کیا تحریک لبیک پر پابندی موثر ثابت ہوگی؟

تحریک لبیک پاکستان پر پابندی لگانے کے اعلان پر کئی حلقوں میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ آیا یہ پابندی موثر بھی ہو گی یا نہیں؟ یا پھر یہ ایک نئے نام کے ساتھ میدان میں آ جائے گی جیسا کہ ماضی میں دیگر جماعتیں کرتی آئی ہیں۔

جنرل مشرف کے دور میں بہت ساری جہادی اور فرقہ وارانہ تنظیموں پر پابندی لگائی گئی تھی۔ ان میں جیش محمد، لشکر طیبہ، جماعت الدعوہ، سپاہ صحابہ، پاکستان تحریک جعفریہ اور بے شمار دوسری تنظیم میں بھی شامل تھیں۔ ایک اندازے کے مطابق ملک میں اس وقت 57 سے زائد تنظیموں پر پابندی ہے۔ لیکن ان میں سے بہت ساری تنظیموں نے نام بدل کر کام کرنا شروع کر دیا اور اب بھی کچھ ایسی جماعتیں ہیں، جو قانونی طور پر کالعدم ہیں لیکن وہ دوسرے ناموں کے ساتھ فعال ہیں۔ گزشتہ پندرہ برسوں میں بلوچ لبریشن سمیت کئی قوم پرست اور علیحدگی پسند تنظیموں پر بھی پابندیاں لگیں۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ڈاکٹر محمد سرفراز خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیاسی اور مذہبی جماعتوں پر پابندیوں کی ایک تاریخ ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ملک میں سب سے پہلے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی لگائی گئی اور اس کے رہنماؤں کو پنڈی سازش کیس میں گرفتار کیا گیا۔ اس کے علاوہ جگتو فرنٹ، عوامی لیگ، نیشنل عوامی پارٹی اور جماعت اسلامی پر بھی پابندی لگی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ نیشنل عوامی پارٹی پر دو دفعہ پابندی لگائی گئی، ایک مرتبہ جنرل یحییٰ خان اور دوسری مرتبہ بھٹو نے پابندی لگائی۔ یہ پابندی سپریم کورٹ کے ذریعے لگوائی گئی‘‘۔

جماعت اسلامی سے وابستہ ایک دانشور نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ جماعت اسلامی پر بھی پابندی 1963 میں لگائی گئی تھی، جس کے خلاف اس نے مشرقی پاکستان کی ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، جماعت اسلامی نے مشرقی اور مغربی پاکستان کے ہائی کورٹس سے رجوع کیا۔ مشرقی پاکستان کی ہائی کورٹ نے اس پابندی کو ختم کر دیا جبکہ مغربی پاکستان کے ہائی کورٹ نے پابندی کو برقرار رکھا۔ تو مشرقی پاکستان میں اس وقت کی حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا جبکہ مغربی پاکستان میں جماعت اسلامی نے خود سپریم کورٹ سے رجوع کیا، جس نے پابندی ختم کر دی‘‘۔

کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل امداد قاضی کا کہنا ہے کہ جتنی سخت پابندی کمیونسٹ پارٹی پر لگائی گئی شاید ہی کسی جماعت پر لگائی گئی ہو، حالات کا جبر ایسا تھا کہ ہم نے کسی عدالت سے رجوع نہیں کیا۔ جبر کا یہ عالم تھا کہ اگر کسی کے پاس سے کمیونسٹ پارٹی کا پمفلٹ بھی ملتا، اسے سزا ملتی۔ تو ہم پر ایک طرح سے غیر اعلانیہ پابندی رہی اور ہمارے ساتھ بہت سختی کی گئی۔ یہاں تک کہ بھٹو کے نام نہاد جمہوری دور میں بھی ہمارے کئی کارکنان کو گرفتار کیا گیا‘‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جب بینظیر بھٹو کی حکومت آئی تو اس کے بعد پارٹی نے اپنی سرگرمیاں شروع کیں، ہم نے اس وقت کے وزیر داخلہ چودھری اعتزاز احسن سے رابطہ کیا اور اپنی قانونی حیثیت کے بارے میں دریافت کیا۔ انہوں نے کہا کہ قانونی طور پر آپ پر کوئی پابندی نہیں ہے اگر کوئی عدالت آپ کے خلاف جاتا ہے تو حکومت یہ موقف اپنائے گی کہ آپ پر پابندی نہیں ہے‘‘۔

تحریک لبیک پاکستان پر پابندی لگانے کے اعلان کے بعد کئی ناقدین یہ بھی سوال کر رہے ہیں کہ آیا اس پابندی سے ملک میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کو روکا جا سکتا ہے یا نہیں؟ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی صحافی اور سیاسی تجزیہ نگار فوزیہ شاہد کا کہنا ہے کہ اگر پابندی نیشنل ایکشن پلان کے نکات کو پیش نظر رکھ کر لگائی گئی ہے اور اگر اس پابندی کے بعد نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات پر عمل کیا جائے تو یقینا اس سے انتہا پسندی کی روک تھام میں مدد مل سکتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، اگر ریاست واضح طور پر اپنی پالیسی تبدیل کر لے اور نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات پر سختی سے عمل کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ انتہاپسندی کو نہ روکا جا سکے۔ تحریک لبیک کے کارکنان نے ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا ہے اور 300 سے زیادہ پولیس اہلکاروں کو زخمی کیا ہے جبکہ دو ہلاک بھی ہوئے ہیں۔ یہ ریاست کے لیے بہت شرمندگی کی بات ہے تو ریاست اگر آج فیصلہ کرلے کہ اس کو اپنی رٹ قائم کرنی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ پابندی موثر نہ ہو۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہیے کہ یہ تنظیمیں نام بدل بدل کے دوبارہ سے کام کرنا نہ شروع کر دیں،اس کے علاوہ نفرت انگیز مواد کو سختی سے ختم کرنا چاہیے۔ یہ شکایت عام ہے کہ مساجد میں متنازعہ تقریر کی جاتی ہیں تو خطبات پر نظر رکھنے کی ضرورت بھی ہے۔‘‘

پشاور سے تعلق رکھنے والے سیاسی مبصر مختار باچا کا کہنا ہے کہ انتہاپسندی کو کم کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ریاست اپنی پالیسیوں کو تبدیل کرے، مدارس کے نصاب میں جدید دور کو پیش نظر رکھتے ہوئے تبدیلیاں کی جائیں اور ایسے مضامین بھی پڑھائے جائیں جو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ہوں۔‘‘

تاہم ڈاکٹر محمد سرفراز خان کا کہنا ہے کہ وہ پر امید نہیں ہیں، آج بھی میرا عدالت جانے کا اتفاق ہوا اور میں نے دیکھا کہ وہاں ٹی ایل پی کے کارکنان کو عدالت ضمانتوں پر چھوڑ رہی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں، جنہوں نے دو تین دن تک ریاست کو بالکل مفلوج کر دیا اور پورے ملک کو انتشار کی نذر کیا۔ تو یہاں پابندیاں لگا دی جاتی ہیں لیکن موثر طریقے سے اس پابندی پر عمل نہیں کیا جاتا۔ سپاہ صحابہ اور تحریک جعفریہ سمیت آج بھی کالعدم تنظیمیں کام کر رہی ہیں‘‘۔

dw.com/urdu

Comments are closed.