محمد بن سلمان کے بادشاہ بننے میں کیا رکاوٹیں ہیں

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اپنے والد کے بعد بادشاہت کا تاج اپنے سر پر سجانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ مستقل طور پر کام کر رہے ہیں۔ لیکن یہ راستہ خطرات سے خالی نہیں ہے اور محلاتی سازشوں کا نتیجہ خوفناک نکل سکتا ہے۔

اگر سعودی عرب میں ابھی تک موجود تخت نشینی کے قوانین کی بات کی جائے تو ولی عہد محمد بن سلمان کو بادشاہ بننے کی اجازت نہیں ہو سکتی۔ اس حوالے سے دو قانون اہم ہیں، ایک اصول سینیئر ہونا  ہے، دوسرا اصول السعود خاندان کی کونسل کا اتفاق ہے۔ چونتیس سالہ ولی عہد ہر حال میں اپنے چوراسی سالہ والد سلمان بن عبدالعزیز السعود کی جگہ بادشاہ بننا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے وہ سعودی تخت نشینی کے دونوں قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ پورے سعودی عرب کا استحکام داؤ پر لگا رہے ہیں۔

اگر محمد بن سلمان اپنی منزل اور مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، جیسا کہ نظر بھی آ رہا ہے، تو انہیں ہر اُس شخص کو راستے سے ہٹانا ہو گا، جو سینیارٹی‘ کے اصول کے مطابق تخت اور تاج کا زیادہ مستحق ہے۔ انہیں السعود خاندان کے ہر اُس شخص کے خلاف کارروائی کرنا ہو گی، جو ان کے سامنے کھڑا ہو گا۔ خاندانی کونسل 2007 میں اس وقت کے شاہ عبداللہ نے قائم کی تھی تاکہ کسی بادشاہ کے انتقال کے بعد اقتدار کی منتقلی پرامن طریقے سے ہو سکے۔

محمد بن سلمان سعودی عرب کا شاہ بننے کے لیے تنازعات سے گریز  بھی نہیں کرتے۔ سن 2017 میں انہوں نے اُس وقت کے ولی عہد محمد بن نایف کو نہ صرف معزول کیا بلکہ انہیں نظر بند بھی کر دیا تھا۔ نومبر 2017 میں انہوں نے بدعنوانی کے پردے کے پیچھے متعدد کاروباری شخصیات، جن میں کئی شہزادے بھی شامل تھے، کو ایک ہوٹل میں بند کر دیا تھا۔ اور اکتوبر2018 میں ان کے ناقد صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں قتل کر دیا گیا تھا۔

ابھی تک محمد بن سلمان سب کچھ بلا خوف و خطر کرتے آئے ہیں۔ وائٹ ہاؤس میں ان کے خاص دوست ڈونلڈ ٹرمپ ہیں، جو ان کے ہر کام کو تسلیم کرتے آئے ہیں۔

ایک ہفتہ قبل محمدبن سلمان نے دوبارہ کارروائی کی ہے۔ ڈیمینشیا میں مبتلا ان کے والد اور بادشاہ کی صحت مزید خراب ہو گئی ہے۔ دوسری جانب ابھی تک یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آیا نومبر میں ٹرمپ دوبارہ انتخابات جیت پائیں گے۔ دریں اثناء محمد بن سلمان کے سب سے بڑے حریف شہزادہ احمد نے گزشتہ ماہ بیعت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ پرنس احمد، شاہ سلمان کے چھوٹے بھائی ہیں اور خاندانی کونسل کے اہم رکن بھی ہیں۔ پرنس احمد کے مطابق السعود خاندان کے قوانین کے مطابق تخت اور آئندہ بادشاہت کے جائز وارث وہ ہیں۔

السعود خاندان میں ولی عہد محمد بن سلمان کے سب سے بڑے نقاد بھی پرنس احمد ہی ہیں۔ وہ خاندانی کونسل کے ان تین افراد میں شامل تھے، جنہوں نے محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ وہ عوامی سطح پر بھی محمد بن سلمان کی سیاست پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ انہیں یقین تھا کہ السعود خاندان میں انہیں استثنیٰ حاصل ہے۔ لیکن محمد بن سلمان نے نہ صرف انہیں بلکہ کئی دیگر شہزادوں کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔

مملکت سعودی عرب کی تاریخ میں غیرمعمولی اقدام نے ہمیشہ دو مقاصد انجام دیے ہیں۔ ایک ممکنہ حریفوں کو دیوار سے لگا دیا گیا اور دوسرا شاہی خاندان کی تمام شاخوں کو سخت ترین پیغام پہنچایا گیا۔ اب سعود خاندان کی کونسل میں ولی عہد محمد بن سلمان کی مخالفت کم ہو گی۔ ہر کسی کو محمد بن سلمان کی وفاداری کا حلف اٹھانا ہو گا اور ان کے ہاتھ اس قدر طاقتور ہو جائیں گے، جس کی ماضی قریب میں مثال نہیں ملتی۔ چونکہ فوج، قومی محافظ دستے اور خفیہ ادارہ بھی ان کے ماتحت ہو گا، لہذا ان کی اجازت کے بغیر کسی شہزادے کو کوئی طاقت نہیں مل سکے گی۔

محمد بن سلمان نے پچھلے پانچ برسوں میں اپنی طاقت میں مسلسل توسیع کرتے ہوئے اپنی ایک منقسم تصویر بنائی ہے۔ ایک طبقے کے لیے وہ جدت پسند ہیں، جو قدامت پرستوں کی بنائی ہوئی مذہبی بیڑیوں کو اتارتے ہوئے ثقافتی اصلاحات کے ذریعے خواتین اور نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ آزادی فراہم کر رہے ہیں۔ دوسرے طبقے کے لیے وہ اپنے ناقدین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج رہے ہیں۔ تاہم ان کا وژن 2030‘ اس وقت تک کامیاب نہیں ہو گا، جب تک انہیں اکثریتی عوام کی حمایت حاصل نہیں ہوگی۔

اگر اصلاحات کی ٹرین پٹڑی پر نہیں آتی اور طویل المدتی بنیادوں پر تیل کی قیمتیں کم رہتی ہیں تو یہ صورت حال خود محمد بن سلمان کے لیے تباہ کن ثابت ہو گی۔ بالکل انہی شہزادوں کی طرح، جنہیں وہ خود راستے سے ہٹا چکے ہیں۔

تبصرہ: رائنر ہیرمان، فرانکفرٹر الگمائنے سائٹنگ

DW

Comments are closed.