھیڑ نہیں لگائے گا۔ جبکہ بقایا 26 یا 28 اسرائیلی یرغمالی جو ہلاک ہوچکےہیں ان کی لاشیں بتدریج واپس کی جائیں گی۔

یرغمالیوں کی رہائی پیر اور منگل کو متوقع ہے۔ صدرٹرمپ اتوار کو مصر پہنچ رہے ہیں تاکہ اس تاریخی معاہدے پر دستخطوں کے موقع پر موجود رہیں۔

مجھے صدر ٹرمپ کی پالیسیوں سے کبھی اتفاق نہیں رہا مگر اپنی پہلی ٹرم میں انھوں نےاسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان جو ابراہام معاہدہ کروایا تھا وہ ایک تاریخی معاہدہ تھا۔ اسی معاہدے کے تحت عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر آنا شروع ہو چکے تھے۔ ابراہام معاہدے سے دہشت گرد تنظیم حماس اور اس کی پشت پناہی کرنے والے ایران اور حزب اللہ کو بہت تکلیف تھی اور ان کی کوشش تھی کہ کسی طریقے سے اسےشبوتارژ کیا جائے ۔ اور 7 اکتوبر 2023 کو ایران کی آشیر باد سے حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا۔ حماس نے اسرائیلی فوجیوں کی بجائے ان معصوم افراد کو نشانہ بنایا جو ایک سرحدی علاقے میں میوزک کنسرٹ میں شریک تھے۔ خواتین کی آبروریزی کی ، قتل عام کیا اور 250 کے قریب افراد کو یرغمال بنالیا۔

جوابا اسرائیل نےجو کچھ کیا وہ سب کے سامنے ہے۔عرب ممالک پہلے ہی ایران کی مڈل ایسٹ میں دہشت گرد کاروائیوں سے تنگ تھے۔ حماس کے حملے اور اسرائیل کے جوابی حملے پر وہ نیوٹرل رہے ۔ہاں گاہے بگاہے انھوں نے فلسطینی عوام کے قتل پر احتجاج ضرور کیا۔ اسرائیل نے ایران اور اس کی طفیلی حزب اللہ کا خاتمہ کیا۔ اگر آج ایران اور حزب اللہ موجود ہوتے تو غزہ کی ڈیل ہونا ناممکن تھا۔

مڈل ایسٹ میں عراق، شام اور لبیا وہ ممالک تھے جو خطے میں ویسے ہی بدامنی پیدا کرتے تھے جیسے پاکستان جنوبی ایشیا میں کرتا رہا ہے۔ اب ان تینوں ممالک کے حکمران دہشت گردی سے باز آچکےہیں۔ اور امید کی جاتی ہے کہ حماس کے خاتمے کے بعد خطے کے عوام امن و سکون سے زندگی گذارنے کے قابل ہوجائیں گے۔

امید کی جارہی ہے کہ غزہ میں بورڈ آف پیس اپنا کام شروع کردے گا۔ توقع کی جارہی تھی کہ پاکستانی افواج امن فوج کا کردار ادا کرنے آئیں گی مگر شاید ایسا نہ ہو۔ میں نے پہلے ہی اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان آرمی کے اندر بہرحال ایک جہادی گروپ ایسا ہے جو اسرائیل کے سخت مخالف ہےاور وہ نہیں چاہے گا کہ پاکستانی فوجی دستے غزہ آئیں ۔ اور ایسی کسی بھی کوشش کو ثبوتارژ کرے گا ۔ اور اس کا آغاز ہوچکا ہے اور اس گروپ نے پاکستان میں اپنی پراکسیز کے ذریعے کئی محاذ کھول دیے ہیں۔

محمد شعیب عادل

Comments are closed.