بیرسٹرحمید باشانی
آزاد کشمیر میں انتخابات کا بگل بج چکا ہے۔ اٹھائیس لاکھ سے زائد ووٹر حق رائے دہی کے استعمال کے لیے تیار ہیں۔ روایتی جوڑ توڑ کا آغاز ہوچکا ہے۔ حسب سابق ٹکٹوں کی تقسیم پر خرید وفروخت اور ہیراپھری کے الزامات عام ہیں۔ بہت سارے امید واروں کو یہ شکوہ ہے کہ مقابلے کے لیے میدان مساوی نہیں ہے۔ دولت اور سرمائے کی چمک نمایاں ہے۔ ارباب اختیار سمیت سب کی دلچسبی کامرکز ” ایلکٹیبلز” ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنی پارٹیوں پر سب کچھ قربان کیا انتخابات کے موسم میں ان کو دولت کی چمک اور الیکٹیبز کی دمک کے مقابلے میں حقارت سے نظر انداز کر دیا گیا۔
انتخابات جمہوریت کا روح اور جوہر ہیں۔ یہ واحد راستہ ہے، جس پر چل کر عوام کو اپنے لیڈروں کا انتخاب کرنےاور ان کا احتساب کرنے کا موقع ملتا ہے۔ لیکن الیکشن کی برکات سے فائدہ اٹھانے کے لیے انتخابات کا آزاد اور شفاف ہونا ضروری ہے۔ صرف انتخابات منعقد کرانا کافی نہیں ۔ دنیا کے کئی ممالک میں باقاعدگی سے انتخابات ہوتے ہیں، مگر جمہوری دنیا ان کو جمہوریت ماننے کے لیے تیار نہیں ۔ قابل اعتبار انتخابات جن کے ذریعے کسی ملک کو جمہوری ملک مانا جاتا ہے، اس کے کچھ بنیادی تقاضے ہیں، جو جمہوری دنیا میں مسلمہ ہیں۔
ان میں سے کچھ شرائط یونیورسل ڈیکلئیریشن فار ہیومن رائٹس اور انٹر نیشنل کوویننٹ آن سول اور پولیٹیکل رائٹس میں موجود ہیں۔ ان اعلامیوں اور معاہدوں کے مطابق یہ ہر شخص کا حق ہے کہ وہ آزادانہ طریقے سے منتخب شدہ نمائندوں کے ذریعے اپنے ملک کی حکمرانی میں حصہ لے۔ وہ انتخابات میں خفیہ رائے دہی کے ذریعے اپنا ووٹ دے۔نظریے اور عقیدے کا لحاظ کیے بغیر اسے انتخابات میں بطور امیدوار حصہ لینے کے لیے مساوی مواقع حاصل ہوں۔ اور اسے اپنے سیاسی خیالات کے اظہار کا حق ہو۔ اگر انتخابات میں ان بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ قوانین و روایات میں سے کسی ایک کی خلاف ورزی ہوتی ہے، تو ان انتخابات کو آزاد اورشفاف نہیں مانا جاتا۔ اور جس ملک میں ایسے انتخابات ہوتے ہیں، اسے یا تو جمہوری ماننے سے انکار کر دیا جاتا ہے، یا جمہوریت کی درجہ بندی میں اسے نیم ،جمہوری یا خراب جمہوریت کی صف میں ڈالا جاتا ہے۔
انتخابی عمل میں پہلا مراحلہ ووٹر کی رجسٹریشن ہے۔اس کا تعلق ووٹ دینے یا پھر بطور امیدوار عوام سے اپنے لیے ووٹ لینے سے ہے۔ووٹر کی رجسٹریشن پر حکومتِیں چند معقول پابندیاں عائد کر سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر ووٹر کی عمر کیا ہونی چاہیے ؟ یا اس کی شہریت کیا ہے؟ یہ شرائط قابل قبول ہیں۔ لیکن حکومتیں محض امتیازی سلوک کی بنیاد پر ووٹر کو رجسٹریشن سے نہیں روک سکتی، ایسا عمل خواہ کسی شکل میں ہو آزاد اور شفاف الیکشن کے اصولوں سے متصادم ہے۔ماضی میں اس کی کئی مثالیں رہی ہیں۔
مغربی جمہو ریتوں میں اس کی کئی ایک مثالیں موجود ہیں۔ یورپ میں ایک زمانے میں ایک شہری کو ووٹ دینے کے لیے لازم تھا کہ وہ صاحب جائداد ہو۔ یعنی جس کے پاس جائداد نہیں ہے، اس کا شماران غریب لوگوں میں کیا جاتا تھا، جن کو حق رائے دہی حاصل نہیں تھا۔ امتیازی سلوک کی ایک بدترین شکل ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں مروج تھی۔ امریکہ میں نصف صدی پہلے تک سیاہ فام لوگوں کو بطور ووٹر رجسٹر ہونے سے پہلےان کا لٹریسی ٹیسٹ لیا جاتا تھا۔ یعنی ان پڑھ سیاہ فام لوگوں کو حق رائے دہی حاصل نہیں تھا۔ یہ امتیازی سلوک سن1965 کے الیکشن ایکٹ کے تحت ختم کیا گیا۔ ہمار ے ہاں رنگ و نسل کا امتیازی سلوک نہیں ہے، لیکن کچھ لوگ شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے ووٹ دینے سے محروم رہ جاتے ہیں، جس کا تعلق غربت و پسماندگی سے ہوتا ہے، غریب اور پسے ہوئے طبقات عموماً شناختی دستاویزات سے محروم ہوتے ہیں۔
دنیا کے جمہوری معیار کے مطابق ایسے انتخابات کو آزاد اور شفاف نہیں مانا جائے گا، جس میں حکومت میڈیا کوکسی خاص پارٹی یا گروپ کو کوریج دینے سے روکے۔ اس کی ایک مثال حال ہی میں عالمی فورمز پر زیر بحث رہی ہے ۔2020 کے انتخابات میں تیسری بار صدر بننے کے شوق میں مبتلا برونڈی کے صدر نے مخالفین کو کوریج دینے والے صحافیوں کو گرفتار کر کہ جیلوں میں ڈالا۔ دنیا نے اس کے خلاف سخت رد عمل دیا، اور برونڈی کے صدارتی انتخابات کو آزاد اور شفاف ماننے سے انکار کر دیا۔ ہمارے ہاں حکمران شاید اس حس تک جانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ لیکن ارباب اختیار کے پاس اشتہارات سمیت لالچ و خوف کے کئی کارگر حربے ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے میڈیا کے لوگ خود ہی شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا طرز عمل اختیار کر لیتے ہیں۔
ایک آزاد اور شفاف انتخابات میں حکومت یہ فیصلہ نہیں کر سکتی کہ کون انتخابات لڑ سکتا ہے، اور کون نہیں لڑ سکتا۔ نہ ہی حکومت ایسے امتیازی قوانین بنا سکتی ہے، جس میں کسی خاص پارٹی یا گروپ کو کسی خاص نظریے یا عقیدے کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لینے سے روکا جا سکے۔ اس کی ایک انہونی مثال2019کے انتخابات میں ماسکو کے مقامی انتخابات میں سامنے آئی تھی، جس میں حکومت مخالف امیدواروں کو مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے مقابلے سے باہر رکھنے کی کوشش کی گئی تھی۔
دنیا بھر کے دانشوروں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ اگر کسی سیاسی پارٹی یا گروپ کو انتخابات میں حصہ لینے سے ہی روکا جائے، تو یہ حق رائے دہی پر براہ راست مداخلت اور قدغن سمجھی جائے گی، جو کسی بھی مسلمہ جمہوریت میں نا قابل قبول ہے۔ آزاد کشمیر میں سیاسی نظریے کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کو رجسٹر نہ کرنےاور امیدواروں کا انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کا عمل پورے انتخابی عمل پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔
اس امر کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ انتخابات کا انعقاد ہر قسم کے خوف، لالچ اور دباو سے آزاد ہو۔ پولنگ اسٹیشن عام آدمی کے لیے محفوظ ہوں۔ وہاں پر تشدد کے خطرات نہ ہوں۔ خفیہ بیلٹ کا واحد مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ ہر آدمی خفیہ طریقے سے اپنی رائے کا اظہار کرے، اور کسی دوسرے شخص کو یہ خبر نہ ہو کہ کوئی ووٹر اپنا ووٹ کس امیدوار کے حق میں کاسٹ کر رہا ہے۔انتخابات کے دوران انتخابی اخراجات کو قانونی حدود میں رکھنا حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔اس کے بغیر سب امیدواروں کے لیے مساوی میدان کی شرط پوری ہونا ممکن نہیں ہے۔ سرمائے کے زور پر ووٹ کی خرید و فروخت کا عمل جمہوریت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ انتخابات میں اخراجات کی زیادہ سے زیادہ حد تک تعین اور اس پر سختی سے عمل درا٘مد ضروری ہے، جس کے بغیر جمہوریت مراعات یافتہ طبقات کی لونڈی بن جاتی ہے۔
ووٹنگ کے دوران چھوٹا سا فراڈ بھی پورے انتخابات کو بے اعتبار بنا دیتا ہے۔ تیسری دنیا کی اکثر پسماندہ جمہو ریتوں میں انتخابات کے دوران فراڈ کے الزامات سامنے آتے ہیں۔ پاکستان میں شاید ہی کوئی انتخاب ایسا ہوا ہو، جس میں ووٹنگ فراڈ کا کوئی نہ کوئی الزام سامنے نہ آیا ہو۔ گزشتہ انتخابات میں دھاندلی کا بڑا الزام سامنے آیا تھا، جس پر اب تک لے دے ہو رہی ہے۔
انتخابات کے بعد ووٹ کی گنتی اوران کے نتائج کے اعلان میں ہیرا پھری یا دھاندلی کے الزامات بھی عام ہیں۔ یہ الزامات پاکستان میں حالیہ ضمنی انتخابات کے دوران منظر عام پر آئے ہیں، جہاں ہارنے والی پارٹیوں نے نتائج کو چیلنج کیا۔ حالاں کہ پاکستان سمیت بیشتر ممالک میں بظاہر آزاد الیکشن کمیشن جیسے ادارے قائم ہیں، جن کی بنیادی ذمہ داری حکومتوں اور افراد کو انتخابی فراڈ سے روکنا ہے۔ آزاد کشمیر میں نگران حکومت نہیں ہے۔ مقامی ارباب اختیار خود انتخابات کا حصہ اور امیدوار ہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں برسر اقتدار پارٹی“ایکیلٹیبلز” کو اپنی صفوں میں شامل کرتے ہوئے فتح کی دعویدار ہے۔ ان حالات میں ا لیکشن کمیشن کو اپنی خودمختاری اور غیر جانب داری ثابت کرنے کا سخت چیلنج درپیش ہے۔
♦
One Comment