امریکا: کورونا وائرس کے ٹیکے کا انسانوں پر تجربہ شروع

امریکا میں ایک کمپنی نے کورونا وائرس کے لیے خصوصی ویکسین کا انسانوں پر تجربہ شروع کر دیا ہے لیکن اب بھی اس دوا کی تیاری میں کم از کم ایک برس لگ سکتا ہے۔

امریکی ریاست واشنگٹن کے سب سے بڑے شہر سیئٹل میں پیر 16 مارچ کو پہلی بار صحت سے وابستہ بعض رضاکاروں پر کووڈ 19 کے لیے ٹیکے کا تجربہ کیا گيا ہے۔ پہلے مرحلے میں ریکارڈ کے طور پر بہت تیزی سے اس دوا کے تجربات کا آغاز ہوگيا ہے لیکن ماہرین کے مطابق اس ویکسین کو پوری طرح سے تیار کرنے میں اب بھی کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔ عالمی سطح پر وبا کا رخ اختیار کرنے والے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے کئی ممالک میں سائنسدان  ویکسین تیار کرنے کی کوشش میں ہیں اور اس سمت میں یہ پہلا اہم قدم مانا جارہا ہے۔

امریکا میں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ ‘ (این آئی ایچ) کے سائنسدانوں نے بائیو ٹیکنالوجی کمپنیموڈریناکے ساتھ اشتراک سے یہ نئی دوا تیار کی ہے۔ اس ٹیکے کو ایم آر این اے 1273 کا نام دیا گيا ہے اور سیئٹل میں ابتدائی مرحلے کے تجربات میں سائنسدان آئندہ چھ ہفتوں کے دوران صحت مند انسانوں کو یہ دوا انجیکشن کے ذریعے دیں گے۔

 این آئی ایچ کے سربراہ اینتھونی فاسی کا کہنا ہے کہ ’’فی الوقت صحت عامہ کے لیے ایک موثر اور محفوظ ویکسین کی تلاش ایک اہم ترجیح ہے۔ پہلے مرحلے کی تحقیق، جو ایک ریکارڈ وقت میں لانچ کی گئی ہے، اور مقصد کے حصول میں یہ پہلا اہم قدم ہے‘‘۔ 

چین نے دسمبر کے اواخر میں نئے کورونا وائرس کے پھیلنے کا اعتراف کیا تھا اور اس کے ساتھ  ہی یہ دنیا کے دوسرے ممالک تک تیزی سے پھیلنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے عالمی سطح پر بحران کا سبب بن گيا۔ جنوری میں پہلی بار چینی حکام نے اس وائرس کی جینییاتی ترتیب کو شیئر کیا اور اس کے بعد ہی اس پر دنیا بھر کی تجربہ گاہوں میں تحقیقات اور دوا بنانے کا کام شروع ہوا۔

کورونا وائرس انسانی جسم کے خلیوں میں داخل ہوکر ان کو اپنا پابند کر لیتا ہے۔ اس کے لیے جس نئے ٹیکے کا تجربہ کیا جا رہا ہے اس میں وائرس کے کچھ حصے کے ساتھ ساتھ اس کی جینیاتی معلومات بھی شامل ہیں لیکن وائرس بذات خود شامل نہیں ہے۔ محقیقین کا خیال ہے کہ یہ ٹیکہ انسان کے جسم میں دفاعی نظام کو اس طرح قوت فراہم کرے گا کہ اس دوا کو استعمال کرنے والا شخص کووڈ 19 سے نمٹنے میں کامیاب رہے گا۔ حالانکہ  این آئی ایچ نے بارہا اس بات کو دہرایا ہے کہ تمام تجربات کے مرحلے سے گزرنے کے بعد عوام کے استعمال کے لائق بنانے میں کم سے کم  بارہ سے اٹھارہ ماہ کا وقت لگ سکتا ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب عالمی سطح پر کورونا وائرس ایک بڑا خطرہ بن چکا ہے، اس کے لیے ٹیکہ بنانے میں کئی دوا ساز کمپنیوں اور ممالک کے درمیان ایک طرح کی مسابقہ آرائی کا ماحول ہے۔ امریکا میں موڈرینا کے علاوہ بھی کئی دوا ساز کمپنیاں کورونا وائرس کے علاج کے لیے مختلف طرح کی ادویات تیار کرنے میں مصروف ہیں۔

ایشیا میں بھی ڈاکٹر اس کے لیے امریکی کمپنی جیلیڈ سنائنس نامی کمپنی کی تیار کردہ ریمڈیزیورنامی ایٹنی وائرل دوا کا تجربہ کر رہے ہیں۔ جرمن کمپنی کیور ویک بھی کووڈ 19 کے لیے ایک ویکسین تیار کرنے پر تیزی سے کام کر رہی ہے۔

DW

Comments are closed.