رضوان عبدالرحمان عبداللہ
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں کورونا وائرس کے فعال کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت جو پہلی لہر میں اپنے ناقص اقدامات سے وبا کے اثرات کو محدود کرنے پر نازاں نظر آتی رہی، دوسری لہر کے لئے اس کا اعتماد ان برتی گئی کوتاہیوں پر مزید بڑھ چکا ہے۔
دوسری طرف اپوزیشن جس کا بنیادی کام حکومت کی کارکردگی اور پالیسیوں پر نظر رکھنا ہوتا ہے، اس معاملے میں وہ بھی حکومت کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے اپنے جلسے جلوسوں میں عوامی صحت اور تحفظ سے خوب کھیلتی نظر آرہی ہے۔
اپوزیشن اتحاد جو ملک میں فوج اور خفیہ اداروں کے سیاست میں کردار کو ختم کرنے کی تحریک کے پہلے مرحلے میں ملک کے مختلف شہروں میں پانچ بڑے جلسے منعقد کرچکی ہے۔ جن کے بغور مشاہدے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے تحریک سلیکٹر سے زیادہ سلیکٹڈ کو پٹخنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔
نوازشریف جنہوں نے گوجرانولہ جلسے میں آغاز تمام کارستانیوں کا الزام ایک حاضرسروس جنرل پر لگا کر کیا، جانے کیوں لاہور جلسے میں مریم نواز نے اس کا سہرا ایک گمنام ریٹائر کرنل پر ڈال دیا۔
بلاشبہ اس مضحکہ خیز نااہل حکومت نے عوام کے مسائل میں بے پناہ اضافہ کیا اور اس سے جان چھڑانا ہی کسی بھی ذی شعور شخص کی خواہش ہونی چاہیے، لیکن کیا اس فسطائی حکومت سے جان چھڑانے کے لئے ایسے بیماروں پر دارومدار کیا جا سکتا ہے، جن پر یہ مصرعہ بخوبی فٹ آتا ہے کہ
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
پی ڈی ایم جو اپنا مقصد حقیقی جمہوری اداروں کی مضبوطی بتاتی ہے وہاں سے ووٹوں کو بوٹوں کے نیچے روندنے والوں پر تنقید کی جاتی ہے تو ان سے مذاکرت میں بھی مضائقہ نہیں سمجھا جاتا۔ کوئی براہ راست نام سننے پر دھچکا کھائے بیٹھے ہیں تو کوئی گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کے نام پر دھچکا کھانے والوں سے مفاہمت کی نیک مطلوب رکھتے ہیں۔ پنڈال سے زیادہ بول بھی لیا جائے ادارے کی بجائے ایک آدھ بندے کو مورد الزام ٹھہرا کر ’’مداوا‘‘کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔
ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ، محمود خان اچکزئی اور اختر مینگل جیسوں کی نیتیں صاف بھی ہوں تو ان کے پاس وہ سیاسی طاقت نہیں کہ اپنے نیتوں کے احوال اپنے اعمال سے دکھا سکیں۔
اس موذی وبائی دور میں اپوزیشن اتحاد کے اس بیانیے پر توجہ دے بھی دی جائے کہ سیاست میں اداروں کی غیر آئینی مداخلت والا وائرس اس وبائی مرض کی نسبت ملک کے لئے زیادہ جان لیوا ہے تو یقینا تحریک کا آغاز آرمی ایکٹ ترمیم جیسے گناہ میں شریک ہونے کی ندامت سے کیا جا سکتا تھا؟
پارلیمانی جمہوریت کی عظمت کے گن گاتے یہ دیوانے تو گلگت بلتستان کا سیاسی حل بھی ڈھونڈتے ڈھونڈتے جی ایچ کیو کی طرف جا نکلے۔ اور تو اور اپوزیشن اتحاد کے بڑے چہرے جن طاقتوں کو عمران خان کی حکومت کو برسراقتدار لانے کا مرتکب ٹھہرا رہے وہ شاید بھول چکے ہیں کہ وہ بھی ماضی قریب میں انہی کی وجہ سے اپنے وقت کے ’’عمران خان‘‘ بنے، اور یہ بھی بعید نہیں کہ ’’ارتقا کے اس عمل‘‘ سے گزر کر مستقبل میں کسی اور صورت میں پھر’’عمران خان‘‘ بن جائیں۔
رہی بات ان دانشوروں کی جو میاں صاحب کی تلخ و ترش تقریروں سے جموریت کی ٹھںڈی آہیں بھرتے ہیں، اگر وہ گوڈوں سے اوپر سوچنا شروع کریں تو یقینا جان پائیں کہ جلسے جلسوں، لانگ مارچوں، استعفوں، پہیہ جام ہڑتالوں، شٹر ڈاؤن جیسے سہل پسند طریقوں سے فقط چہرے تبدیل ہوں گے۔ ْ
نظام تو سوچ سے بدلا جاتا ہے، ہماری قومی سوچ تو پروان ہی تعلیم و صحت پر اسلحوں اور بمبوں کو فوقیت دیتی چڑھی ہے۔ کیا ایسی قوم کی تربیت کرنے کی بساط یا اوقات ان سیاستدانوں یا دانشوروں کی ہے؟
اگر یہ دلیل بھی دی جائے کہ جمہوریت انسانی کاوشوں کی مرہونِ منت ہیں اور ان کاوشوں کا آغاز ہمارے جمہوریت کے چیمپئن عوام کے ووٹوں کا ضامن بن کر کر رہے ہیں تو براہ کرم تھوڑی سی کاوش عوام کی صحتوں کے بارے میں بھی اقدام اٹھا کر کریں۔ اپوزیشن اتحاد کے جلسوں میں دیکھا گیا ہے کہ سماجی فاصلے تو درکنا سٹیج سے ماسک پہننے کی اپیل کو سٹیج پر بیٹھنے والے ہی رد کر دیتے ہیں۔ کیا ہمارے رہنما یہ جانتے ہیں کہ جمہوریت کی بقا کے کورونا سے بے احتیاطی لازم نہیں؟
♣