طالبان کے عروج سے القاعدہ کے سرگرم ہونے کے خطرے میں اضافہ

افغانستان میں جس برق رفتاری سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہے اس سے بائیڈن انتظامیہ کو القاعدہ کے دوبارہ سرگرم ہوجانے کا خطرہ لاحق ہے۔ واشنگٹن اسی کے ساتھ ملک میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور روس اور چین کے سائبر حملوں کا مقابلہ بھی کرنا پڑ رہا ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ میں انسداد دہشت گردی کے شعبے کے سینیئر ڈائریکٹر کرس کوسٹا کہتے ہیں کہ افغانستان سے امریکی فورسز کی تیز رفتار انخلاء اور طالبان کے عروج کے ساتھ ہی ”میرے خیال میں القاعدہ کو بھی موقع مل گیا ہے اور وہ اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے،اس پیش رفت نے ”جہادیوں کو ہر جگہ متحد ہونے کا موقع فراہم کردیا ہے۔

امریکا کے ٹوئن ٹاورز پر گیارہ ستمبر کو حملہ کرنے والے القاعدہ کے کارکنا ن افغانستان میں گزشتہ 20 برسوں کی جنگ کے دوران بڑی حد تک ختم ہوچکے ہیں اور یہ بات ابھی بہت زیادہ واضح نہیں ہے کہ آیا مستقبل قریب میں وہ امریکا پرنائن الیون جیسے تباہ کن حملے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں۔ بالخصوص ایسے حالات میں جبکہ پچھلے دو دہائیوں کے دوران امریکا نے جاسوسی اور دیگر حفاظتی اقدامات سے خود کو بڑی حد تک مستحکم کر لیا ہے۔

تاہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جون میں شائع ایک رپورٹ کہتی ہے کہ القاعدہ کی اعلی ترین قیادت اب بھی افغانستان میں موجود ہے اور  سینکڑوں مسلح جانباز بھی ان کے ساتھ ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان، جس نے گیارہ ستمبر کے حملوں سے قبل القاعدہ کے جنگجووں کو پناہ دی تھی، ”اب بھی دوستی، جد و جہد کی مشترکہ تاریخ، نظریاتی ہمدردی اور ایک دوسرے کے درمیان شادی بیاہ کے رشتوں کی وجہ سے ایک دوسرے کے قریب ہیں۔

پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے جمعے کے روز تسلیم کیا کہ القاعدہ افغانستان میں موجود ہے۔ لیکن خفیہ اطلاعات جمع کرنے کی صلاحیت کم ہوجانے کی وجہ سے ان کے بارے میں ٹھوس انداز میں کچھ کہنا مشکل ہے اور اس لیے بھی کہ وہ”کوئی شناختی کارڈ تو لے کر نہیں چلتے ہیں اور نہ ہی کسی رجسٹرمیں ان کا نام درج ہے۔

امریکیوں کے خلاف اسلامک اسٹیٹ(آئی ایس) کے ممکنہ حملوں کے خدشے کی وجہ سے امریکی فوج کو کابل میں ہوائی اڈے کی حفاظت کے لیے نئے طریقے اختیار کرنے پڑے ہیں۔  ماضی میں طالبان اور آئی ایس ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا رہے ہیں لیکن اب پریشانی کی بات یہ ہے کہ افغانستان ایک بار پھر ایسے متعدد انتہا پسندوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن سکتا ہے جو امریکا اور دیگر ملکوں پر حملے کرنا چاہتے ہیں۔

امریکی صدرجوبائیڈن کے قومی سلامتی مشیر جیک سولیوان نے پیر کے روز نامہ نگاروں سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا کہ بائیڈن کو اس بات کا مکمل اطمینان ہے کہ امریکا نے انسداد دہشت گردی کے حوالے سے جو صلاحیتیں پیدا کرلی ہیں ان کی مدد سے دہشت گردی کو کچل کر رکھ دیا جائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ انٹلیجنس برادری کو اس بات پر یقین نہیں ہے کہ القاعدہ کے پاس امریکا پر حملہ کرنے کی صلاحیت ہے۔

امریکا کا خیال ہے کہ اس نے ہوائی اڈوں پر اسکریننگ اور جدید ترین جاسوسی کے آلات کی وجہ سے خود کو اتنا مستحکم کر لیا ہے کہ 20 برس پہلے کے مقابلے اب کسی بھی حملے کو زیادہ آسانی سے ناکام بنا یا جا سکتا ہے۔ تاہم بعض ماہرین کا خیال ہے کہ کسی حملے کی پیشگی تدارک کے لیے خفیہ معلومات حاصل کرنا بہت ضروری ہوتا ہے اور افغانستان سے افواج کے انخلاء کی وجہ سے اس پر اثر پڑے گا۔

لیکن اب امریکی قومی سلامتی کو کچھ نئے خطرات بھی لاحق ہوگئے ہیں۔ اس میں چین اور روس کی جانب سے ہونے والے جدید ترین سائبر حملے شامل ہیں۔ یہ حملے امریکا کے انتہائی اہم انفرااسٹرکچر کو معذور بناسکتے ہیں۔اس کے علاوہ داخلی دہشت گردی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جس کا مظاہرہ امریکی دارالحکومت میں چھ جنوری کو دیکھنے کو ملا تھا۔

ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرس ورے کا خیال ہے کہ سفید فام پسندوں اور نسلی طورپر سرگرم انتہا پسندو ں کی گرفتاریوں کی تعداد سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا خطرہ کتنا بڑھ گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملازمت کے پہلے سال کے بعدسے ایسے افراد کی گرفتاریوں کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔

جارج ٹاون یونیورسٹی میں انسداد دہشت گردی امور کے ماہر بروس ہوف مین کہتے ہیں،”میری پریشانی یہ ہے کہ آپ سن 2001 کا موازنہ آج سے نہیں کرسکتے۔ حالانکہ پہلے سے زیادہ وسیع، بہتر اور منظم بیورو کریسی ہے لیکن یہ صرف دہشت گردی ہی نہیں بلکہ کئی دوسرے معاملات کے بوجھ تلے دبا ہوئی ہے۔

ہوف مین کا خیال ہے کہ گو کہ القاعدہ امریکا کے خلاف حملوں کے لیے افغانستان کو فی الحال لانچ پیڈ کے طور پر استعمال نہیں کرے گا لیکن وہ  خطے میں خود کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے اپنے کاموں کو مربوط کرسکتا ہے۔ ”دہشت گرد گروپ کسی ٹرین یا ہوائی جہاز کے نظام الاوقات کے مطابق تو کام کرتے نہیں بلکہ جب کوئی چیز ان کے مطابق ہوتی ہے تو وہ اپنا کام انجام دے دیتے ہیں اور القاعدہ ایسا ہی کرتی رہی ہے۔ وہ بڑی خاموشی سے اس امید میں اپنی بنیاد تیار کرتے رہتے ہیں کہ یہ کبھی نہ کبھی کام آئے گی اور انہیں کامیابی ملے گی“۔

امریکی محکمہ خارجہ میں انسداد دہشت گردی سرگرمیوں کے سابق کوارڈی نیٹر نیتھن سیلزکہتے ہیں،”حالیہ دنوں تک میرا خیال تھا کہ القاعدہ کی طرف سے خطرے کا امکان بہت کم ہے۔ افغانستان میں ان کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہیں ہے۔ ان کی اعلی قیادت بکھر چکی ہے۔ لیکن اب جبکہ افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہوگیا ہے۔ سب کچھ تبدیل ہوسکتا ہے اور یہ تبدیلی بڑی تیزی سے ہوسکتی ہے“۔

dw.com/urdu

Comments are closed.