اسلام جرمنی کا حصہ بن چکا ہے یا اس ملک میں اسلام دشمنی بڑھتی جا رہی ہے؟ گزشتہ برس اس یورپی ملک میں مسلمان مردوں، خواتین اور مساجد پر قریب ایک ہزار حملے کیے گئے۔ ماہرین کے مطابق اصل تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔
جرمن حکومت کی طرف سے جاری کردہ ان اعداد و شمار کے مطابق ان حملوں میں ملوث تقریباﹰ سبھی ملزمان کا تعلق دائیں بازو کے انتہاپسندوں سے تھا۔ ان ’حملوں‘ میں مسلمانوں کو لکھے گئے دھمکی آمیز خطوط، اسکارف پہننے والی مسلم خواتین یا پھر عوامی مقامات پر مسلمان مردوں کے خلاف کسے جانے والے نفرت انگیز جملے بھی شامل ہیں۔ گزشہ برس کیے گئے ان حملوں کے نتیجے میں کم از کم تینتیس افراد زخمی بھی ہوئے۔
اس کے علاوہ ساٹھ فیصد واقعات میں مساجد یا پھر دیگر اسلامی اداروں کی عمارات پر نازی سوچ کے مظہر نشانات بنائے گئے، گالیاں لکھی گئیں اور کئی مرتبہ تو ایسا خنزیر کے خون سے کیا گیا۔ جرمن حکومت کی طرف سے یہ اعداد و شمار بائیں بازو کی جماعت ’دی لنکے‘ کی طرف سے پارلیمان میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں پیش کیے گئے۔
جرمنی میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے حملوں کے اعدا و شمار جمع کرنے کا سلسلہ گزشتہ برس شروع کیا گیا تھا اور اسی وجہ سے ان کا ماضی کے کسی سال سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔
دوسری جانب جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے تمام جرائم کا احاطہ نہیں کیا گیا۔ اس کونسل کے سربراہ ایمن مزیک کا کہنا تھا کہ اس رپورٹ میں حقیقت کے صرف چند ہی پہلوؤں کو بیان کیا گیا ہے، ’’حملوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ادارے، پولیس اور پراسیکیوٹرز کچھ واقعات کے حوالے سے غیر حساس ہیں اور ایسے واقعات درج ہی نہیں کیے جاتے۔‘‘
ایک جرمن اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایسے بہت سے متاثرہ مسلمانوں کی شکایات درج ہی نہیں کی جاتیں اور بہت سے خود پولیس کے پاس جانے سے کتراتے ہیں۔
تاہم سال2017 کی آخری سہ ماہی میں اس طرح کے حملوں میں کمی واقع ہوئی۔ اعداد و شمار کے مطابق اس عرصے میں صرف 167 ایسے واقعات رونما ہوئے اور پانچ واقعات میں مساجد اور دیگر مذہبی مراکز اور اداروں کو نشانہ بنایا گیا۔ تیسری سہ ماہی میں ایسے واقعات کی تعداد 288 رہی تھی۔
’دی لِنکے‘ نامی سیاسی جماعت سے وابستہ جرمنی کے داخلی سیاسی امور کی ماہر خاتون سیاستدان اولا جیلپکے کا کہنا تھا، ’’اسلام دشمن اب گلیوں سے نکل کر پارلیمان تک پہنچ چکے ہیں۔ یہ پارلیمانی اسٹیج کو استعمال کرتے ہوئے جرمنی میں مسلمانوں کی زندگی کے خلاف سماجی ماحول کو زہریلا بنا رہے ہیں‘‘۔
کچھ تجزیہ نگاروں کے خیال میں مسلمان یورپی ممالک کے سیکولرازم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اسلامی ایجنڈہ کو پرموٹ کرتے ہیں ۔ مسلمان مغربی سماج میں ضم ہونے کی بجائے اسے خلاف شریعت قرار دیتے ہیں۔اور اپنی شریعت نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں جس ملک میں رہتے ہیں اس کے رسوم ورواج سے نہ صرف نفرت کرتے ہیں بلکہ انہیں برا بھلا بھی کہتے ہیں۔
برطانیہ میں مسلمان تنظیمیں زبردستی خواتین کو حجاب کے استعمال پر مجبور کرتی ہیں بلکہ اپنی نام نہاد شرعی عدالتیں بھی قائم کر رکھی ہیں۔ جبکہ جرمنی میں بھی حجاب کی آڑ میں مسلمان اپنا ایجنڈا پرموٹ کرتے ہیں جس کی وجہ سے یورپ میں ان کے خلاف نفرت کے جذبات پروان چڑھ رہے ہیں۔
DW/News Desk
♦
One Comment