شورش زدہ ملک افغانستان میں طالبان عسکریت پسندوں کی مزید علاقوں پر بتدریج کنٹرول حاصل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک ضلعے کے انتظامی گورنر نے قبضہ مکمل ہونے پر خود کو طالبان کے سامنے پیش کر دیا۔ ان قبضوں کی تصدیق صوبائی پارلیمنٹیرین نے بھی کر دی ہے۔
مغربی افغان صوبے غور کے ایک ضلع تُولک پر طالبان کے قبضے کی تصدیق ہفتہ بارہ جون کو مقامی عمائدین اور شہریوں نے کی ہے۔ ان میں غور اسمبلی کے تین مقامی اراکین بھی شامل ہیں۔ جمعے اور ہفتے کی رات کے دوران حکومتی سکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیاں شدید جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔
ان جھڑپوں میں حکومت کی حامی فورسز کے ایک درجن سے زائد اہلکاروں کی ہلاکت بھی ہوئی۔ ہلاکتوں اور زخمیوں کی تصدیق غور اسمبلی کے رکن کرم الدین رضا زادہ نے نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے کی۔ رضا زادہ نے ہی ہفتہ بارہ جون کو تُولک کے ضلعی گورنر اور ان کے تمام عملے نے بھی طالبان کے سامنے ہتھیار پھینک دینے کی اطلاع دی۔
شمالی افغان صوبے بلخ کے ایک ضلع زارا کے بارے بھی بتایا گیا ہے کہ طالبان عسکریت پسندوں نے اس کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ اس ضلع کے مرکزی علاقے میں واقع حکومتی دفاتر میں سے ملازمین کو جبری طور پر باہر نکال دیا گیا۔ اس شہر کے ایک کونسلر افضل حدید نے یہ بھی بتایا کہ طالبان نے حکومتی سکیورٹی فورسز کو پانی کی سپلائی روک دی ہے۔
افضل حدید کے مطابق حکومت کے حامی فوجی دستوں نے بغیر لڑائی کے زارا شہر کا مرکز خالی کر دیا ہے۔ فوجیوں کو شہر سے نکلنے میں افغان ایئر فورس کے جنگی طیاروں نے بھی مدد کی۔ دوسری جانب افغان فوج کی 209 کور نے بتایا ہے کہ فوجیوں کو شہر سے نکال کر ایک اور اہم جگہ تعینات کیا گیا ہے۔ یہ تعیناتی ضلعی کونسل کی ہدایت پر کی گئی ہے۔
حالیہ چند ہفتوں کے دوران افغانستان کے کئی علاقے طالبان عسکریت پسندوں کے کنٹرول میں چلے گئے ہیں۔ علاقوں پر قبضے میں شدت امریکی اور مغربی دفاعی اتحاد کی افواج کے انخلا کے اعلان کے بعد سے پیدا ہوئی ہے۔ رواں برس یکم مئی کے بعد اب تک سترہ اضلاع پر طالبان قبضہ کر چکے ہیں۔ غیر ملکی فوجوں کا انخلا اسی سال مکمل ہو جائے گا۔ افغانستان کے چونتیس صوبوں میں چار سو کے قریب اضلاع ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس جن پانچ اضلاع پر طالبان نے قبضہ کیا تھا، ان میں سے چار کو ملکی فوج نے آزاد کروا لیا تھا۔
افغانستان کو ان دنوں شدید عدم استحکام کا سامنا ہے اور اس باعث سلامتی کی مجموعی صورت حال کمزور سے کمزور تر ہوتی جا رہی ہے۔ جمعہ گیارہ جون سے اب تک تیرہ سے زائد افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں، جن میں سات سویلین ہیں۔
افغان وازرتِ داخلہ نے تصدیق کی ہے کہ ہزارہ آبادی کے علاقوں میں دو منی وینوں کو نشانہ بنایا گیا اور ان حملوں میں نصف درجن افراد زخمی ہوئے۔ کابل میں ایک زوردار دھماکے کی بھی اطلاع ہے لیکن اس بابت کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی ہے۔
dw.com/urdu