بیرسٹر حمید باشانی
ماحولیاتی انصاف کیا ہے ؟ ماحولیاتی انصاف کے لیے دنیا میں کیا جدو جہد ہو رہی ہے ؟ اور پاکستان ماحولیاتی جسٹس کے باب میں کہاں کھڑا ہے ؟ یہ وہ موضوعات ہیں، جن پر پاکستان میں بہت زیادہ لکھا یا بولا نہیں جاتا ۔ حالاں کہ اس وقت ماحولیات اور ماحولیاتی انصاف دنیا کے بیشتر ممالک میں اہم ترین موضوعات ہیں۔ اقوام متحدہ اس عشرے کو ماحولیاتی عشرے کے طور پر بنا رہی ہے۔ اس حوالے سے دنیا بھر میں کانفرنسیں، سمینار، اور مکالمہ ہوگا۔ اگلے ماہ پانچ جون کو دنیا میں ماحول کے دن کے طور پر بنایا جا رہا ہے۔
اس حوالے سے ایک عالمی ورچول کانفرنس ہوگی۔ اس کانفرنس میں جرمن چانسلر اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل شرکت کریں گے، اور اس کی صدارت وزیر اعظم عمران خان کریں گے۔ کہا جاتا ہے کہ اس موقع پر پاکستان ماحولیات کے حوالے سے کچھ اہم اعلانات کرے گا۔ دس ارب درختوں کا سونامی، سبز پاکستان، بجلی کی توانائی پر چلنے والی گاڑیاں اور سبز روز گار جیسے معاملات پراہم اعلانات ہوں گے۔
گزشتہ چند سالوں سے جہاں بھی ماحولیاتی تحفظ کا ذکر آتا ہے تو اس میں دس ارب درختوں کے سونامی پروگرام کا ذکر کر کہ ارباب اختیار بڑے فخر سے نا صرف اپنی پیٹھ تھپتھپاتے ہیں، بلکہ دنیا کی طرف داد طلب نگاہوں سے بھی دیکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں دس ارب درختوں کا کارنامہ ایسا ہے، جس کی وجہ سے دنیا کو ان کی ماحول دوستی کا قائل ہر ان کی تقلید کرنی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حال ہی میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں پاکستان کو دعوت نہیں دی گئی تو یہ ان کے لیے حیرت اور افسوس کی بات تھی۔ حالاں کہ پالیسی سازوں کے علم میں یہ بات یقینا ہوگی کہ درخت لگانا ماحولیاتی تحفظ کے لیے ایک اہم قدم ضرور ہے، مگر کافی نہیں ہے۔ اس میدان میں کسی قابل ذکر کامیابی کے لیے دنیا اور ماحول کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
گزشتہ دنوں ” زوم ریڈنگ روم ” میں ہم نے ماحولیات پر ایک اہم کتاب ” سرمایہ داری بنام ماحولیات ” پر گفتگو کی ہے۔ ماحولیات اور موجودہ معاشی نظام پر یہ کتاب مشہور کینیڈین مصنف نومی کلین نے لکھی ہے۔ 2014 میں نیو یارک ٹائمز کی طرف سے سب سے زیادہ فروخت ہونے والی اس کتاب میں نومی کلین سیاسی نقطہ نظر سے ماحولیاتی مسئلے کا جائزہ لیتی ہے۔ اور اس سوال کا جواب فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ ہم ماحولیاتی تبدیلی کے خطرے کا جواب دینے میں اب تک ناکام کیوں رہے ہیں۔ وہ اپنے دلائل کی بنیادحقائق اور سائنسی اعداد وشمار پر رکھتی ہے۔ اس سائنسی رائے کے مطابق ہم ایک ایسی ماحولیاتی تباہی کی طرف گامزن ہیں، جو قدرتی ماحول کو ناقابل مرمت یا ناقابل تلافی نقصان پہچائے گی۔ یہ کروڑوں زندگیاں تباہ کر دے گی، اور انسانی سماج کو غیر مستحکم کردے گی۔
وہ سوال اٹھاتی ہے کہ اتنے بڑے خطرے کی موجودگی میں اس کے تدارک کے لیے ہماری کوششیں اتنی محدود کیوں ہیں۔ کلین کے نزدیک اس کا جواب سیاسی ہے۔ ہمارے پاس پہلے ہی کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے ٹیکنالوجی اورعلم موجود ہیں۔ اس ٹیکنالوجی اورعلم کی بنیاد پر ہم توانائی کے متبادل اور قابل تجدید ماڈل اپنا سکتے ہیں۔ اگر اس وقت ہمارے پاس کسی چیز کی کمی ہے تو وہ سیاسی خواہش اور ارادے کی کمی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے لیے موجودہ نظام میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے ۔ یہ تبدیلیاں موجودہ نظام کو چلانے والے طاقت ور اور مراعات یافتہ گروہوں کے مفادات سے متصادم ہیں۔ اور یہی وہ لوگ ہیں، جن کا سیاست میں غالب کردار ہے۔ یہ لوگ عام دھارے کی سیاست کے خدوخال طے کرتے ہیں۔ کاربن کے اخراج میں کمی لانے کے لیے ہمیں ہر چیز بدلنے کے لیے تیار ہونا پڑے گا۔ ہمیں فری مارکیٹ یا آزاد منڈی کی معیشت کے روایتی دائروں سے باہر دیکھنا ہوگا۔ کاربن زدہ طرز زندگی بدلنا ہوگا۔ اور اس خیال کو بدلنا ہوگا کہ ہم فطرت کو لامحدود پیمانے پر استعمال کر سکتے ہیں، اور کنٹرول کر سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے دنیا کو دیکھنے کے لیے ایک نئے زوایہ نگاہ کی ضرورت ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف جدوجہد دراصل معاشی اور سماجی انصاف کی جدوجہد سے جڑی ہوئی ہے۔ اس لیے تبدیلی کے لیے ایک “گراس روٹ” تحریک کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی تحریک جو موجودہ سماجی و سیاسی جدوجہد کے مختلف عناصر اور رنگوں کو یکجا کر سکے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف جدوجہد کے راستے میں موجود کئی رکاوٹوں کو عبور کرنا ہوگا۔ ان رکاوٹوں میں بہت ساری قابل ذکر ہیں۔ ان میں پہلی رکاوٹ وہ منظم تحریک ہے، جو ماحولیاتی تبدیلی اور تباہی سے انکار کرنے والے لوگوں کی قیادت میں چلائی جا رہی ہے۔ دوسری بڑی رکاوٹ خود نیو لبرل ازم کا نظام ہے۔ اور تیسری رکاوٹ وہ “آزاد تجارتی معاہدے“ہیں، جو عالمی سطح پر اسی اور نوے کی دہائیوں میں کیے گئے۔ اس کے علاوہ اس راستے کی بڑی رکاوٹوں میں ایک رکاوٹ حیاتیاتی ایندھن کی طاقت ورصنعت اور سیاست میں اس کا اثر و نفوذ بھی ہے۔
ان سب رکاوٹوں کے خلاف جدوجہد ماحولیات کے تحفظ اور انسانی زندگی کی بقا کے لیے لازم ہے۔ اور ان رکاوٹوں کو ختم کرکے ایک نیا نظام تعمیر کیے بغیر ماحول بچانے میں مکمل کامیابی ممکن نہیں ہے۔ لیکن کسی مکمل انقلاب یا تبدیلی تک ماحول کے تحفظ کے لیے متبادل پالیسیوں پر غور کرنا بھی ضروری ہے۔ مثال کے طور پر جرمنی کا قابل تجدید توانائی کا انفراسٹرکچر جو جمہوری طریقے سے چلایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا میں کئی ماحول دوست منصوبے، ٹیکس ماڈل، اور قوانین بھی ہیں، جن کے تحت ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والے منصوبوں سے فنڈز نکال کر ماحولیات دوست منصوبوں پر لگائے گئے ہیں۔
متبادل طریقوں اور ذرائع میں ایک بڑا اور کامیاب ذریعہ عوامی تحریکیں ہو سکتی ہیں۔ ان تحریکوں کے ذریعے ارباب اختیار کو ماحول میں آلودگی پیدا کرنے والی پالیسیوں میں تبدیلی لانے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں دنیا بھر میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے بکھری ہوئی چھوٹی موٹی تحریکوں کو ایک بڑی عوامی تحریک ” ماس موومنٹ ” کی شکل میں یکجا کرنا ضروری ہے۔
کلین نے اس کتاب میں ان عناصر کا جائزہ لیا ہے، جس نے ماحولیاتی تحفظ کی تحریک میں منفی کردار ادا کیا ہے۔ کتاب کے پہلے حصے میں ” غلط وقت“یعنی بیڈ ٹائمنگ کا تذکرہ ہے۔ اس میں اس سیاسی پس منظر کا جائزہ لیا گیا ہے،جس میں ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف لڑائی لڑی گئی۔سیاسی پس منظر کے ساتھ ساتھ اس وقت کے سیاسی اتار چڑھاو اور نتائج کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ ” غلط وقت” کا مطلب یہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف جدو جہد عین اسوقت شروع ہوئی جب اس کرہ ارض پر نیولبرل ازم ایک غالب طاقت کے طور پر ابھر رہا تھا۔ اس ابھرتے ہوئے نیو لبرل ازم کے مقابلے میں ایسی ماحول دوست پالیسیوں کو آگے بڑھانا مشکل تھا، جو نیولبرل ازم کی پالیسیوں اور مفادات سے متصادم تھیں۔
دوسرا منفی فیکٹر ” جادوئی سوچ” یا مجیکل تھینکنگ کا رواج تھا۔ یہ سوچ ناکام اس لیے ہوئی کہ بڑے کاروباری ادارے اور افراد اپنے طور پر ماحولیاتی تبدیلی کا کوئی جادوئی فارمولا ڈھونڈ رہے تھے۔ اس میں کھرب پتی حضرات بھی شامل تھے، جو اپنی شرائط پر ماحول کو بچانے کی خواہش رکھتے تھے۔ یا ایسے لوگ جو مستقبل کی ٹیکنالوجی سے کسی معجزہ کی توقع رکھتے تھے۔ یہ منفی عناصر ابھی تک موجود ہیں۔ کئی جادوئی سچ کا غلبہ ہے۔ اور کئی اس خام خیالی کا غلبہ ہے کہ ماحولیاتی تباہی کی ذمہ دار قوتوں کے مفادات کو چھیڑے بغیر محض درخت لگانے یا اس طرح کے دوسرے اقدامات سے ماحول کو بچایا جا سکتا ہے۔
♠