امریکا کی طالبان پر تنقید، غنی حکومت کی مدد کے عزم کا اعادہ

طالبان کی قیادت نے افغان صدر اشرف غنی کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا تاہم صدر بائیڈن نے اشرف غنی کو امریکی حمایت جاری رکھنے کا یقین دلایا ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ صدر غنی کے استعفے کے بغیر پائیدار امن ممکن نہیں۔

وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے افغان ہم منصب اشرف غنی سے 23 جولائی جمعے کی شام فون پر بات چیت کی اور انہیں ایک بار پھر اپنی مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ ان کی انتظامیہ افغان سکیورٹی فورسز کے لیے مالی امداد کے ساتھ ساتھ افغان عوام کو بھی انسانی بنیادوں پر مدد اور ترقیاتی امداد بھی فراہم کرتی رہے گی۔ اطلاعات کے مطابق امریکی اور افغان صدور نے اپنی بات چیت میں طالبان کی طرف سے جاری حملوں پر نکتہ چینی بھی کی۔

وائٹ ہاؤس نے اس فون کال سے متعلق جو بیان جاری کیا، اس میں کہا گيا ہے، صدر بائیڈن اور صدر غنی نے اس بات پر اتفاق کیا کہ طالبان کی موجودہ کارروائیاں ان کے اس دعوے کی براہ راست مخالف ہیں کہ وہ افغان تنازعے کو مذاکرات سے حل کرنے کے حامی ہیں‘‘۔

ایک ایسے وقت پر جب افغانستان سے بیرونی فورسز کا انخلا جاری ہے، افغان دستوں کے خلاف طالبان کے حملوں میں کافی تیزی دیکھی گئی ہے اور طالبان کی پیش قدمی جاری ہے۔ جمعے کے روز ہی افغان حکام نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا تھا کہ افغان فضائیہ کے پاس نئے حالات سے نمٹنے کے لیے ساز و سامان اور تربیت کی کمی ہے اور صدر بائیڈن نے اشرف غنی سے بات چيت کے دوران اس مسئلے پر بھی تبادلہ خیال کیا ہے۔

صدر جو بائیڈن نے جمعے کے روز ہی ان فغان شہریوں کی امریکا منتقلی کے لیے دس کروڑ امریکی ڈالر کی رقم کی منظوری بھی دے دی، جو افغانستان میں امریکی فوج کی مختلف شعبوں میں مدد کرتے رہے ہیں۔ امریکا اس وقت ان ہزاروں افغان شہریوں کا بھی افغانستان سے انخلا کر رہا ہے، جو گزشتہ بیس برسوں کے دوران وہاں امریکی فوج کی مدد کرتے رہے اور اب انہیں طالبان کی طرف سے شدید خطرات لاحق ہیں۔

امریکا نے ایسے افغانوں کو خصوصی امیگرینٹ ویزے جاری کیے ہیں۔ گزشتہ روز ہی امریکی وزارت خارجہ نے امریکا کے لیے کام کرنے والے افغان مترجمین پر طالبان کے مبینہ حملوں اور اہم حکومتی اداروں کی تباہی کے باعث طالبان کی مذمت کی تھی۔

اگر چہ امریکا افغان صدر اشرف غنی کی حکومت کی حمایت  کرتا ہے تاہم طالبان کا کہنا ہے کہ جب تک افغانستان میں اقتدار اشرف غنی کے ہاتھوں میں ہے، تب تک ملک میں پائیدار امن ممکن نہیں۔ گزشتہ روز ہی طالبان کے ایک ترجمان سہیل شاہین نے بھی کہا تھا کہ وہ اقتدار کے بھوکے نہیں ہیں تاہم جب تک صدر اشرف غنی کو ہٹایا نہیں جاتا، اس وقت تک کابل میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ ان کا کہنا تھا، میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ طالبان اقتدار کی طاقت پر کوئی اجارہ داری نہیں چاہتے‘‘۔

خبر رساں ادارے اے پی سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ ماضی میں جن حکومتوں نے بھی افغانستان میں اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کی، وہ کامیاب نہیں ہوئیں اور ہم اس طرح کے کسی فارمولے کو دوہرانا نہیں چاہتے‘‘۔تاہم انہوں نے کہا کہ وہ اشرف غنی کی حکومت کو بھی قطعی برداشت نہیں کریں گے جو جنگ کا ہوّا کھڑا کرنے پر یقین رکھتے ہیں‘۔

سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ حکومت بار بار جنگ بندی کی بات کرتی ہے لیکن اشرف غنی کے رہتے ہوئے جنگ بندی کا مطلب طالبان کو سرنگوں کرنا ہے۔ وہ مصالحت نہیں، سرنڈر چاہتے ہیں‘‘۔ان کا کہنا تھا، کسی بھی جنگ بندی سے پہلے ایک ایسی نئی حکومت کے قیام کا معاہدہ ہونا چاہیے، جو ہمیں اور تمام افغان شہریوں کو تسلیم ہو۔ پھر کوئی جنگ نہیں ہو گی۔‘‘

طالبان کا کہنا ہے کہ وہ اسی صورت میں اپنے حملے بند کریں گے جب اشرف غنی کی حکومت کو تحلیل کر کے گفت و شنید کے بعد ایک متفقہ نئی حکومت کا قیام عمل آئے گا اور پھر لڑائی بھی رک جائے گی‘۔

دو روز قبل ہی امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے پینٹاگون میں ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ طالبان نے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے کی جنگ میں بظاہر اسٹریٹیجک برتری‘ حاصل کر لی ہے۔ جنرل مارک ملی کے بقول طالبان نے اہم شہروں پر اپنا دباؤ بڑھا دیا ہے اور آئندہ ہفتوں میں کسی فیصلہ کن معرکے کے لیے اسٹیج تیار ہو گیا ہے۔

جنرل ملی کا کہنا تھا، ”اب قوت ارادی اور افغان قیادت، افغان عوام، افغان سکیورٹی فورسز اور افغان حکومت، سب کا امتحان ہونے والا ہے‘‘۔

dw.com/urdu

Comments are closed.