اگلی تبدیلی کیا ہوگی ؟

بیرسٹر حمید باشانی

تاریخ حکمرانوں کے قصے کہانیوں کا نام نہیں۔ یہ اسباق کا مجموعہ ہے۔ سیاست میں اسباق بہت ہیں ،مگر ان پرغور و فکر کسی کو گوارا نہیں۔ ایک شخص جس نے ایک مدت اقتدار کی راہداریوں میں گزاری ہے وہ تین عشروں کے دوران مختلف شکلوں میں وقتا فوقتا طاقت کی راہداریوں میں چہل قدمی کرتا رہا ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اس نے کوئی سبق نہ سیکھا ہو گا؟ مگر اس سبق کے اظہار میں اتنی دیر کیوں۔اتنی طویل خاموشی کیوں ؟

پی ڈی ایم کے جلسوں میں جو کچھ ہوا ،جن خیالات کا اظہار ہوا،ان میں کچھ نیا نہیں ہے ۔مگر جو پیغام دیا گیا اس کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے . جلسوں اور احتجاج کے ان مظاہرے کےکئی پہلو ہیں۔ ہر پہلوغور طلب ہے ۔ ایک سوال یہ ہے کہ گزشتہ تین عشروں میں میں اقتدار کے ایوانوں میں جو کھیل کھیلا جاتا رہا ،  ان کے شرکا ہوں یا شکار، ا نہوں نےاس پر اتنی طویل خاموشی  کیوں اختیار کی ۔

 ایک بڑاسوال یہ بھی ہے کہ اگر منتخب لوگ یوں بے بسی و بے چارگی کی تصویر بن جائیں تو پھر ایک آئینی جمہوریت کا کیا مطلب ؟انتخابات کا مطلب کیاہے اور مخلوق خدا کواس مشق سےبار بارکیوں گزارا جاتا ہے ۔اس کا جواب بہت ہی سیدھا اور دو ٹوک ہے کہ کسی کے ہاتھ میں طاقت اور اقتدار کی لگام دینے سے پہلےیہ معلوم کرنا چاہیے کہ اسے عوام کی حمایت اور منظوری حاصل ہے کہ مخلوق خدا کی مرضی کے بغیر  اس پر حکومت کا اختیار  کسی کو نہیں ۔

یہ سبق جب انسان نے بحیثیت مجموعی تاریخ سے سیکھا ہے ۔آئینی جمہوریت کا تقاضہ صرف یہ ہی نہیں ہوتا کہ جن پر حکومت کی جائےان کی رضامندی لینا لازم ہے ،بلکہ اس کا تقاضہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ان کی مرضی لے کر کر اقتدار کے سنگھاسن پر پر براجمان ہونے والوں کوان کی مرضی اور منشا کا لحاظ بھی رکھنا پڑتا ہے ۔عوام جب کسی فرد یا جماعت کا انتخاب کرتے ہیں ، تو ان کے سامنے  وہ نعرے دعوے اور وعدے ہوتے ہیں ، جو ان کی زندگی کے مصائب کو کم کرنے اور ان میں آسودگی لانے کے لئے لیے کیے جاتے ہیں۔

اس کا تیسرا پہلو یہ ہوتا ہے کہ انتخابات کے دوران تو عوام سے وعدے سب کرتے ہیں ، لیکن عوام اپنا اعتماد دیتے وقت کئی عناصر پر غور کرتے ہیں،جس میں اقتدار کے خواہش مندشخصیات کی شخصیت، ان کا طرز زندگی ، ان کا رہن سہن عوام کے ساتھ ساتھ ان کا برتاو ، ان کی تقاریر اور وعدے سب کچھ  شامل ہوتا ہے۔ جو رہنما عوام سےمینڈیٹ لے رہے  ہوتےہیں، ان سے توقع کی جاتی ہے کہ  وہ اقتدار میں جا کر  اپنے ایجنڈے اور وعدے کے مطابق عمل  کریں گے۔

 لیکن اگر اقتدار میں پہنچ کر منتخب ہونے والی شخصیات مجبوریوں کا شکار ہوجائیں ۔خواہ وہ مجبوریاں ملک کے بالادست طبقات کی وجہ سے ہوں، یا وہ مجبوریاں ان کی وہ ان دیکھی زنجیریں ہوں جو مراعات یافتہ اور طاقتور طبقات ان کو پہنا دیتے ہیں،یا وہ  فرمان ہوں ،جن کی اطاعت ان پر لازم ٹھہرتی ہے، تو عوام کے مینڈیٹ کے ساتھ کیا ہوتا ہے ؟پھر یہ عوام کا مینڈیٹ ہوتا ہے ،جومجروح ہوتا ہے ،  اور اس سے جمہوریت کے بنیادی تقاضے مجروح ہوتے ہیں۔

کچھ لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ جب طویل عرصہ اقتدار کے ایوانوں میں رہ کر جن لوگوں کو اپنی طاقت اور اختیار کے تحفظ کی ضرورت نہیں محسوس کی  تو اب اقتدار سے باہر ہونے کے بعداس کی ضرورت  اتنی شدت سے کیوں محسوس ہوئی ؟ جو سچ اب بولا جا رہا ہے یہ برسوں پہلے  نہیں بولا جانا چاہیے تھا؟

  یہ دیر آید درست آید والا معاملہ ہے ۔ اور اگر کوئی بھی شخص طویل مدت کے  بعد سچائی کے راستے پر چلنا چاہتا ہے،یاسچائی کو چراغ راہ بنانا چاہتا  ہے تو اسے اس کا موقع دیا جانا چاہیے کہ اگر اس بنیاد پر لوگوں کو ان کی سوچ اور فکر میں تبدیلی سے روکا جائے آئے تو دنیا میں ہر طرح کی نشوونما اور ہر طرح کی  ترقی وبہتری کے راستے بند ہو جاتے ہیں ۔

کچھ لوگ یہ کہتے ہیں  یہ بالادست طبقات اور  اشرافیہ کی کی آپس میں لڑائی ہے ،  جس میں عوام کوایندھن کی طرح استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔یہ بیانیہ بظاہرکافی حد تک درست ہے ، لیکن یہی پورا سچ نہیں  ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ بے شک یہ بالادست طبقات کی لڑائی ہو، لیکن اس لڑائی  میں ایک طرف جو بیانیہ  ہے ، وہ جمہوریت کو طاقت دینے اور اسے ہر طرح کی زنجیروں سے آزاد کرانے کا بیانیہ ہے۔ اس بیانیے کے بغیر کسی ملک میں جمہوریت کو نشوونما کا موقع نہیں مل سکتا ۔اس میں بالادست طبقات کے مفادات ضرور ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی اہم ہے کہ  یہ جمہوریت ہی ہے جو عوام کو بالادست طبقات کے مقابلے میں طاقت عطا کرتی ہے۔فی الحال جمہوریت ہی وہ واحد راستہ  ہے جس کے ذریعے  عوام کو فیصلہ سازی کے عمل میں میں شریک کیا جا سکتا ہے ۔تو اس طرح یہ بالادست طبقات کی ایسی لڑائی ہے ۔جس کی  کئی کڑیاں ہیں،اور ان میں ایک کڑی عوام سے بھی جڑتی ہے۔

 رہنماؤں کے مفادات اور عزائم جو بھی ہوں،مگرعوام کا جوش و خروش ہے ،اور ان کا جو غصہ اور ناراضی ہے،ان کے لہجے میں جوتلخی ہے، وہ عوام کی فرسٹریشن کو ظاہر کرتی ہے۔جیسا کہ ایک جلسے میں موقع پر موجود ایک صحافی نے کہا ہے کہ عوام حکمران طبقات اور حزب مخالف دونوں سے آگے نکل چکے ہیں۔ عوام کاآگے نکلنے کا جو عمل ہے،  وہ عوام کی ناقابل برداشت مصائب اور ان کے برسوں پرانے مسائل کا نتیجہ  ہے۔ اس لیے جو لوگ تبدیلی لانے نکلے ہیں ،اور اقتدار کے ایوانوں میں ہلچل مچانے کا ارادہ رکھتے ہیں ، انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ  باربار عوام کو روایتی طریقوں سے وعدوں اور نعروں  سے مطمئن کرناممکن نہیں ہوگا ۔

پاکستان کو اس وقت دو بڑے سوال درپیش ہیں۔پاکستان میں اس وقت سب سے بڑا سوال دولت کی منصفانہ تقسیم  کا سوال ہے ۔  دوسرا بڑا سوال عوام کی شمولیت سے معاشرے کی از سر نوسماجی اور معاشی تشکیل ہے ،جس کے بغیر عوام کی زندگی میں کوئی بنیادی  تبدیلی نہیں لائی جاسکتی ۔ جو لوگ تبدیلی کا عزم لے کر نکلیں ہیں، کیا ان کے ایجنڈے میں کوئی ایسی چیز شامل ہے ،  جو اس ملک میں معاشی تشکیل نو کر سکے ۔دولت کی منصفانہ تقسیم ، روزگار ،تعلیم ، صحت، روٹی کپڑا اور مکان کے کے مسائل  کو حل کر سکے۔اگر ایسا نہیں ہے تو جو بھی تبدیلی آئے گی وہ وقتی ہوگی ، جس کے بطن سے ایک نئی تبدیلی جنم لے گی، جو اپنے ریلے میں ان رہنماؤں کو بھی بہا کر لے جائے گی،جو آج اس تبدیلی کے نقیب ہیں ۔

 ♣

Comments are closed.