بیرسٹرحمید باشانی
پاکستان کی پارلیمان میں جو کچھ ہوا بہت افسوسناک ہے۔ کچھ “عزت ماب” اراکین کی دوسرے “عزت ماب” اراکین کی یوں عزت افزائی کا عمل عام لوگوں نے حیرت و افسوس سے دیکھا۔ کئی رائے دہندگان کو اپنے فیصلے اور انتخاب پر پشیمانی اور ندامت ہوئی۔
دنیا بھر میں پارلیمان اور قانون ساز اسمبلیاں اپنے اندر بحث و مباحثے کے لیے کچھ قواعد و ضوابط طے کرتے ہیں۔ یہ قواعد و ضوابط تب سے بنتے آرہے ہیں، جب سے یہ ادارے معرض وجود میں آئے ہیں۔ ان قواعد و ضوابط کی روشنی میں کچھ روایات بھی بن چکی ہیں، جن کو قانون کی طرح احترام دیا جاتا ہے۔ چنانچہ پارلیمانی روایات بھی اتنی ہی اہم ہیں ،جتنے قواعد وضوابط اور متعلقہ قوانین ہوتےہیں، یہ وہ قواعد ضوابط اور روایات ہیں ، جن کی روشنی میں یہ طے کیا جاتا ہے کہ پارلیمان یا اسمبلی کے فلور پر بولا جانے والا کون سا لفظ یا فقرہ پارلیمانی ہے، اور کون سا غیر پارلیمانی ہے۔ اس طرح ایک طویل پارلیمانی عمل میں کچھ الفاظ کی واضح طور پر نشاندہی کی گئی ہے، جن کے استعمال کو غیر پارلیمانی زبان کہا جاتا ہے۔
ان قواعد و ضوابط اور روایات کے باوجود بہت ساری جمہوریتوں میں بہت کچھ سپیکر کی صوابدید پر چھوڑا جاتا ہے۔ سپیکر کے ذمہ ایک اہم اور بنیادی کام یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اسمبلی کے اندر مباحثے کے اصولوں کا نفاذ کریں ۔ اور ان کی یہ بھی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اس بات کا خیال رکھیں کہ کوئی ممبر غیر پارلیمانی یا غیر اخلاقی زبان نہیں استعمال کر رہا ہے۔ چونکہ اس بات کا تعلق براہ راست پارلیمان یا اسمبلی کی وقار سے ہوتا ہے۔ اور یہ ظاہر ہے سپیکر کی زمہ داری ہے کہ وہ اسمبلی کی تعظم کو یقینی بنائے۔
دنیا میں الگ الگ جمہوری نظام ہیں، جن کے قواعد و ضوابط اور روایات میں تھوڑا بہت فرق ہے۔ دولت مشترکہ کے جمہوری ممالک اکثر و بیشتر برطانوی پارلیمانی نظام کی تقلید ہی کرتے ہیں، جسے عام طور پر” ویسٹ منسٹر سسٹم ” کہا جاتا ہے۔ ویسٹ منسٹر سسٹم کے طرز پر چلنے والی بیشتر جمہوریتوں میں کچھ الفاظ اور فقروں پر اتفاق موجود ہے، جن کو غیر پارلیمانی سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح مختلف ممالک کے پاس باقاعدہ فہرست ہوتی ہے، جس میں وہ الفاظ یا فقرے درج ہیں، جن کو غیر پارلیمانی قرار دیا جا چکا ہے، اور ممبران سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ان کے استعمال سے اجتناب کریں۔
مثال کے طور پردنیا کی بیشتر اچھی اور کامیاب جمہوریتوں میں کسی ممبر کو جھوٹا کہناغیر پارلیمانی لفظ قرار دیا جا چکا ہے۔ کینیڈین پارلیمان نے تو بہت پہلے 1969 میں ہی اس لفظ کو غیر پا رلیمانی قراردے دیا تھا۔1875 سے لیکر آج تک کینیڈیں پارلیمنٹ نےجتنے الفاظ اور فقروں کو غیر پا رلیمانی قرار دیا ہے ، ان کی فہرست ویب سائیٹ پو موجود ہے۔ اس فہرست میں ایک سو سولہ آِئٹم ہیں۔ بھارت میں پارلیمنٹ نے اس سلسلے میں سن2012 میں ایک کتاب شائع کی تھی۔ اس کتاب میں ان الفاظ اور فقروں کی فہرست ہے، جن کو غیرپارلیمانی قرار دیا جا چکا ہے۔ ان میں علی بابا اور چالیس چور، گھٹیا آدمی، برا آدمی، بد معاش،اندھا، بہرا، بے وقوف، کنفیوزڈ آدمی، ڈاکو، غنڈا، سست اور جھوٹا سمیت کئی الفاظ اور فقرے شامل ہیں۔
اس طرح آئرلینڈ کی پارلیمنٹ میں عام الفاظ کے علاوہ فاشسٹ اور کمیونسٹ کے الفاظ بھی جب گالی کے معنوں میں استعمال کیے جائیں تو ان کو غیر پارلیمانی الفاظ قرار دیا جاتا ہے۔ اس طرح آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی پارلیمان کی ویب سائٹ پرایسے الفاظ اور فقروں کی فہرست ہے، جو غیر پارلیمانی تصور کیے جاتے ہیں۔ برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز کی اس سلسلے میں دنیا بھر میں اور خصوصاً کامن ویلتھ میں نقالی کی جاتی ہے۔ اس پارلیمان نے لمبی تاریخ کے دوران کئی الفاظ کو غیر پارلیمانی قرار دیا ہے۔ ان میں جھوٹا، منافق، بے وقوف اور غدار جیسے الفاظ غیر پارلیمانی قرار دیے گئےہیں۔
کچھ پارلیمان ایسے بھی ہیں، جن میں غیر پارلیمانی الفاظ کی کوئی فہرست نہِیں ہے، لیکن ممبران بہرحال شائستہ زبان استعمال کرتے ہیں، اور اخلاق کا دامن تھامے رکھتے ہیں۔ یہ سلسلہ ان ممالک میں ہے ، جہاں آزادی اظہار رائے کے نام پر پارلیمان کے ممبران پر کسی قسم کی پابندی کو غلط سمجھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر بلجئیم میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایک جمہوری ریاست کے اندر آزادی سے بولنا ایک ممبر کا آئینی حق ہے۔ یہاں اظہار رائے کی آزادی کے نام پر ایک ممبر کو سب کچھ کہنے کی آزادی ہے لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ دوسرے ممبران کو گالیاں دے یا ناشائستہ زبان استعمال کرے۔
دنیا کی بیشتر پارلیمان کے ممبران کے ساتھ “آنریبل” یعنی عزت مآب کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک ممبر کی طرف سے دوسرے عزت مآب ممبر کو چور، ڈاکو یا لچا لفنگا کہنا کافی عجیب لگتا ہے۔
دنیا بھر کی پارلیمان اور اسمبلیوں کے اندرممبران کو نا شائستہ، غیر اخلاقی یا غیر پارلیمانی زبان کے استعمال سے روکنے کا باقاعدہ میکانزم اور طریقہ کار موجود ہے۔ بہت ہی نرم سطح پر سپیکر ایسے الفاظ ستعمال کرنے والوں کو اپنے الفاظ واپس لینے کو کہہ سکتا ہے، ان الفاظ کو اسمبلی کی کاروائی سے حذف کرنے کا حکم دے سکتا ہے۔ کچھ پارلیمان میں اگر ممبر ایسا کرنے سے انکار کر دے تو اس کو سپیکر معطل کرنے اور باہر نکلنے کا حکم جاری کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ہر اسمبلی کے اپنے قوانین و روایات ہیں۔
ساری روایات اور قواعد و ضوابط کے باوجود بسا اوقات جس طرح کی زبان پاکستان کی پارلیمان میں بولی جاتی ہے، یا جو حرکات و سکنات، اور اچھل کود کی جاتی ہیں، اس کی ٘مثال دنیا کی کسی باعزت اسمبلی میں موجود نہیں ہے۔اگراس طرز عمل پر سوال اٹھایا جائے تو کسی غیر جمہوری یا نیم جمہوری ملک کی مثال پیش کر کہ اپنے اس غیر اخلاقی عمل کو جوا زیت مہیا کی جاتی ہے۔ حالاں کہ مثال ہمیشہ اپنے سے بہتر کی ہی بنتی ہے، اور نقل تو لازمی طور پر بہتر کی ہی جائے تو تب ہی سود مند رہتی ہے۔
یہ تو پارلیمانی اور غیر پارلیمانی الفاظ کی بات ہے، لیکن جس اسمبلی میں عزت مآب ممبر اف پارلیمنٹ دوسرے عزت مآب ممبر کو ماں بہن کی ننگی گالیاں دے۔ اور گالی کو دوسرے کو بے عزت کر کہ چپ کرانے کے لیے باقاعدہ بطور ہتھیار استعمال کرے وہاں پارلیمانی یا غیر پارلیمانی زبان کی کیا بات کی جائے۔ یہ زوال ، اخلاقی گراوٹ، اور پستیوں میں گرنے کی آخری حد ہے، جس کا الفاظ میں احاطہ کرنا نا ممکن ہے۔
یہ بات نہیں ہے کہ پاکستان میں ماضی کی پارلیمان میں کبھی غیر شائستہ زبان استعمال نہیں ہوئی۔ یا مار دھاڑ اور دھکم پیل نہیں ہوئی۔ یقیناً اس کی مثالیں موجود ہیں، اور قابل مذمت ہیں۔ ان کا کوئی جوا ز موجود نہیں ہے۔ لیکن گزشتہ دو اڑھائی سال میں جس سکیل پر یہ واقعات ہو رہے ہیں، ان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اس ادارے کو شعوری طور پر بے توقیر کیا جا رہا ہے۔ چور، ڈاکو، منافق، اور جھوٹے جیسے الفاظ کو دنیا بھر کی پارلیمان نے غیر پارلیمانی قرار دیا ہے ، لیکن ہمارے ہاں ان الفاظ کا استعمال بڑی کثرت سے ہو رہا ہے۔
اس طرز عمل کو اگر پارلیمان کی مجموعی کارکردگی سے جوڑ کر دیکھا جائے تو مایوس کن تصویر ابھرتی ہے۔مغربی جمہوریتوں میں جس زبان کو با قاعدہ غیر پارلیمانی، نا شائستہ اور غیر اخلاقی قرار دیا جا چکا ہے، ہمارے ہاں اس سے اجتناب تو ایک طرف یہاں نوبت یہاں تک پہنچ چکی کہ گندی گالیوں کے تبادلے کا مقابلہ ہوتا ہے، جو پارلیمان اور عوام کے منہ پر طمانچہ ہے۔۔
♣