اقوام متحدہ کے ادارے برائے ترقی کے مطابق پاکستان کا شماران ممالک میں ہوتا ہے، جنہوں نے کورونا سے نمٹنے کی سب سے کم تیاری کی تھی۔ طبی ماہرین، سیاست دانوں اور طبی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نے اس رپورٹ کو صحیح قرار دیا ہے
‘یواین ڈی پی‘ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا کہ انسانی ترقی کی سطح، کمزور نظام صحت اور انٹرنیٹ تک محدود رسائی وہ عوامل ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے، جنہوں نے کورونا سے نمٹنے کی تیاری کم کی تھی۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر دس ہزار افراد کے لیے9.8 فزیشنز، پانچ نرسیں اور ہسپتال کے صرف چھ بیڈز ہیں اور یہ کہ اسلام آباد صحت پر جی ڈی پی کا صرف دو اعشاریہ آٹھ فیصد خرچ کرتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ہر ہزار افراد کے لیے اوسطاﹰ پچپن بیڈز، تیس فزیشنز اور اکیاسی نرسز ہیں۔
پاکستان میں حکومت کی طرف سے یہ بارہا دعوی کیا گیا ہے کہ وہ اس وبا ء سے نمٹنے کے لیے تیار ہے لیکن ملک کے کئی حلقے حکومت کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں اور یو این ڈی پی کی اس رپورٹ کو حقائق کا عکاس قرار دیتے ہیں۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن سے وابستہ ڈاکٹر عبدالغفار شورو نے اس رپورٹ پر اپنی دائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا،”میرے خیال میں یہ رپورٹ بالکل درست ہے۔ جب یہ وبا چینی شہر ووہان میں پھوٹی تھی، ہم نے اس وقت دسمبر میں ایک پریس کانفرنس کے ذریعے حکومت کو بتایا تھا کہ اسے اس وباء سے نمٹنے کے لیے کیا تیاری کرنی چاہیے لیکن نہ ہی انہوں نے بارڈرز سیل کیے اور نہ بعد میں ایسے انتظامات کئے، جس سے اس کو روکا جا سکے حالانکہ ان کے پاس بہت وقت تھا‘‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ابھی بھی اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا جارہا،”صورت حال یہ ہے کہ سندھ اور پاکستان کے دوسرے علاقوں میں ابھی بھی ڈاکٹرز بغیر پی پی ایز کے کام کر رہے ہیں۔ ہمارے پاس ابھی بھی بہت ساری درخواستیں پڑی ہوئی ہیں، جس میں ڈاکٹرز ہم سے پی پی ایز کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہم اپنے طور پر کوشش کر رہے ہیں لیکن ہم کوئی ریاست تو نہیں ہیں۔ طبی عملہ اور بے چارے ڈاکٹرز بغیر کسی تحفظ کے کام کر رہے ہیں اور کورونا سے بیمار ہورہے ہیں۔ اگر یہی ہوتا رہا تو ملک ایک بڑے بحران کا شکار ہوجائے گا‘‘۔
معروف سیاست دان اور سابق وزیر برائے جہاز رانی میر حاصل خان بزنجو کا ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ نہ حکومت اسے اور نہ ہی عوام اسے سنجیدگی سے لے رہی ہے،”میرے خیال میں یو این ڈی پی نے حقیقت بیان کی ہے۔ ملک میں مولوی بے لگام ہیں۔ عوام کہتے ہیں کہ کورونا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے اور حکومت کو سندھ گورنمنٹ اور حزب اختلاف سے لڑنے سے فرصت نہیں۔ لاک ڈاؤن پر بھی وہ ابہام کا شکار ہے۔ نہ حکومت کی ماضی میں کوئی تیاری تھی اور نہ اب کوئی تیاری نظر آرہی ہے‘‘۔
اسلام آباد کے سب سے بڑے ہسپتال پمز سے تعلق رکھنے والے ریاض گجر، جو پمز نان میڈیکل اسٹاف ایسوسی ایشن کے سربراہ بھی ہیں، کا کہنا ہے کہ ان کے ہسپتال میں کئی اسٹاف ممبرز کورونا کا شکار ہوچکے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا،”اگر ہماری تیاری ہوتی تو اس کو روکا جا سکتا تھا۔ صورت حال یہ ہے کہ پی پی ایز تو دور کی بات ہے یہاں ہمیں سینیٹائرز اور ماسک بھی دستیاب نہیں ہے۔ اگر اسٹاف کے لوگ اپنا کورونا ٹیسٹ کرانے جائیں تو اس کے لیے بھی وقت لگتا ہے۔ حکومت نے ایک ایسی جگہ کورونا مرکز بنایا ہے، جو اس بیماری کو روکنے کے بجائے اس کو پھیلانے کا باعث بن رہا ہے‘‘۔
ڈی ڈبلیو نے حکومت کے کئی ذمہ داران سے اس مسئلے پر ان کا موقف جاننے کی کوشش کی لیکن انہوں نے فون کالز ریسو نہیں کیں۔ تاہم خیبر پختونخواہ حکومت کے ایک اہم ذمہ دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیوکو بتایا، ”یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ ہماری تیاری نہیں تھی۔ صرف کے پی میں ہمارے پاس چار ہزار سے زیادہ آئسیولیشن بیڈز ہے۔ چار سو سے زیادہ ہائی ڈیپینڈینسی بیڈز ہیں، جس میں وینٹی لیٹرز اور دوسری سپورٹ ہمیں مل رہی ہیں۔ تمام جگہ پی پی ایز موجود ہیں۔ ہماری ریپڈریسپانس ٹیمیں سرگرمی سے کورونا کیسیز کو تلاش بھی کر رہی ہیں۔ ہماری سیمپلینگ بھی زیادہ ہو رہی ہے اور لیبارٹریز کی گنجائش بھی بڑھادی گئی ہیں۔ تو میرے خیال میں یہ کہنا درست نہیں کہ ہم تیار نہیں ہیں‘‘۔
حکومت کے ان دعووں کے باوجود کئی حلقے ان پر اعتبار کرنے لیے تیار نہیں ہیں اور آنے والے دنوں میں کورونا کے حوالے سے حالات مزید سنگین ہونے جا رہے ہے۔ سندھ حکومت کی ایک اعلی شخصیت نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ آنے والے سات سے دس دنوں میں سندھ میں کرونا کے مریض بائیس ہزار سے زائد ہوجائیں گے۔
DW
♦