بیرسٹر حمید باشانی
میں ہر سال یہ رپورٹ پڑھتا ہوں۔ پہلی بار میں نے سات برس قبل یہ رپورٹ پڑھی تھی۔ فریڈم ہاوس کی طرف سے دنیا میں آزادی اور جمہوریت پر یہ ایک جامع رپورٹ تھی۔ مگر مجھے یہ رپورٹ بالکل پسند نہیں آئی تھی۔ اسکی وجہ شاید میرا تعصب تھا۔ میرے متعصب ہونے کی دو وجوہات تھیں۔
ایک وجہ یہ تھی کہ فریڈم ہاؤس اپنے آپ کو خود مختار واچ ڈاگ کہتا تھا ۔ مگراس وقت اس تنظیم کو اپنی کل آمدنی کا تیس فیصد امریکی سرکارکی طرف سے ملتا تھا۔ جس سے اس کی آزادی پر سوال اٹھتا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ اس وقت افغانستان اور عراق کے مسائل عروج پر تھے۔ مجموعی طور پرامریکی حکومت کا عالمی سطح پر جمہوریت اور آزادیوں کے سوال پرکردار زیادہ قابل تعریف نہیں تھا۔
اس وقت امریکی سرکار نے دنیا میں کچھ مطلق العنان اور شخصی حکو متوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کر رکھے تھے۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کے سوال پر بھی بہت حد تک خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔ مگر اس رپورٹ میں ان سب معاملات کویکسر نظر انداز کر دیا گیا تھا۔
تیسری وجہ یہ تھی کہ اس رپورٹ میں انہوں نے اسرائیل کی تو مشرق وسطی کی واحد جمہوریت کے طور پر دل کھول کر تعریف کی تھی، مگر فلسطین کے سوال پر پر اسرارخاموشی اختیار کی تھی۔ ان وجوہات کی بنا پرمیرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا تھا کہ فریڈم ہاوس ایک جانب دار تنظیم ہے، جو سیاسی اور شہری آزادیوں کے نام پر سرکاری ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔
سنہ 2018 کی رپورٹ پڑھتے وقت مجھے کوئی علم نہیں ہے کہ فریڈم ہاوس کی سرکاری سطح پر مالی اعانت پہلے کی طرح جاری ہے، یا اس میں کوئی کمی بیشی ہوئی ہے۔ اس تحقیق کی میں نے ضرورت بھی نہیں محسوس کی۔ چونکہ اس رپورٹ میں وہ نمایاں خامیاں مجھے نظر نہیں آئیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے ۔
فریڈم ہاوس کی یہ تازہ رپورٹ پڑھ کر لگتا ہے کہ جمہوریت کو خطرہ صرف مارشل لا سے نہیں ہوتا۔ یہ خطرہ کئی اطراف، کئی اشخاص اور کئی اداروں سے ہے۔ اس خطرے کے کئی چھپے اور کئی کھلے چہرے ہیں۔ گزشتہ ایک دھائی سے دنیا میں مارشل لاء کا رحجان ختم ہو رہاہے۔ لیکن کیا اس سے دنیا میں جمہوریت کو فروغ ملا ہے؟ انسانی حقوق میں اضافہ ہوا ہے؟ یا شہری آزادیوں کو تحفظ ملا ہے ؟ ان سوالات کا جواب فریڈم ہاوس کی یہ رپورٹ نفی میں دیتی ہے۔
اس اعتبار سے یہ مایوس کن رپورٹ ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال یعنی2017 میں دنیا بھر میں جمہوریت کو سخت ترین بحران کا سامنا رہا۔ دنیا کے کئی ممالک میں جمہوریت کے بنیادی خیموں پر شدیدحملے ہوئے۔ آزاد اور منصفانہ انتخابات کی ضمانت، اقلیتوں کے حقوق، آزادی اظہار رائے، اور قانون کی حکمرانی کے تصورا ت ان حملوں کا خصوصی نشانہ تھے۔
دنیا کے ۷۱ ممالک میں سیاسی اور شہری حقوق میں قابل ذکر اور واضح کمی ہوئی۔ ، جبکہ اس کے مقابلے میں صرف ۳۵ ملک ایسے تھے، جن میں سیاسی و شہری حقوق قدرے بہتر ہوئے۔ یہ شہری اور سیاسی آزادیوں کے زوال کا مسلسل بارواں سال ہے۔ اس سال جن ممالک میں جمہوریت کو نقصان پہنچا، ان کی تعداد ان ممالک سے زیادہ ہے، جہاں جمہوریت کی سمت کوئی مثبت پیش رفت ہوئی۔
دنیا میں آزادی ، جمہوریت اور انسانی حقوق کے مسلسل روبہ زوال ہونے کی ایک بڑی مثال ترکی ہے۔ یہاں2014 سے لیکر زوال کی رفتارمیں حیرت انگیزتیزی آئی ہے۔ جب سے صدر طیب اردعان نے ریاست اور سماج پر شخصی راج اور مضبوط گرفت کی کھلی کوشش شروع کر رکھی ہے، تب سے ملک میں ذرائع ابلاغ، سوشل میڈیا، سیاسی پارٹیوں، عدلیہ اور انتخابی اداروں پر مسلسل حملے ہوئے ہیں۔
صدر طیب اردعان نے حکمران پارٹی سے کئی ایک اتحادی رہنماوں کو نکال باہر کیا۔ اپنی ضروریات کے مطابق ذرائع ابلاغ کی تشکیل نو کی۔ ایک غیر مقبول ریفرنڈم کے ذریعے ایسا صدارتی نظام تشکیل دیا ، جس پر کوئی قدغن اور توازن نہیں ہے۔ جولائی2016 کی بغاوت کے بعد چھ ہزار لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ ایک سو ساٹھ کے قریب میڈیا ہاوسز کو بند کیا گیا، اور ایک سو پچاس سے زائد صحافی قید کیے گئے۔
پارلیمان کی تیسری بڑی سیاسی جماعت کے رہنما کوجیل میں ڈالا گیا۔ صدارتی دباؤ کے تحت سو سے زائد شہروں کے مئیر تبدیل کیے گئے۔ اختلاف رائے کے حامل لوگوں کا ملک سے باہر تک بھی تعاقب کیا گیا، ان کے خلاف انٹرپول وارنٹ اور ریڈ نوٹس جاری کیے گئے۔
رپورٹ کے مطابق سن2017 میں یورپ میں جمہوری ثقافت و روایات کو بہت نقصان پہنچا۔ یہاں اجنبیوں سے خوف زدہ ، دائیں بازو کی شدت پسند جماعتوں کو انتخابی کامیابیاں حاصل ہوئیں، جس کی وجہ سے جمہوری کلچر کمزور ہوا۔ فرانس جرمنی۔نیدرلینڈ اور آسٹریا میں شدت پسندوں کو فتح حاصل ہوئی۔
دوسری جنگ عظیم کے بعدجرمنی میں پہلی بار دائیں بازو کی انتہا پسند پارٹی نے کچھ انتخابی کامیابیاں حاصل کیں۔ پولینڈ اور ہنگری میں جمہوریت کش اقدامات ہوئے، یہاں سول سوسائٹی اور میڈیا کے خلاف کئی کارروائیاں ہوئیں۔
سال2017 میں دنیا میں جمہوری روایات و اخلاقیات کی خلاف ورزی کے کئی پریشان کن واقعات سامنے آئے۔ جن ممالک میں خلاف توقع ایسا ہوا ، ان میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ بھی ہے۔ تاریخی طور پر امریکہ دنیا میں اپنے آپ کو جمہوریت کے نمونے کے طور پر پیش کرتا رہا ہے۔ جمہوریت کے فروغ کے لیے دوسروں کی امداد کا دعوے دار رہا ہے۔ اس دعوے سے امریکہ کی دست برداری بھی جمہوریت کے لیے ایک بہت بڑادھچکاتھا۔
ماضی میں امریکی حکومت کی غلطیوں کے باوجود، امریکی عوام یہ سمجھتے رہے کہ دنیا میں جمہوریت کی لڑائی میں دوسرے ملکوں کے عوام کے ساتھ کھڑا ہونا ان کی اخلاقی ذمہ داری بھی ہے، اور ان کے لیے سود مند بھی۔ مگر افغانستان اور عراق کی جنگوں کے تلخ تجربے کے بعد ان کے تصورات میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ جمہوریت کے حق میں بیانات کے باوجود عملی طور پر کچھ نہ کرنے کا رحجان تو صدر اوبامہ کے زمانے میں ہی سامنے آنا شروع ہو گیا تھا۔
یہ رحجان ظاہر کرتا تھا کہ امریکی لوگ اب پہلے کی طرح عالمی سیاست پر اثر انداز ہونے کے پر جوش حامی نہیں رہے۔ لیکن ایک برس پہلے صدر ٹرمپ نے زبانی اور عملی طور پران بنیادی اصولوں میں تبدیلی کی تصدیق کی ، جو گزشتہ سات دہائیوں سے امریکہ کی خارجہ پالیسی کی بنیاد تھے۔ امریکی تاریخ میں صدور ، دنیا کے کئی مطلق ا لعنان اور شخصی حکمرانوں سے معاملہ کرتے رہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ جمہوریت کی بات بھی کرتے رہے۔ وہ جمہوریت کو امریکی خارجہ پالیسی کا اہم اصول گردانتے رہے۔ لیکن موجودہ صدر نے یہ تکلف بھی برطرف کر دیا۔
داخلی سطح پر امریکہ کا اپنا جمہوری نظام اور اچھی حکمرانی کا معیار بھی بری طرح متاثر ہوا۔ جس سے عملی مثال کے ذریعے دوسروں کی رہنمائی کے تصور کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ گزشتہ عشرے سے امریکہ میں انتخابی نظام اور فوج داری نظام انصاف کو بھی کئی دھچکے لگے ہیں۔ صدر کی قیادت میں موجودہ انتظامیہ نے کئی بنیادی اداروں پر حملہ کیا۔ کئی مسلمہ اخلاقی راوایات کی پاسداری نہیں کی۔ شفافیت اور افشار کی پالیسیوں کا احترام نہیں کیا۔ حد یہ ہے کہ خلاف روایت، صدر نے اپنے خاندان کے لوگوں کو اہم عہدے تک سونپ دئیے ۔
اگر جمہوری روایات، انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے خلاف چلنے والی یہ ہوا، امریکہ، یورپ اور ترکی جیسے ملکوں کو متاثر کر سکتی ہے، تو تیسری دنیا کی جمہوریت کے کمزور چراغ اس ہوا س سے کیسے بچ سکتے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کو ماضی بعید میں بہت شدید جھٹکے لگائے جاتے رہے ہیں۔
ماضی قریب میں جمہوریت نے جو تسلسل کے دس سال پورے کیے، اس دوران بھی جمہوریت پر کئی اطراف سے حملے ہوتے رہے۔ اور کسی نہ کسی طرح یہ ریکارڈ برقرار رکھا گیا کہ کوئی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکتا۔ موجودہ حالات میں بھی جمہوریت کے لیے حقیقی خطرات موجود ہیں۔ جمہوریت کی بقا کے لیے ان خطرات سے آگہی، اور ان کا برقت تدارک ضروری ہے۔
♦